فقہ شافعی سوال نمبر – 0332
سوال:نمبر/ 0332
اگركسى عورت كاحمل1/ مہينه يا 40/دن كے اندر ساقط هوجاےاوراس كا خون 40/دن يا60/دن تک جارى رهے تواس خون كاكياحكم ہے؟
جواب: اللہ تعالی کاارشاد..ھم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیداکیاپھر ھم نے اسے نطفہ بنایا جوکہ ایک مدت معینہ تک رحم میں رھا پھر ھم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنادیا پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کی بوٹی بنایا (المومنون:14)..
حضرت عبداللہ ا بن مسعود رض سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بلا شبہ تم کو اپنی ماں کی پیٹ میں چالیس دن تک(نطفہ کی شکل میں) جمع کیا جاتا ھے پھروہ نطفہ چالیس دن تک خون کا لوتھڑا بن کر رہتا ھے پھر گوشت کی بوٹی بنکر چالیس دن تک رھتا ھے (بخاری:3332)
فقہاء کرام نے مذکورہ دلائل سے استدلال کیا ہے کہ عورت کے حمل میں نطفہ چالیس دن تک رہتاہے.پھر خون کا لوتھڑا بن کر رہتا ھے پھر چالیس دن تک گوشت کی بوٹی بنکر رھتا ھے لھذا اگر کسی عورت کا حمل ایک مہینہ یا چالیس دن کے اندر ساقط ہوجاے اس کے بعد خون جاری ھوتو یہ خون نفاس کا شمار نہیں ہوگا کیوں کہ چالیس دن کے اندر عورت کے حمل سے جو چیز ساقط ھوجاتی ھے وہ منی ہی ہے.لہذایہ خون اس کی عادت کے مطابق نکلے توحیض ہوگا یاعادت سے زیادہ نکلے توپندرہ دن تک توحیض ہی شمارہوگا اس کے بعد استحاضہ کاشمار ہوگااس لیے کہ نفاس کا اطلاق اس خون پرہوتا ہے جوبچہ کی ولادت یاعلقہ ومضغہ کے خروج کے بعدنکلتا ہے .اورجب حمل علقہ یا مضغہ کی شکل میں ساقط ہوجاے تواس وقت غسل ولادت بھی واجب ہوتاہے اورجس علقہ اورمضغہ میں انسانی خلقت کی ابتداء ہوگی ہوایسے علقہ ومضغہ کے سقوط کے بعدجاری دم نفاس کے بند ہونے پرنفاس کا غسل واجب ہوتا ہے..
وهُوَ أنَّ المَنِيَّ يَمْكُثُ فِي الرَّحِمِ أرْبَعِينَ يَوْمًا لا يَتَغَيَّرُ، ثُمَّ يَمْكُثُ مِثْلَها عَلَقَةً، ثُمَّ يَمْكُثُ مِثْلَها مُضْغَةً، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، والوَلَدُ يَتَغَذّى بِدَمِ الحَيْضِ، وحِينَئِذٍ فَلا يَجْتَمِعُ الدَّمُ مِن حِينِ النَّفْخِ لِأنَّهُ غِذاءٌ لِلْوَلَدِ، وإنَّما يَجْتَمِعُ قَبْلَ ذَلِكَ، (*)
(شرح مسلم::6/146)
(تحفۃ الاحوزی:6/287)
(روضة الطالبين وعمدة المفتين 174/1 )
* (حاشیۃ عمیرہ:1/308)