فقہ شافعی سوال نمبر – 0479
فقہ شافعی سوال نمبر / 0479
*اگر کسی کے پاس چوری کیا ہوا مال ہو اور اب وہ شخص چوری سے توبہ و استغفار کر چکا ہو تو اس مال کا کیا حکم ہے؟
*اگر کسی شخص کے پاس چوری کا مال ہو اور وہ اپنے اس عمل سے سچی پکی توبہ کرچکا ہو تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ چوری کا مال بالکل استعمال نہ کرے اگر وہ چوری کی ہوئی چیز لوٹائی جاسکتی ہو اور اس کا مالک معلوم ہو یا اس کا مالک مر چکا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ چیز اس کے مالک کو لوٹائے، اگر اس کا مالک معلوم نہ ہو یا اس کا انتقال ہوا ہو تو اسکے وارثوں تک اس چیز کو لوٹائے گا ہاں اگر اس کے مالک یا وارثوں کو بھی لوٹانا ممکن نہ ہو تو پورا کا پورا مال مسلمان فقراء و مساکین کے درمیان خرچ کرے گا *
امام النووي رحمة الله عليه فرماتے ہیں قَالَ الْغَزَالِيُّ إذَا كَانَ مَعَهُ مَالٌ حَرَامٌ وَأَرَادَ التَّوْبَةَ وَالْبَرَاءَةَ ؤمِنْهُ فَإِنْ كَانَ لَهُ مَالِكٌ مُعَيَّنٌ وَجَبَ صَرْفُهُ إلَيْهِ أَوْ إلَى وَكِيلِهِ فَإِنْ كَانَ مَيِّتًا وَجَبَ دَفْعُهُ إلَى وَارِثِهِ وَإِنْ كَانَ لِمَالِكٍ لَا يَعْرِفُهُ وَيَئِسَ مِنْ مَعْرِفَتِهِ فَيَنْبَغِي أَنْ يَصْرِفَهُ فِي مَصَالِحِ الْمُسْلِمِينَ الْعَامَّةِ كَالْقَنَاطِرِ وَالرُّبُطِ وَالْمَسَاجِدِ وَمَصَالِحِ طَرِيقِ مَكَّةَ وَنَحْوِ ذَلِكَ مِمَّا يَشْتَرِكُ الْمُسْلِمُونَ فِيهِ وَإِلَّا فَيَتَصَدَّقُ بِهِ عَلَى فَقِيرٍ أَوْ فُقَرَاءَ……. فَإِنَّ الْمَقْصُودَ هُوَ الصَّرْفُ إلَى هَذِهِ الْجِهَةِ وَإِذَا دَفَعَهُ إلَى الْفَقِيرِ لَا يَكُونُ حَرَامًا عَلَى الْفَقِيرِ بَلْ يَكُونُ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَهُ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِهِ عَلَى نَفْسِهِ وَعِيَالِهِ إذَا كَانَ فَقِيرًا لِأَنَّ عِيَالَهُ إذَا قكَانُوا فُقَرَاءَ (المجموع شرح المهذب ٣٣٢/٩) امام الغزالی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: اعلم انّ كل من تاب وفي يده ما هو حرام معلوم العين…. إمّا ان يكون له مالك معين فيجب الصرف اليه أو إلى وارثه….. وإمّا أن يكون لمالك غير معين، وقع اليأس من الوقوف على عينه ولا يدري أنه مات عن وارث ام لا! فهذا لا يمكن الرد فيه للمالك…. فهذا ينبغي أن يتصدق به وإما من مال الفيء والأموال المرصدة لمصالح المسلمين كافة. (احياء علوم الدين :١٦٢/٢)