درس حدیث نمبر 0060
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سورة الانعام– آيت نمبر 021-022-023-024(مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
سوال نمبر/ 0283
سلام پھیرنے کے بعد امام کے لیے بیٹھنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:۔ نماز کے بعد امام کے لیے دائیں جانب رخ کرکے بیٹھنا افضل ہے البتہ امام اگر بائیں جانب یا مقتدیوں کی طرف رخ کرکے بیٹھنا چائیے تو بھی جائز ہے لیکن افضل طریقہ پرعمل کرتے ہویے امام نماز مکمل کرنے کے بعد دائیں جانب رخ کرکے بیٹھے۔
حضرت سدی سے روایت ہے میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب میں نماز پڑوں تو سلام کے بعد کس طرف رخ کرکے بیٹھوں؟ دائیں جانب یا بائیں جانب ؟ تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر دائیں جانب رخ کرکے بیٹھتے ہوئے دیکھا ہے۔(مسلم /١٦٧٤)
اسی طرح بخاری کی روایت میں راوی حدیث حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر اوقات نماز مکمل کرنے کے بعد اپنی بائیں جانب مڑ کر بیٹھے ہوے دیکھا۔(بخاری٨٥٢)
(ﻗﺎﻝ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ) ﻓﺈﺫا ﻗﺎﻡ اﻟﻤﺼﻠﻲ ﻣﻦ ﺻﻼﺗﻪ ﺇﻣﺎﻣﺎ، ﺃﻭ ﻏﻴﺮ ﺇﻣﺎﻡ ﻓﻠﻴﻨﺼﺮﻑ ﺣﻴﺚ ﺃﺭاﺩ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺣﻴﺚ ﻳﺮﻳﺪ ﻳﻤﻴﻨﺎ، ﺃﻭ ﻳﺴﺎﺭا، ﺃﻭ ﻣﻮاﺟﻬﺔ ﻭﺟﻬﻪ، ﺃﻭ ﻣﻦ ﻭﺭاﺋﻪ اﻧﺼﺮﻑ ﻛﻴﻒ ﺃﺭاﺩ ﻻ اﺧﺘﻴﺎﺭ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺃﻋﻠﻤﻪ ﻟﻤﺎ ﺭﻭﻱ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﻛﺎﻥ ﻳﻨﺼﺮﻑ ﻋﻦ ﻳﻤﻴﻨﻪ ﻭﻋﻦ ﻳﺴﺎﺭﻩ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻟﻪ ﺣﺎﺟﺔ ﻓﻲ ﻧﺎﺣﻴﺔ، ﻭﻛﺎﻥ ﻳﺘﻮﺟﻪ ﻣﺎ ﺷﺎء ﺃﺣﺒﺒﺖ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﺗﻮﺟﻬﻪ ﻋﻦ ﻳﻤﻴﻨﻪ ﻟﻤﺎ «ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺒﻲ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﻳﺤﺐ اﻟﺘﻴﺎﻣﻦ» ﻏﻴﺮ ﻣﻀﻴﻖ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻲ ﺷﻲء ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﻭﻻ ﺃﻥ ﻳﻨﺼﺮﻑ ﺣﻴﺚ ﻟﻴﺴﺖ ﻟﻪ ﺣﺎﺟﺔ ﺃﻳﻦ ﻛﺎﻥ اﻧﺼﺮاﻓﻪ۔(کتاب الام:98)
ﺇﺫا ﺃﺭاﺩ ﺃﻥ ﻳﻨﻔﺘﻞ ﻓﻲ اﻟﻤﺤﺮاﺏ ﻭﻳﻘﺒﻞ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﻟﻠﺬﻛﺮ ﻭاﻟﺪﻋﺎء ﻭﻏﻴﺮﻫﻤﺎ ﺟﺎﺯ ﺃﻥ ﻳﻨﻔﺘﻞ ﻛﻴﻒ ﺷﺎء ﻭﺃﻣﺎ اﻷﻓﻀﻞ ﻓﻘﺎﻝ اﻟﺒﻐﻮﻱ اﻷﻓﻀﻞ ﺃﻥ ﻳﻨﻔﺘﻞ ﻋﻦ ﻳﻤﻴﻨﻪ۔(المجموع:3/454)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
اردو ترجمہ شفقت الرحمٰن
عنوان: فرقہ آرائی اور گروہ بندی كے نقصانات
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سورة الانعام– آيت نمبر 019-020(مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
سوال نمبر/ 0282
اگر کوئی شخص عمامہ پہنا ہو اور وہ سر کے کسی حصہ میں مسح کرے تو کیا اس کے سر کا مسح صحیح ہوگا یا نہیں؟
جواب:۔ اگر کوئی شخص عمامہ پہنا ہو اور وہ سر کے پچھلے حصہ کا مسح کرے اور عمامہ پر مسح نہ کرے تب بھی سر کے مسح کا فرض ادا ہوجائے گا اس لیے کہ سر کے مسح میں شرط یہ ہے کہ جن بالوں پر وہ مسح کر رہا ہو وہ بال سر کے حدود سے باہر نہ ہو، نہ آگے کی جانب سے سر سے باہر نہ ہو اور نہ پیچھے کی جانب سے بھی سر کے حصہ سے باہر نہ ہو۔ البتہ اگرکوئی بالوں پر مسح کے بغیر صرف عمامہ پر مسح کرے تو فرض ادا نہیں ہوگا۔ جس کی بناء پر وضو درست نہیں ہوگا۔
علامه عمرانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں۔
فان كان علي راْسه عمامة ولَم يرد نزعتها فالمستحب، وان يمسح بناصيته ويتمم المسح على العمامة،لما روي المغيرة بن شعبة: ان النبي صلى الله عليه وسلم مسح بناصيته وعلى عمامته،فان اقتصر على مسح العمامة لم يجزئه (البيان 1/227)
علامہ کردی رحمة الله عليه فرماتے ہیں
الرابع مسح شيء … من شعرة الرأس .. اومن شعرہ …. في يده بحيث لا يخرج الممسوح من الرأس بالمد من جهة نزوله من اَي جانب كان۔(شرح المقدمة الحضرمية على الحواشي المدنية 1/69)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)