اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0133
اگر کسی شخص نے بھول کر مغرب کی چار رکعت نماز پڑھی اور آخر میں سلام سے پہلے جب اسے یاد آیا تو سجدہ سہو بھی کر لیا تو کیا اس حالت میں اس کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟
جواب:۔ اگر کسی شخص نے مغرب کی نماز بھول کر چار رکعت پڑھی اور آخر میں اس کو یاد آجائے تو سجدہ سہو کرلے تو اس کی نماز درست ہوگی ۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی چار رکعت کے بجائے پانچ رکعت پڑھائی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں پوچھا گیا تو آپ نے سجدہ سہو کیا” (صحیح البخاری ۱۲۲٦)
قال الإمام الروياني: لو سها في صلاة المغرب فزاد ركعة يسجد للسهو و أجزأته صلاته (بحر المذهب ٣٠٥/٢)
قال الإمام العمراني: إذا صلى المغرب أربع ركعات ساهيا سجد للسهو و أجزأته صلاته (البيان ٣٤٠/٢)
Question No/133
If a person prayed four raka’at(instead of three)at maghrib prayer and at the end before salam he remembered and he offered prostration of forgetfulness (sajda e suhu) then in this situation will his salah be valid?
Ans; If a person prayed four raka’ats(instead of three) at maghrib prayer forgetfully and later he remembered and performed prostration of forgetfulness(sajda e suhu) then his salah will be valid..
There is a narration in Bukhari that Once the Prophet mohammed sallallahu alaihi wasallam offered five raka’ats(instead of four) at zuhr prayer. When Allah’s messenger sallallahu alaihi wasallam was asked about this, he performed prostration of forgetfulness(sajda e suhu).. (sahih bukhari 1226)
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
اردو ترجمہ شفقت الرحمٰن
عنوان: موت کی تیاری اور حسن خاتمہ کے اسباب
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
مكۃ المكرّمہ اردو ترجمہ
عنوان / سلف صالحین کا منھج
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0134
اگر والد کے پاس اپنے بچے کا عقیقہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو کیا وہ بچے کے مال سے اسکا عقیقہ کر سکتا ہے؟
جواب:۔ باپ یا ولی بچے کے مال سے عقیقہ نہیں کرسکتا ہے ۔
حضرت ابن عباس سے مروی ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ خود اپنی طرف سے کیا۔(ابوداود: 2831 )
اس حدیث پاک سے فقہاءکرام نے استدلال کیا ہے کہ عقیقہ کے خرچ کا ذمہ دار بچے کا باپ یا اسکی غیر موجودگی میں وہ شخص جس پر اس بچے کا نفقہ واجب ہوتا ہے. چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کا عقیقہ اسلئے کیا کہ حضرت علی تنگدست تھے اور انکی تنگدستی کی بناء ان کا نفقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم تھا۔ لہذا باپ یا ولی بچے کے مال سے عقیقہ نہیں کرسکتا۔
انما يعق عن المولود من تلزمه نفقته من مال العاق لا من مال المولود۔ (المجموع: 8/324)
اما من مال المولود فلا يجوز للولي ان يعق عنه من ذلك،لان العقيقة تبرع وهو ممنوع منه من مال المولود،فان فعل ضمن كما نقله في المجموع عن الاصحاب ۔(مغنی المحتاج:6/180)
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
اتوار _23 _اکتوبر _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سورة المائدة – آيت نمبر 041 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)