پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0388
آتش بازی یعنی پٹاخہ پھوڑنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: مال خرچ کرنے میں فضول خرچی نہ کرو . بیشک اللہ تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ (١)
🗂️حضرت ابن عمررض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اس میں سے ہے۔ (٢)
🗂️حضرت مغیرہ بن شعبہ رض فرماتے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے تمہارے لئے تین چیزوں کو ناپسند کیا ہے. لایعنی باتیں کرنا ,مال کو ضائع کرنا اور کثرت سے سوال کرنا (٣)
📝مذکورہ دلائل کی روشنی میں آتش بازی (پٹاخہ پھوڑنا) میں سب سے پہلی خرابی
بےجا مال کا خرچ کرنا ہے اور مال کا ضائع کرنا لازم آتاہے، اور یہ دونوں ممنوع ہے اور دوسری خرابی کفار کی مشابہت اختیار کرنا ہے اس لئے کہ پٹاخہ بجانا ہندووں کے تہوار دیوالی وغیرہ میں عبادت کا حصہ ہے اور ایک خرابی بسا اوقات اس میں جلنے کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں آگ ہوتی ہے.ان اسباب کی بنیاد پر اتش بازی (پٹاخہ پھوڑنا) ناپسند اور ممنوع ہے۔
📌📖 أن يكون منتفعًا به شرعًا وعرفًا: أي أن تكون له منفعة مقصودة عرفًا ومباحة شرعًا، فلا يصح بيع الحشرات أو الحيوانات المؤذية التي لا يمكن الانتفاع بها أو لا تقصد منفعتها عادة، وكذلك آلات اللهو التي يمتنع الانتفاع بها شرعًا، لأن بذل البدل مقابل مالا نفع به إضاعة للمال، وقد نهى رسول الله – ﷺ – عن إضاعة المال. (٤)
📚📚المراجع📚📚
١.سورہ اعراف:٣١
٢.(ابوداود ٤٠٣١)
٣.(بخاری ١٤٧٧)
٤.الفقه المنهجي ٣/١٨
★تحفۃ المحتاج مع حواشی الشروانی ٧/١٠٠
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0386
اگر کوئی ویزیٹ ویزا پر جدہ آئے اور عمرہ ادا کرنا چاہے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: جو کوئی شخص عمرہ اور حج کے ارادے سے حدود حرم میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اس کے لیے میقات یا محاذات میقات سے احرام باندھنا ضروری ہے. احرام نہ باندھنے کی صورت میں میقات جاکر احرام باندھنا یا تو پھر دم کی ادائیگی کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کی گنجائش ہے
لیکن اگر کوئی شخص جدہ (سعودی عربیہ) وغیرہ تجارت کی غرض ہی سے داخل ہواور عمرہ کی نیت نہ ہو اور بعد میں عمرہ کی ادائیگی کی سبیل پیدا ہوجائے تو جدہ ہی سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
وهُوَ أنْ لا يُرِيدَ دُخُولَ مَكَّةَ، ولا شَيْءَ مِنَ الحَرَمِ، فَلا حُكْمَ لِاجْتِيازِهِ بِالمِيقاتِ، وهُوَ كَسائِرِ المَنازِلِ، لا يَلْزَمُهُ الإحْرامُ مِنهُ، فَإنْ جاوَزَهُ، ثُمَّ أرادَ الإحْرامَ بِحَجٍّ أوْ عُمْرَةٍ، أحْرَمَ مِن مَوْضِعِهِ الَّذِي حَدَثَتْ إرادَتُهُ فِيهِ، ولَمْ يَلْزَمْهُ العَوْدُ إلى مِيقاتِ بَلَدِهِ (١)
🔰🔰المراجع🔰🔰
١. (4/75 لحاوی الکبیر)
﷼. (84/1 منھاج الطالبین)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0385
ایک حاجی پر دم واجب ھو گیاہے لیکن اس کےپاس جانور ذبح کرنے کےلئے پیسہ نہیں ہے لہذا اپنے گھر فون کر کے ایک جانور ذبح کرادیا ہے ایسی صورت میں اس کا یہ دم معتبر ہو گا یا نہیں؟
جواب: الله تعالي كا ارشاد ہے هديا بالغ الكعبة .(١)
نیاز کےطور پرجوجانور ہوتے ہیں،ان کو کعبہ تک پہنچائے جائیں.
📕علامہ ابن کثیر رح اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس بات پر جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ دم کے جانورکو حرم پہچانے سے مراد جانورکوحرم میں ذبح کرکے حرم کے فقراء پر تقسیم کرناضروری ہے. (٢)
📝مذکورہ تفسیرسے یہ بات واضح ہوگی کہ اگر کسی حاجی پر دم واجب ہوجائے اور اپنے گھر پر جانور ذبح کرے تو یہ جانور دم کی طرف سے کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کو حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے.
📌📖ويَخْتَصّ ذَبْحهُ بِالحَرَم فِي الأظْهَر، ويَجُب صَرْف لَحِمهُ إلى مَساكِينهُ. وأفْضَل بُقْعَة لَذَبْح المعتمر المُرُوَّة، ولِحاجّ مَنى.(٣)
📚📚المراجع📚📚
١.(سورہ انعام ٩٥)
٢.(تفسیرابن کثیر:٢/١٣٨)
٣.منهاج الطالبين مع السراج الوهاج ١٦٤
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0384
اگر کوئ شخص ظہر کی نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد مسافت قصر سے زائد سفر کرے. تو کیا وہ ظہر کی قصر کر سکتا ہے. اور کیا وہ عصر کوظہرکے ساتھ جمع کر سکتا ہے.؟
جواب: حضر (اقامت) کی حالت میں جب کسی نماز کا وقت شروع ہو جاۓ اور اس کے ادا کرنے پر بھی قادر ہو. پھر سفر کے لۓ نکلے تو اس کیلۓ اس نمازکودوران سفر قصراداکرنے کی اجازت ہے اس لۓکہ نماز میں حالت ادا کا اعتبار ہے نہ کہ حالت وجوب کا. اسی طرح ظہر و عصر کو دونوں میں سے کسی ایک کے وقت میں جمع کرنا بھی جائز ہے. لہذا اگر کوئ شخص ظہر کی نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد مسافت قصر سے زائد سفر کرے تو وہ ظہر کی نماز قصر اور عصر کو ظہرکے ساتھ جمع کر سکتا ہے.البتہ بہتریہ ہےکہ اگرسفرشروع کرنے سے پہلے ظہرپڑھناممکن ہوتوحضرمیں ہی چاررکعت اداکرکے سفرشروع کرے.اس لئے کہ بعض علماء نے ایسی نمازکوقصرکرنے کی گنجائش نہیں دی ہے.
📌📖إذا دخل عليه وقت الصلاة في الحضر، وتمكن من أدائها، ثم سافر فله أن يقصر،………
لأن الاعتبار في الصلاة بحال الأداء، لا بحال الوجوب (١)
📚المراجع 📚📚
١.البيان ٢/٤٧٣
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0383
خلع اور طلاق کی عدت ایک ہے یا الگ الگ ہے ؟
جواب: اللہ تعالی کا فرمان ہے "والمطلقات يتربصن بانفسهن ثلاثة قروء” (البقرة : 228 )
مطلقہ اپنے آپ کو تین قروء مطلب تین طھر روکے رکھے. مذکورہ آیت مبارکہ کی روشنی میں فقہاء کرام نے یہ مسئلہ تحریر فرمایا ہے کہ مطلقہ کی عدت تین طھر ہے. اب رہی بات خلع کی عدت کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہے "خلع لینے والی کی عدت مطلقہ کی عدت ہے (مصنف ابن ابی شیبہ18773)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ھے کہ خلع لی ہوئی عورت کی عدت مطلقہ یعنی طلاق دی ہوئی عورت کی عدت کی طرح ہے. نیز فقہاء کرام نے ان دلائل کو سامنے رکھتے ہوئےاس بات کی صراحت کی ہے کہ خلع اور طلاق کی عدت ایک ہی ہے (الوسیط 115/6) (اسني المطالب304/5)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0382
اجنبی عوررت کو سامنے یا واٹشپ اور فیس بک پر سلام کرنا اور سلام کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے عائشہ یہ جبریل ہیں وہ کہے رہے ہیں عليك السلام حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے کہا (وعليه السلام ورحمة الله ) (بخاری 6249)
اس حدیث سے علامہ ابن حجر عسقلانی رح نے استدلال کیا ہے کہ مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو سلام کرنا جائز ہے جبکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو
لہذا اگر نوجوان عورت یا عورتوں کی جماعت کو سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتو اس کو سلام کرنا جائز ہے اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہے تو جائز نہیں ہے اور عورت کا جواب دینا بهی جائز نہیں ہے البتہ مرد کو عورت کے سلام کا جواب دینا مکروہ ہے
سَلامُ الرِّجالِ عَلى النِّساءِ والنِّساءِ عَلى الرِّجالِ جائِزٌ إذا أُمِنَتِ الفِتْنَةُ.(فتح الباري:١٤/٥٣)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر(0381)
اگر کسی شخص کا کسی پر قرضہ ہو اور وہ اس کو کہے کہ تم پر جو میرا قرضہ ہے وہ تم میری طرف سے زکوة سمجھ کر رکھ لو یا باقاعدہ زکوة کی رقم اسے دے اور کہے کہ اس کے ذریعہ میرا قرضہ ادا کرو تو اس صورت میں زکوة ادا ہوگی ؟
جواب: اگر کوئی شخص جسکا کسی پر قرضہ ہو اور وہ اس کو کہے کہ تم پر جو میرا قرضہ ہے وہ تم میری طرف سے زکاۃ سمجھ کر رکھ لو تویہ زکاۃ کی ادائیگی کےلیے کافی نہیں ہوگا لیکن اگرقرض دینے والا اس کو زکات دینے کے بعد قرض لینے والا اس زکات کی روپیوں کو بغیر شرط کے اپنے قرضہ کو اداء کرےتو اس صورت میں اس کی زکات اداء ہوجائے گی.(العباب:1/425) (فتح المعین:84).
من دفع زكاته لمديونه بشرط رده عن دينه.. لم يجهز….. وان جعل دينه عليه زكاة.. لم يجهزه.
العباب:١/٤٢٥
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0380
کیا نماز میں چهینکنے کے بعد الحمد للہ اوراس کےجواب میں یرحمک اللہ کہنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
جواب: مسلم شریف اور طبرانی کی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ اگرکوئی نماز میں چھینک آنے پرالحمدللہ کہے تواس سے نمازباطل نہیں ہوگی. لیکن جواب میں یرحمک اللہ کہنادرست نہیں ہے.اس لیے کہ بات کرنے سے نماز ٹوٹ ہوجاتی ہے چوں کہ نماز میں چهینک کا جواب یرحمک اللہ کہنا سامنے والے سے بات کرنا کی طرح ہے البتہ اگر کوئی يرحمه اللہ کہے تو نماز باطل نہیں ہوگی۔واضح رہے سورہ فاتحہ کے دوران الحمدللّٰہ اور اسکے جواب میں یرحمہ اللہ نہیں کہنا چاہیے ورنہ سورہ فاتحہ دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا
(مسلم :537) (طبرانی :4532) (تحفة المحتاج مع حواشي الشرواني 2 / 148) (نهاية المحتاج 2 / 47)
(و لا تبطل بالذكر والدعاء)…..(الا ان يخاطب)…..(كَقَوْلِهِ لِعاطِسٍ رَحِمَك اللَّهُ) لِأنَّهُ مِن كَلامِ الآدَمِيِّينَ حِينَئِذٍ كَعَلَيْك السَّلامُ بِخِلافِ رحمه الله وعَلَيْهِ لِأنَّهُ دُعاءٌ ويُسَنُّ لِمُصَلٍّ عَطَسَ أوْ سُلِّمَ عَلَيْهِ أنْ يَحْمَدَ بِحَيْثُ يَسْمَعُ نَفْسَهُ.
تحفة المحتاج:١/٢٣١,٢٣٢
والتَّشْمِيتُ بِقَوْلِهِ يَرْحَمُهُ اللَّهُ لِانْتِفاءِ الخِطابِ، ويُسَنُّ لِمَن عَطَسَ أنْ يَحْمَدَهُ ويُسْمِعَ نَفْسَهُ خِلافًا لِما فِي الإحْياءِ وغَيْرِهِ.
نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج ٢/٤٧
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0379
مور اور اس جیسے جانور جو کهائے نہیں جاتے ان کے انڈے کهانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: مور اور اس جیسے جانور جو کهائے نہیں جاتے راجح قول کے مطابق کے انڈے کهانا جائز ہے اس لئے کہ وہ پاک ہے اور ان کے کهانے میں کسی قسم کی گهن محسوس نہیں ہوتی ہے
وإذا قلنا بطهارة ببض مالا يؤكل لحمه جاز أكله بلا خلاف لأنه غير مستقذر (المجموع 2 / 556)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0377
اگرکتاکسی گھریامسجدمیں داخل ہوکرفورانکل جاے توکیااس جگہ کوپاک کرناضروری ہے یانہیں؟
جواب: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈالے تو اسے سات مرتبہ دهوئے جس میں ایک مرتبہ مٹی کااستعمال کیاجاے (سنن ابی داود:71)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال کرزبان سے پانی پیے یازبان سے کسی چیزکوچاٹے توسات مرتبہ دھوناضروری ہے جس میں ایک مرتبہ مٹی کے پانی سے دھوناضروری ہے.اس سے پتہ چلاکہ کتے کی نجاست کی بنیاد اوراعتباراس کے تراورگیلے ہونے پرہے.لہذااگر کسی کے گهر میں داخل ہوتو دیکها جائے گا اگر کتا اور گهر کی زمین دونوں خشک ہوتو اس صورت میں گهر کو دهویا نہیں جائے گا اور اگر دونوں میں سے کوئی بھی تر ہوتو ایسی صورت میں زمین کو پاک کرنا ضروری ہے.البتہ پانی بہالیاجاے توبہترہے.
فهكذا لو ماس الكلب ثوبا رطبا او ماس ببدنه الرطب ثوبا يا بسا اووطئ برطبة رجله على ارض او بساط كان كالولوغ في وجوب غسله سبعا فيهن مرة بالتراب . الحاوي الكبير (١/٣١٥)