پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0376
اگرکسی شخص کے بال سرکی حدسے نکلے ہوے ہوں تووضومیں ان بالوں پرمسح درست ہوگایا نہیں؟
جواب: اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : "اپنے سروں کا مسح کرو” (سوره مائدة :6)
اس آیت کی روشنی میں فقہاء نے وضومیں سر یا ان بالوں کا مسح واجب قرار دیا ہے. جو سرکی حد میں ہیں .لہذا اگرکسی کے بال طویل ہونے کی وجہ سے آگے یاپیچھے سے سرکی حدسے باہرنکلے ہوں اوروہ شخص سرپرمسح کے بجاے صرف سرکی حدکے باہران بالوں پرمسح کرے تووضودرست نہیں ہوگا. (مغني المحتاج 1/176)
(فِي حَدِّهِ) أيْ الرَّأْسِ بِأنْ لا يَخْرُجَ بِالمَدِّ عَنْهُ مِن جِهَةِ نُزُولِهِ، فَلَوْ خَرَجَ بِهِ عَنْهُ مِنها لَمْ يَكْفِ حَتّى لَوْ كانَ مُتَجَعِّدًا بِحَيْثُ لَوْ مُدَّ لَخَرَجَ عَنْ الرَّأْسِ لَمْ يَجُزْ المَسْحُ عَلَيْهِ. مغنى المحتاج(١/١٧٤,١٧٥)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0375
جو حضرات کشتی میں نوکری کرتے ہیں کیا وہ قصر کرسکتے ہیں اور ان کے حق میں جمعہ کاکیاحکم ہے؟
جواب: اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : جب تم زمین میں سفر کرو تو پر کوئ حرج نہیں ہے کہ تم نماز کو قصر اداء کرو (سورہ نساء 101)
فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ طویل سفر میں قصر کرنا جائز ہے چاہے وہ سفر سمندری سفرہو یازمینی سفرہو، اگر سمندری سفرکرنے والوں کا کسی جگہ چار دن سے زیادہ ٹهرنے کا قصد ہو یاعام طورپر جہاز کسی ساحل پرچار دن سے زیادہ لنگرانداز ہوتا ہوتو قصر جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس صورت میں وہ مسافرنہیں رہے گا،اور مسافر پر جمعہ ضروری نہیں ہے (البيان 2/450) (البيان 2/543)
وإذا كان ملاح في سفينة له، وكان فيها أهله، وماله، وولده، وهو يسافر في البحر، أحببت له ألا يقصر؛ لأنه في وطنه، وموضع إقامته، فإن قصر الصلاة جاز؛ لأنه مسافر). البيان(٢/٤٤٩)
ولا تجب الجمعة على المسافر . البيان(٢/٥٢٥)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0374
بعض لوگوں کے منہ سے دوران نیند رال نکلتی ہے اسکا کیا حکم ہے پاک ہے یا ناپاک؟
جواب: بعض لوگوں کے منہ سے دوران نیند رال نکلتی ہے اگر وہ رال معدہ سے نکلے یعنی اگر وہ پیلی اوربدبودار ہو توناپاک ہے،اس کے برعکس اگر معدہ سے نہ نکلے بلکہ منہ سے نکلے یااس بات میں شک ہو کہ معدہ سے نکلی ہے یا منہ سے تو یہ رال پاک ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جس کی ہمیشہ معدہ سے رال نکلتی ہے تو فقہاء فرماتے ہیں کہ وہ معاف ہے اگر چہ زیادہ ہو.البتہ اسے بھی دھونامستحب ہے لیکن جسکی ہمیشہ رال نہیں نکلتی تو معاف نہیں ہے بلکہ دھونا ضروری ہے – (حاشية الجمل 274/1)
والماءُ السّائِلُ مِن فَمِ النّائِمِ نَجِسٌ إنْ كانَ مِن المَعِدَةِ كَأنْ خَرَجَ مُنْتِنًا بِصُفْرَةٍ لا إنْ كانَ مِن غَيْرِها أوْ شَكَّ فِي أنَّهُ مِنها أوْ لا، فَإنَّهُ طاهِرٌ نَعَمْ لَوْ اُبْتُلِيَ بِهِ شَخْصٌ فالظّاهِرُ كَما فِي الرَّوْضَةِ العَفْوُ انْتَهَتْ . حاشية الجمل(١/٢٧٤)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0373
غائبانہ نماز میں بیک وقت متعدد میت کی نیت کرکے نماز پڑهنا درست ہے یا نہیں؟
جواب: غائبانہ نماز میں بیک وقت متعدد میت کی نیت کرکے نماز پڑهنا درست ہے بلکہ مسنون ہے اس لئے کہ غائبانہ نماز میں میت کی تعیین شرط نہیں ہے (مغني المحتاج 2/28)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0372
سلام کرتے وقت السلام علیکم کے بعدورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ کا اضافہ کرنےکا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور فرمایا (السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ومغفرتہ )تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اس کے لئے چالیس نیکیاں ہیں (أبو داؤد 5196)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئ شخص سلام کا جواب دینے میں ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرته کا اضافہ کرتا ہے تو بہتر ہے (اس کے لئے السلام علیکم کہنے پر دس ورحمۃ اللہ پر دس وبرکاتہ پر دس، اور مغفرتہ پر دس اسے کل چالیس نیکیاں ملے گی سنن ابی داؤد کی اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے فقہائےکرام نے سلام میں مذکورہ الفاظ کااضافہ کرنا مشروع اور افضل لکھا ہے ۔ واللہ تعالی اعلم (إعانة الطالبين )
( قوله : وزيادة الخ) اي والافضل زيادة ورحمة الله وبركاته ومغفرته لما تقدم آنفا عن النووي . اعانة الطالبين(٤/٢٨٨)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0371
حائضہ عورت کے لئے خطبہ سننے کے لیے عیدگاہ جاناجائز ہے یانہیں؟
جواب: حضرت ام عطيه رضي الله عنها فرماتي ہیں کہ رسول الله صلي الله وعليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بلوغت سے قریب اور پردہ والی عورتوں اور حائضه عورتوں کو عید میں نکالاگیا، پھر (حکم دیاگیاکہ)
حائضہ عورتیں مصلي (نمازپڑھنے کی جگہ ) سے دور رہیں۔ (تاکہ جگہ کشادہ ہوجاے) اورخیر کے کاموں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر رہیں ( بخاري: 974)
مذکورہ حدیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ حائضہ عورت کے لئے خطبہ وغیرہ سننے کے لئے عید گاہ جانا جائز ہے.
البتہ نمازپڑھنے کی جگہ سے ہٹ کر ایک طرف بیٹھ کرخطبہ سننابہتر ہے.تاکہ تبا سالاگ ھنے والوں کوجگہ تنگ نہ ہوجاے. ( بحر المذهب 231/2)
وذوات الخدور والحيض، قالت أم عطيه ﵂: أما الحيض فكن يعتزلن المصلى ويشهدن الذكر ودعوة المسلمين، والعواتق: جمع عاتق وهي التي قاربت الإدراك، وقيل: هي المدركة ولأنه موضع ريبة واجتماع فاستحب إخراجهن لتكثير الجمع . بحر المذهب(٣/٢٣١)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0370
حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال نکالنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ایک راستے پر ان سے ملاقات کی اس حال میں کہ وہ جنبی تھے، پھر آپ وہاں سے لوٹ گئے، پھر غسل کرکے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’تم کہاں تھے اے ابو ھریرة؟’ تو حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ نے کہا:’میں جنبی تھا، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں آپ کے پاس بغیر پاکی کہ بیٹھوں’. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ! بے شک مسلمان نجس نہیں ہوتا’۔ (بخاری 283) (مسلم 371)
امام بخاری علیہ الرحمہ نے تعلیقا حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جنبی حجامت کرسکتا ہے، اور اپنے ناخن تراش سکتا ہے اور اپنے سر کے بال منڈھا سکتا ہے اگر چہ
کہ وضو بھی نہ کرے۔( بخاري 65/1)
امام نوویؒ نے اس حدیث (بے شک مسلمان نجس نہیں ہوتا) کی شرح میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ حدیث مسلمان کی زندگی اور مرنے کے بعد پاک ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ زندہ شخص بالاجماع پاک ہے۔ ( شرح مسلم 66/4)
جب یہ ثابت ہوگئی کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا تو اس کا پسینہ، لعاب اور آنسوں بھی پاک ہوں گے، چاہے وہ حالت جنابت ہی میں کیوں نہ ہو،ان دلائل کی بنیاد پر حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال اورناخن نکالنے کی اجازت ہوگی۔اورنکالنے پرگناہ بھی نہیں ہوگا
لیکن ائمہ شوافع میں امام غزالیؒ اور امام خطیب شربینیؒ نے فرمایا ہے کہ حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال نہ نکالنا بہتر ہے
إيصال الماء إلى جَمِيع) أجزاء (الشّعْر) ظاهرا وباطنا وإن كثف ويجب نقض الضفائر إن لم يصل الماء إلى باطِنها إلّا بِالنَّقْضِ لَكِن يُعْفى عَن باطِن الشّعْر المَعْقُود ولا يجب غسل الشّعْر النّابِت فِي العين أو الأنف وإن كانَ يجب غسله من النَّجاسَة لغلظها… (١)
_____________(١)الإقناع (٦٩/١)
*اسنى المطالب مع حاشية (٧٠/١)
امام نوویؒ نے اس حدیث (بے شک مسلمان نجس نہیں ہوتا) کی شرح میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ حدیث مسلمان کی زندگی اور مرنے کے بعد پاک ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ زندہ شخص بالاجماع پاک ہے۔ ( شرح مسلم 66/4)
جب یہ ثابت ہوگئی کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا تو اس کا پسینہ، لعاب اور آنسوں بھی پاک ہوں گے، چاہے وہ حالت جنابت ہی میں کیوں نہ ہو،ان دلائل کی بنیاد پر حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال اورناخن نکالنے کی اجازت ہوگی۔اورنکالنے پرگناہ بھی نہیں ہوگا
لیکن ائمہ شوافع میں امام غزالیؒ اور امام خطیب شربینیؒ نے فرمایا ہے کہ حالت جنابت میں بدن کے کسی حصہ کے بال نہ نکالنا بہتر ہے ۔( الاقناع (70/1) (وحاشية مع اسني المطالب 70/1)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0369
بہت سی جگہوں پرمرغوں اوردیگرجانوروں کے مابین کشتی کرائی جاتی ہے.اس طرح کے جانوروں کی تجارت کاکیاحکم ہے؟
جواب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا (أبو داؤد 2562)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جانوروں کو آپس میں لڑانا حرام ہے،اس لئے کہ اس میں جانوروں کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے، اسی وجہ سے لڑاکامرغوں اوراس قسم کےدیگرجانوروں کی بیع کوحرام قراردیا گیاہے، اس لئے کشتی میں استعمال ہونے والے جانوروں کی بیع سے احتیاط برتناضروری ہے.
فَفِي الْمُشَابَكَةِ بِالْيَدِ وَجْهَانِ، وَلَا تَجُوزُ عَلَى مُنَاطَحَةِ الشِّيَاهِ، وَمُهَارَشَةِ الدِّيَكَةِ لَا بِعِوَضٍ وَلَا بِغَيْرِهِ.(١)
_____________(١) روضة الطالبين (٣٥١/١٠)
*اسنى المطالب (١٧٧/٤)
حاشية الجمل (٩٣/٤)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر(0368)
اگر کوئی شخص مسجد کے باہر کهلے آسمان کے نیچے نماز پڑھ رہا ہو تو دوران نماز آسمان کی طرف دیکهنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کو کیا ہوا کہ نماز میں آسمان کی طرف نگاہیں اٹهاتے ہیں یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گذری یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کو چاہئے کہ اس طرح کرنے سے باز آجائیں ورنہ ان کی آنکھیں اچک لئی جائیں گی (بخاری 750 )
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹهانا مکروہ ہے،لہذابغیرضرورت آسمان کی طرف نظراٹھانے سے احتیاط کرناچاہیے.
قال الامام النووي : ويُكْرَهُ أنْ يَرْفَعَ بَصَرَهُ إلى السَّماءِ لِما رَوى أنَسٌ أنَّ النَّبِيَّ ﷺ قالَ ما بالُ أقْوامٍ يَرْفَعُونَ أبْصارَهُمْ إلى السَّماءِ فِي الصَّلاةِ – (المجموع 4/97)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0367
کسی کافر کے جنازے میں شرکت اور شمشان جانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ( جب میرے والدابوطالب کاحالت کفرمیں انتقال ہوا)تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اپنے والد کی تدفین کرو مجهے کچھ نہ کہو یہاں تک کہ تم واپس آجاو پهر میں گیا اور میں نے ان کی تدفین کی ،جب میں لوٹاتومجهے غسل کاحکم دیا اور دعا دی (سنن ابی داؤد 32144)
مذکورہ حدیث کی روشنی میں فقہاء کرام نے مطلقاً جنازے میں شرکت اورتدفین کی گنجائش نقل کی ہے.موجودہ زمانہ میں چوں کہ کفارکے یہاں تدفین کاتصورنہیں ہے. بلکہ جلانے کاتصورہے اس لیے
شمشان جانے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ شریعت مطهرہ کے متصادم ہے.اس لئے .اس سے احتیاط برتناضروری ہے.
في غسل الكافر ذكرنا أن مذهبنا أن للمسلم غسله ودفنه واتباع جنازته(المجموع 5 / 120)