پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0356
مرد کے لے کس دھات کی انگوٹھی پہننا درست ہے؟اوراس کے پہننے کی کیفیت کیا ہے؟
جواب: حضرت انس رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اوراس کانگینہ بھی چاندی کا تھا (بخاری:5870)
حضرت سہل بن سعدرض فرماتے ہیں کہ ایک شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کرواگرچہ بطورمہرلوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو (بخاری :515)
ان احادیث کی روشنی میں مرد کے لئے چاندی لوہا,پیتل,اورسیسہ, کی ایک انگوٹھی یاایک سے زائد انگوٹھی پہننا جائز ہے. جب کہ ایک سے زیادہ انگوٹھی پہننے کارواج ہو اورلوگوں کی عادت ہو، اورانگوٹھی دائیں ہاتھ کی چھوٹھی انگلی میں پہننا افضل ہے.چھوٹھی انگلی سے متصل انگلی اورانگوٹھے میں پہننا جائز ہے. شہادت کی انگلی اوراس سے متصل درمیانی انگلی میں پہننا مکروہ تنزیہی ہے ۔
قوله: يجوز للرجل) ومثله الخنثى، بل أولى.
(قوله: بخاتم فضة)……… ومثل خاتم الفضة: خاتم حديد، أو نحاس، أو رصاص، لخبر الصحيحين: التمس ولو خاتما من حديد. …(قوله: في خنصر يمينه) متعلق بيسن، ويصح تعلقه بيجوز. وخرج بالخنصر: غيره، فيكره وضع الخاتم فيه (اعانة الطالبين.. 243/2)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0354
اگرکوئی حائضہ عورت عصرکے وقت پاک ہوگئی تواسے عصرکے ساتھ ظہربھی ادا کرناضروری ہے؟
جواب: حضرت عبدالرحمن بن عوف ایک حدیث میں نقل کرتے ہیں کہ حایضہ عورت طلوع فجر سے ایک رکعت کی اداییگی کے بقدرپہلے پاک ہوجاے تواس پرمغرب اورعشاء دونوں لازم ہیں اورغروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت کے بقدرپہلے پاک ہوجاے تواس پرعصروظہرواجب ہے.(١)
📝اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ عصرکے وقت حیض سے پاک ہونے والی عورت پرعصرکی نماز کے ساتھ ظہرکی نمازکی قضاء ضروری ہے جب کہ عصرکے وقت میں سے اتناوقت پہلے وہ پاک ہوگی ہوکہ غسل کرکے عصرکی نماز میں سے کم ازکم ایک رکعت وقت کے اندرپڑھ سکے،جیساکہ جس مسافرکوظہرسفرکی وجہ سے اس کے وقت میں پڑھنا ممکن نہ ہوتواس کے لئےعصر کے وقت میں عصرکے ساتھ ظہرکی ادائیگی جمع تاخیرکی صورت میں ادا کرناضروری ہوجاتا ہے.
📌📖لا تلزمه الصلاة الأولى، إلا إذا أدرك من وقت الصلاة الثانية قدر ركعة، وهو الأصح؛ (٢)
📚📚المراجع📚📚
١.(سنن دارمی:١/٦٤٥)
٢.البيان ٢/٤٤
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0353
اگر کوئ شخص جہری نماز کو سرا پڑھے یا سری نماز کو جھرا پڑھے تو کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت قتادہ رض فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے. پہلی رکعت کو دوسری رکعت کی بہ نسبت طویل کرتے اور کبھی کبھی کوئ آیت درمیان میں سے سنا دیتے تھے .(١)
📝حافظ ابن حجررح فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث سری نماز میں جہرا قرات کرنے کے جواز اور اس میں سجدہ سھو نہ کرنے پردلیل ہے. (٢)
📕لہذااگر امام نے کبھی جھری نماز میں سرا(آہستہ ) قرآت کی یا اس کے بر عکس سری نمازمیں جھرا قرآت کی تو اس نماز کی صحت متاثر نہیں ہوگی اور نہ ہی سجد سھو کی ضرورت ہوگی کیونکہ نماز میں قرات سرا(آہستہ) اور جھرا(بلندآوازمیں )پڑھنایہ سنن ہیات میں شامل ہے جس کے ترک پر سجد سھو کی ضرورت نہیں ہے البتہ اس قسم کی سنن ہیئات کوترک کرنا مکروہ تنزیہی ہے .
📌📖قوله : (في موضعه ) اي الجهر و اذا اسر في موضع الجهر او جهر في موضع الاسرار كره الا لعذر.(٣)
📚📚المراجع📚📚
١.بخاری ٧٧٨
٢.فتح الباری ١/٣١١
٣.حاشية البيجوري ١/٢٤٩
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0352
برہنہ غسل کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت معاویہ بن حیدہ رض سے روایت ہے کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم کس قدرستر کریں اورکس قدرچھوڑدیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اپنی بیوی اورباندی کے علاوہ ہرایک سے ستر کروتوانھوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول جب میں تنہا رہوں تواس وقت ستر کے بارے میں کیاخیال ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان سے حیا کی جاے. (١)
📕اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے غسل کے دوران سترکوافضل قرار دیاہے.لہذاغسل کے دوران جس قدرممکن ہوسکے سترپوشی کا اہتمام کرنابہتر اورمناسب ہے.اوراس کی کوشش بھی کرنی چاہی . (٢)
📝البتہ لوگوں کی عدم موجودگی کی صورت میں برہنہ غسل کرنے کاجواز نقل کیا ہے.اس لئے کہ حضرت ابوہریرہ رض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام برہنہ غسل کررہے تھے .
📕واضح رہے کہ لوگوں کے سامنے برہنہ یاستر کا بعض حصہ چھپاکربقیہ ستر کھول کر غسل کرناحرام ہے.اس سے اجتناب ضروری ہے.
📌📖لا يَجُوزُ الغُسْلُ بِحَضْرَةِ النّاسِ إلّا مَسْتُورَ العَوْرَةِ فَإنْ كانَ خالِيًا جازَ الغُسْلُ مَكْشُوفَ العَوْرَةِ والسَّتْرُ أفْضَلُ.(٣)
📚📚المراجع📚📚
١.(ترمذی:٢٧٦٩)
٢.(بخاری:٢٧٨)
٣.المجموع ٢٢٦/٢, ٢٢٧
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0351
بعض لوگ دعائیہ سجدہ کے نام سے نماز کے باہرسجدہ کرکے سجدہ میں دعا مانگتے ہیں،شرعا یہ درست ہے یا نہیں؟
جواب: نماز کے باہرصرف دوہی سجدہ منقول ومشروع ہیں،ایک سجدہ تلاوت اوردوسرا سجدہ شکر،ان دو سجدوں کے علاوہ دعائیہ سجدہ کے نام سے کوئی سجدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ سے ثابت نہیں،بلکہ نماز کے باہرخالص سجدہ کو فقہاء نے حرام اور مکروہ لکھا ہے.واضح رہے کہ شوافع کی طرح احناف کے یہاں بھی دعائیہ سجدہ کا ثبوت نہیں ہے.لہذااس طرح کے سجدہ میں دعا مانگنے کے بجاےسنت نمازوں کے سجدہ میں عربی میں دعا مانگنا درست ہے .
📌📖جرت عادة بعض الناس يسجدون بعد الفراغ من الصلاة فيدعو فيها وتلك سجدة لا يعرف لها أصل ولم تنقل عن الرسول – ﷺ – والصحابة ﵃.
📚📚المراجع 📚📚
١. بحر المذهب ٢/١٩٨
*کتاب الفتاوی:٢/٤٦١
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0350
مسبوق کے لئے پہلی سلام کے بعد کھڑا ہونا ہے یا پھر امام کے دونوں سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہونا ہے؟
جواب: حضرت عتبان ابن مالک رض فرماتے ہیں کہ ہم نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی توجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیری تو ہم نے بھی سلام پھیری .(١)
📝اس حدیث سے پتہ چلا کہ امام کا پہلی سلام پھیرتے ہی مقتدی ومسبوق اس کی اقتداء سے نکل جاتے ہیں ،اورچوں کہ دوسری سلام سنت ہے ،اس اعتبار سے مسبوق امام کی پہلی سلام کے بعد ہی بقیہ رکعت کی ادائیگی کے لیے کھڑا ہوسکتا ہے،البتہ دوسری سلام کے مکمل ہونے کے بعد کھڑا ہونا مستحب ہے،اس لئے کہ حضرت انس رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی متابعت کی جاے .(٢)
📕اورمتابعت کا تقاضہ یہ ہے کہ امام کی دوسری سلام کے بعدکھڑاہونا سنت ہے تاکہ امام کی مکمل متابعت ہو جائے.اس لئے کہ دوسری سلام بھی نماز کا حصہ ہے.
📌📖والسُّنَّةُ لِلْمَسْبُوقِ أنْ يَقُومَ بَعْدَ تَسْلِيمَتَيْ الإمامِ لِأنَّ الثّانِيَةَ مَحْسُوبَةٌ مِن الصَّلاةِ هَكَذا صَرَّحَ بِهِ القاضِي حُسَيْن والمُتَوَلِّي والبَغَوِيُّ وآخَرُونَ ويَجُوزُ أنْ يَقُومَ بَعْدَ تَمامِ الأُولى . (٣)
📚📚المراجع📚📚
١.(بخاری ٨٣٨)
٢.(بخاری ٣٧٨)
٣.المجموع ٤/١٩٠
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0349
اذان سے پہلے اوراذان کے بعد درود شریف پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب: حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مؤذن کوآذان دیتے ہوئے سنوتواس کاجواب دواورآخیر میں مجھ پردرود پڑھواس لئے کہ جس نے مجھ پرایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالی اس پردس رحمتیں نازل فرماتے ہیں(١)
📝اس حدیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ اذان کے جواب کی طرح آہستہ اذان کے بعد درود پڑھنامسنون ہے.
📕لیکن اذان سے پہلے درود پڑھنے کا تذکرہ اکثرعلماء نے نہیں کیا ہے .البتہ بعض علماء نےاذان سے قبل آہستہ درود پڑھنے کا تذکرہ کیا ہے
📕لہذااذان کے بعد دعا اوردرود پڑھنا سب کے لئے مستحب ہے،اوراذان سے قبل مؤذن کے لئے آہستہ درود پڑھنے کی گنجائش ہے
📌📖يُسْتَحَبُّ لِلْمُؤَذِّنِ أنْ يَقُولَ بَعْدَ فَراغِ أذانِهِ هَذِهِ الأذْكارَ المَذْكُورَةَ مِن الصَّلاةَ عَلى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وسُؤالِ الوَسِيلَةِ(٢)
📌📖(و) سن (لكل) من مؤذن ومقيم وسامعهما (أن يصلي) ويسلم (على النبي) (ص) (بعد فراغهما)، أي بعد فراغ كل منهما إن طال فصل بينهما(٣)
📚📚المراجع📚📚
١.(مسلم :٨٤٩)
٢.المجموع ٣/ ١٢٤
٣.إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين، ١/٣٨٢
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0348
کیا زوال کے بعد اور اذان سے پہلے ظہر کی سنت پڑھ سکتے ہے؟
جواب:حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہرنماز کا ابتدائی اورانتہائی وقت ہے.اورظہر کی نماز کا وقت زوال شمس سے شروع ہوتا ہے.اورعصرکا وقت داخل ہوتے ہی ختم ہوتا ہے(١)
📝 اس حدیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ ظہرکی فرض نماز کا وقت زوال شمس سے شروع ہوتا ہے لہذا زوال شمس سے پہلے ظہر کی نماز ادا نہیں ہوگی.اسی طرح فرض نماز کے پہلے کی سنت کا وقت فرض نماز کے وقت سے شروع ہوتا ہے.لہذاظہرکی پہلی سنتوں کا وقت زوال شمس سے شروع ہوگا.چوں کہ اذان سنت ہے .اگر اذان نہ دئ جائے اور فرض پڑھے تو فرض پرھنا صحیح ہے اسی طرح سنت بھی صحیح ہوجائے گی.
📌📖ويدخل وقت هذه السنن – التي تفعل قبل الفرض – بدخول وقت الفرض، ويكون ذلك وقت الاختيار لها، فإذا فعل الفرض.. ذهب وقت الاختيار لها، وبقي وقت الجواز لها إلى خروج وقت الفرض.(٢)
📌📖(ويَدْخُلُ وقْتُ الرَّواتِبِ) اللّاتِي (قَبْلَ الفَرْضِ) بِدُخُولِ وقْتِ الفَرْضِ (و) يَدْخُلُ وقْتُ اللّاتِي (بَعْدَهُ بِفِعْلِهِ)(٣)
📚📚المراجع📚📚
١.(سنن ترمذی:١٥١)
٢.البيان ٢/٢٦
٣.نهاية المحتاج ٢/٧٧
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0347
اگر کوئ طبیب جسم کی رگوں کی تکلیف کے نجات کے لۓکبوتر یا کسی اور پرندے یا جانور کے خون کو لگانا متعین کرے تو کیا بطور علاج اس تکلیف سے نجات کے لۓخون کا لگانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: حضرت ابوهريرة رض فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه و سلم نے خبيث اورناپاک چیزوں کے ذریعہ علاج سے منع فرمایا . (١)
📝اس حدیث سے پتہ چلا کہ نجس اشیاء سے علاج درست نہیں ہے.لہذاعام حالات سے ناپاک اشیاء سے علاج درست نہیں بلکہ بعض خاص صورتوں میں بطورمجبوری درست ہے.اس اعتبارسے
اگر کوئ طبیب جسم کی رگوں کی تکلیف کے نجات کے لۓکبوتر یا کسی اور پرندے یا جانور کے خون کو لگانا متعین کرے اور وہ طبیب مسلمان عادل ہو اور اس مریض کے لۓ اس کے علاوہ کوئ اور علاج نہ ہو یا خون کے زریعہ علاج کی وجہ سے مرض جلدی ٹھیک ہوتا ہوتو ان صورتوں میں ایسے مریض کے لۓکبوتر یا کسی اور جانور کا خون بطور علاج جسم کی رگوں میں لگانابدرجہ مجبوری جائز ہے .
📌📖إذا اُضْطُرَّ إلى شُرْبِ الدَّمِ أوْ البَوْلِ أوْ غَيْرِهِما مِن النَّجاساتِ المائِعَةِ غَيْرِ المُسْكِرِ جازَ لَهُ شُرْبُهُ بِلا خِلافٍ…………… وإنَّما يَجُوزُ ذَلِكَ إذا كانَ المُتَداوِي عارِفًا بِالطِّبِّ يَعْرِفُ أنَّهُ لا يَقُومُ غَيْرُ هَذا مَقامَهُ أوْ أخْبَرَهُ بِذَلِكَ طَبِيبٌ مُسْلِمٌ عَدْلٌ ويَكْفِي طَبِيبٌ واحِدٌ (٢)
📚📚المراجع📚📚
١.(سنن ابى داؤد ٣٨٧٠)
٢.(المجموع ٤٥,٤٦/٩)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0346
آج کل بہت سے نوجوان اپنے ہاتھ میں چاندی کا یا لوہے کا کڑا پہنتے ہیں پوچہنے پر کہتے ہیں کہ یہ اسٹائل ہے لہذا مردوں کے لئے اس طرح کی کسی چیز کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں,اور ان عورتوں پر لعنت کی ہیں جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں(١)
📝اس روایت سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی مشابہت کرنا حرام ہے اور عورت کے مشابہت میں یہ بھی ہیکہ مرد اپنے ہاتھ میں کڑا پہنے چاہے چاندی کا ہو یا لوہے کا ہو یاچمڑےیاربڑ کاہو،یاکسی اورچیز کا ہو،اسکا مرد کے لۓ پہننا حرام ہے,البتہ چاندی اوردیگردھاتوں کی انگوٹھی پہننا مرد کے لۓ جائز ہے-
📕آج کل یہ چاندی یا لوہے کا کڑا پہننا غیرمسلموں کی علامات ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں سے ہے. لہذا ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے.
📌📖وَأَمَّا الْفِضَّةُ فَيَجُوزُ لِلرَّجُلِ التَّخَتُّمُ بِهَا وَهَلْ لَهُ مَا سِوَى الْخَاتَمِ مِنْ حُلِيِّ الْفِضَّةِ كَالدُّمْلُجِ وَالسِّوَارِ وَالطَّوْقِ وَالتَّاجِ فِيهِ وَجْهَانِ قَطَعَ الْجُمْهُورُ بِالتَّحْرِيمِ وَقَالَ الْمُتَوَلِّي وَالْغَزَالِيُّ فِي فَتَاوِيه يَجُوزُ لِأَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ فِي الْفِضَّةِ إلَّا تَحْرِيمُ الْأَوَانِي وَتَحْرِيمُ الْحُلِيِّ عَلَى وَجْهٍ يَتَضَمَّنُ التَّشَبُّهَ بِالنِّسَاءِ . (٢)
📚📚المراجع📚📚
١. (صحیح بخاری ٥٨٨٥)
٢.(المجموع شرح المهذب،٦/٣٢)