پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0345
بعض لوگ موذی چیونٹی کو ختم کر نے کے لۓآگ کا استعمال کرتےہیں اور ان کا کہنا یہ ہوتا ہیکہ دوا سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے؟
جواب: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبیوں میں سے کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انھوں نے سارے چیونٹیوں کو جلانے کا حکم دیاتو اللہ رب العزت نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ آپ کو ایک چیونٹی نے کاٹا تو آپ نے تمام تسبیح کرنے والی چیونٹیوں کو ہلاک کر دیا(صحیح مسلم ٢٢٤١)
امام نووی اس حدیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ "واما فى شرعنا فلا يجوز الاحراق بالنار للحيوان… واما قتل النمل فمذهبنا انه لا يجوز واحتج اصحابنا فيه بحديث ابن عباس (شرح مسلم ٤٩٩/٧)
ان تمام احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہیکہ موذی چیونٹیوں کو آگ سے جلانایاالیکٹرانک شاک سے مارنا جائز نہیں ہے.جیسا کہ مذکورہ کتابوں کی عبارتوں سے واضح ہوتا ہے..الا یہ کہ جلانے یا الکٹرک شاک کے علاوہ کوی چارہ ہی نہ ہو تب ضرورتا اسکا استعمال کر سکتے ہیں (عون المعبود ١١٩/١٤) (نهایة المحتاج٣٣٤/٣)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0344
بائیک اور موٹر چلاتے وقت سلام کرنے وال دور ہو تو صرف اشارے سے سلام کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
بولنے پر قادر شخص کے لیے صرف ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی دور ہو یعنی فاصلہ اتنا ہو کہ سلام کرنے والے کی آواز نہ سن سکتا ہو تو پھر سلام کرتے وقت زبان اور اشارہ دونوں کے ساتھ سلام کرنا ضروری ہے.
الانحناء بالرأس مكروه، والسلام بالِإشارة من غير نطق مكروه في حق الناطق، مستحب في حق الأخرس، فإن كان الذي يسلم عليه بعيدًا جمع بين اللفظ والِإشارة. فتاوى النووي: ١٣٢
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0343
بہت سے لوگوں کی زبان سے لفظ واللہ و اللہ بات بات پر نکلتا ہے.تو کیا شرعا ان کی ہر بات کو حلفیہ مانا جاۓگا یا اس کو عادت شمار کرکےشرعی قسم نہیں مانی جاۓگی؟
جواب: اللہ تعالی کا فرمان: لا يؤاخذكم الله باللغو فى أيمانكم (البقرة ٢٢٥)
علامہ ابن کثیر اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی لغو قسم کے صادر ہونے پر تمہاری نہ کوئ پکڑ کرےگا نہ تم پر کوئ چیز لازم ہوگی. اور لغو قسم سے مراد ایسی قسم جو بغیرقصد و اعتقاد اور بغیر تاکید کے اسکی زبان پر عادت کی وجہ سے جاری ہوجاے(تفسیر ابن کثیر:1/239)
اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ بہت سے وہ لوگ جوبات بات پرلفظ واللہ کہتے ہیں اگریہ ان کی عادت بن گی ہے تو ان کی ہر بات کو شر عا قسم نہیں مانا جا ۓگا.البتہ اگرق قسم کاقصد موجود ہوتوقسم شمار ہوگی.
قال الإمام العمراني رحمه الله:
لغو اليمين): فلا ينعقد، وهو: الذي يسبق لسانه إلى الحلف بالله من غير أن يقصد اليمين، أو قصد أن يحلف بالله: لا أفعل كذا، فسبق لسانه وحلف بالله: ليفعلنه، وسواء في ذلك الماضي والمستقبل.(١)
_____________(١)البيان (٤٣٢/١٠)
(٢) مغني المحتاج (٢٢٥/٦)
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0342
اگر امام صرف ایک مقتدی کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردے یہا ں تک کہ کوئی دوسرا مقتدی آجائے تو اس دوسرے مقتدی کے لئے امام کے ساتھ والے مقتدی کو اپنے ساتھ پیچھے لانے کی کیا کیفیت ہے ؟
جواب: حضرت مقاتل بن حیان رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص پیچھے سے آے اورصف میں جگہ نہ پاے تووہ اپنے ساتھ صف میں سے کسی کوکھینچ لے،اورجس کوکھینچا جارہا ہے اس کوبہت زیادہ اجرہے(بيهقي 5212 )اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ جس کوکھینچا جارہا ہے وہ پیچھے آجاے،اوراس کی کیفیت یہ نقل کی کہ پچھلاشخص رکعت باندھ کراگلی صف کے آدمی کوہاتھ کے ذریعہ پیچھے لے آے.اس اعتبار سے اگر کوئ شخص امام اور مقتدی کی نماز شروع ہونے کے بعد آجائے تو اس دوسرے مقتدی کو چاہئے کہ پیچھے کھڑے رہ کرپہلے تکبیرہ تحریمہ کہہ کر امام کے ساتھ کھڑے مقتدی کو ہاتھ لگائے تاکہ اسے اس کا نماز میں داخل ہونا معلوم ہو.اوروہ پیچھے آکراس کے ساتھ کھڑا ہوجاے،البتہ اگرامام کے آگے کی طرف جگہ ہوتوخود امام بھی آگے بڑھ سکتا ہے تاکہ پیچھے سے آنے والامقتدی پہلے مقتدی کے ساتھ کھڑا ہوسکے.
قال الإمام قاضي ابن شهبة:
ويكره وقوف المأمومِ فردًا) للنهي عنه (٣)، (بل يدخل الصفَّ إن وجد سعةً) ولو كانت السعة في صف متقدم .. خرق الكاملَ؛ لتقصيرهم، (وإلّا) أي: وإن لم يجد سعة (.. فليَجُرَّ شخصًا بعد الإحرام، وليساعده المجرور) لأن في ذلك إعانةً على الخير؛ لتحصل له فضيلةُ الصف، وليخرج من الخلاف.
[بداية المحتاج (٣٤١/١)]
پیر _30 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0341
سوال: اگر کسی دوا میں الکحل ہو تو اس کا استعمال کرنا کیسا ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے اس چیز میں تمہاری شفایابی نہیں رکھی ہے جس کو اس نے تم پر حرام قرار دیا ہے”
الکحل نشہ آور چیز ہے جس کا استعمال جائز نہیں ہے، البتہ فقہاء کرام نے قرآن مجيد كي ایت فمن اضطر غیر باغ ولا عاد … اور فقہی متفقہ قاعدہ الضرورات تبیح المحظورات.کہ حالت مجبوری میں حرام چیزمباح ہوجاتی ہے. کے تحت یہ بات کہی ہے کہ ایسی دواء جس میں الکحل یا اس جیسی نجس یا نشہ آور چیز کی ملاوٹ ہو تو اس کا استعمال اس وقت جائز ہوگا جبکہ اس کے علاوہ مؤثر دوا نہ ہو تو ایسی صورت میں بقدر ضرورت استعمال جایز ہے.ورنہ اس طرح کی دواکا استعمال حرام ہوگا.
للمريض المسلم تناول الأدوية المشتملة على نسبة من الكحول إذا لم يتيسر دواء خال منها ووصف ذلك الدواء طبيب ثقة أمين في مهنته (١)
_____________(١) موسوعة الفقه الإسلامى (٤٩٧/٩)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments