اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0339
امام صاحب کو احتلام ہوا تھا لیکن انہیں خبر نہیں ہوئ اور اسی حالت میں صبح کی نماز پڑھائ پھر دن نکلنے کے بعد انہیں اس کا علم ہوا تو ایسی صورت میں جو لوگ نمازمیں شریک تھے انکی نماز ہوئ یا نہیِں؟
جواب: حضرت براء بن عازب رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا امام جنبی تھا لیکن وہ بھول گیا اور نماز پڑھائ تو مقتدیوں کی نماز ہو جائیگی,پھر امام غسل کر کے اپنی نماز کو لو ٹاۓ (سنن الدارالقطنی ١٣٥٢)
مذکورہ حدیث شریف کی روشنی میں فقہاء کرام نے یہ بات تحریر فرمائ کہ اگر کوئ شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھے بعد میں معلوم ہوا کہ امام صاحب جنبی تھے یا بے وضو تھے تو ایسی صورت میں جو لوگ نماز میں شریک تھے ان کی نماز ہو جائیگی البتہ امام صاحب کی نماز نہیں ہوگی اگر نماز میں داخل ہونے سے پہلے مقتدی کو اسکا علم ہو کہ امام صاحب جنبی تھے یا بے وضو تھے تو ایسی صورت میں مقتدی اور امام دونوں کی نماز نہیں ہوگی دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا, جیسا کہ فقہاء کی عبارت سے معلوم ہوتا ہیں,
قال الإمام الشافعي رحمه الله:
فَمَن صَلّى خَلْفَ رَجُلٍ، ثُمَّ عَلِمَ أنَّ إمامَهُ كانَ جُنُبًا، أوْ عَلى غَيْرِ وُضُوءٍ وإنْ كانَتْ امْرَأةٌ أمَّتْ نِساءً، ثُمَّ عَلِمْنَ أنَّها كانَتْ حائِضًا أجْزَأتْ المَأْمُومِينَ مِن الرِّجالِ والنِّساءِ صَلاتُهُمْ وأعادَ الإمامُ صَلاتَهُ.
ولَوْ عَلِمَ المَأْمُومُونَ مِن قَبْلِ أنْ يَدْخُلُوا فِي صَلاتِهِ أنَّهُ عَلى غَيْرِ وُضُوءٍ، ثُمَّ صَلَّوْا مَعَهُ لَمْ تَجْزِهِمْ صَلاتُهُمْ؛[الأم (٣٢٩/٢)]
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0338
اگر کسی کو خواب میں احتلام ہونے لگے اور اچانک آنکھ کهل جائے اور وہ کسی طرح اسے روکنے میں کامیاب ہو جائے. (جیسے اپنے ہاتھ وغیرہ سےعضو کے کس کر پکڑے)
مطلب اسے منی نکلنے کی لزت تو محسوس ہو. لیکن اس کے روکنے کی وجہ سے ذرا بهی منی نہ نکلے یابغیرتلذذ کے کچھ قطرات نکل جائیں تو کیا اس پر غسل واجب ہوگا؟
جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہےکہ ایک شخص کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ وہ خواب میں احتلام ہونے کو دیکھا لیکن صبح میں تری نہیں پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر غسل واجب نہیں ہوگا . ١
📕فقہائے کرام نے مذکورہ حدیث کی روشنی سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا اگر کسی شخص نے خواب میں دیکھا کہ اس کو احتلام ہو رہا ہے لیکن جب نیند سے بیدار ہوا تو کپڑے پر منی کا کچھ اثر نظر نہیں آیا تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ہوگا،لیکن کسی کومنی کے نکلنے کااحساس ہوااوراس نے منی کے نکلنے کوکسی طرح روک لیالیکن کچھ وقفہ بعد بغیر کسی لذت کے کچھ قطرات یاچکنامادہ نکل جائے جومنی کی صفات کے مطابق ہوتوغسل واجب ہوگا .
📌📖وإن احتلم، ولم يجد البلل، أو شك: هل خرج منه المني؟ لم يجب عليه الاغتسال؛ لما ذكرناه من الخبر.
وإن رأى المني على فراش، أو ثوب يبتذله هو، وغيره، لم يجب عليه الغسل؛ لجواز أن يكون من غيره، والمستحب له: أن يغتسل؛ لجواز أن يكون منه.
وإن تحقق أن المني خرج منه في النوم، ولم يعلم متى خرج منه وجب عليه أن يغتسل، ووجب عليه أن يعيد كل صلاة صلاها بعد أقرب نومة نامها. ويستحب له أن يعيد ما صلى من الوقت الذي تيقن أنه حدث بعده.
قال في «المذهب»: وإن تقدمت منه رؤيا فنسيها، ثم ذكرها عند وجود المني فعليه إعادة ما صلى بعد ذلك؛ لأن معه علامة ودليلا.(٢)
📚📚المراجع📚📚
١.(سنن ترمذی :٣١)
٢.البيان ١/٣٤٧,٣٤٦
★ الحاوي الكبير ١/٢١٣
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0337
کسی کافرکی موت پراناللہ کہنے کا کیاحکم ہے؟
جواب: اللہ تعالی کاارشاد ہےالذین اذااصابتھم مصیبۃ قالوا اناللہ واناالیہ راجعون (البقرہ:156)
کہ مسلمانو ں کوتکلیف لاحق ہوتی ہے تووہ اناللہ پڑھتے ہیں.نیزحضرت ام سلمہ رض فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کوجب کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے تووہی کہتا ہے جس کاحکم اللہ نے دیا ہے یعنی اناللہ کہتا ہے (مسلم:2126)
مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اناللہ کسی مسلمان کوتکلیف پہنچنے پرپڑھنا مشروع ہے،چوں کہ کافرکی موت کسی مسلمان کے لئے تکلیف کاسبب نہیں ہے،اس لئے جمہور علماء نے کافرکی موت پراناللہ پڑھنا کاتذکرہ نہیں کیا ہے. البتہ کافرکی موت پرہمدردی اوربھائی چارگی کااظہار کرنانیزاس سے عبرت حاصل کرناجائز ہے،اس لئے کہ حدیث پاک میں موت کوڈرانے والی چیز قرار دیا ہے (مسلم:960)
اور حضرت جابررض فرماتے ہیں کہ ایک یہودی کے جنازہ کے گذرتے وقت کھڑے ہوگیے توآپ سے کہا گیا کہ یہ یہودی کاجنازہ ہے توآپ نے فرمایا کہ کیا یہ انسان نہیں ہے.(بخاری:1312)
ان دلائل کی روشنی میں کافرکی موت کو باعث عبرت سمجھنااوربھائی چارگی کاثبوت پیش کرنا درست ہے..
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0336
فرض غسل کے بعد ناخن میں کچرا نظرآے توغسل کا اعادہ ضروری ہے؟
جواب: فرض غسل کے بعدناخن میں میل کچیل نظرآے اگروہ اس قدرکم ہے کہ پانی پہنچنے کے لئے مانع نہیں ہے توغسل کا اعادہ ضروری نہیں ہے اوراگروہ پانی پہنچنے کے لیے مانع بن رہا ہے توبعض فقہاء نے ضرورتا اس غسل کودرست قرار دیا ہے.لیکن بہتریہ ہے کہ ناخن کی گندگی صاف کرکے دوبارہ ہاتھ دھولئے جاے. (المجموع:1/353)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0335
رکوع وسجدہ میں تسبیحات اورمنقول ادعیہ کے علاوہ مزید دعائیں کرنے کا شرعا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابوہریرہ رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتاہے،لہذاتم سجدہ میں کثرت سے دعا کرو
اس حدیث کی بناء پرفقہاء نے استدلال کیا ہے کہ سجدہ میں کثرت سے دعاکرناثابت ہے.سجدہ کے ساتھ رکوع میں تسبیحات کے علاوہ بہت سی دعاییں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں،
البتہ رکوع وسجود میں خصوصیت کے ساتھ منقول دعاووں کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیگرموقعوں پرمنقول یامطلقا دنیاوآخرت کی بھلائی کے متعلق دعاووں کاعربی میں رکوع وسجود یاتشہد کے بعد مانگنا بھی درست ہے.البتہ واضح رہے کہ ان طویل دعاووں کا مانگنا امام کے حق میں مکروہ ہے جب کہ مقتدی حضرات اس کی طوالت سے راضی نہ ہوں اورمأموم پران دعاووں کے مقابلہ میں امام کی متابعت واجب ہے.لہذا وہ امام کی متابعت چھوڑ کران دعاووں میں مشغول نہ رہے .البتہ منفرد جتنی چاہے دعائیں کرسکتا ہے. نیز دعا مانگنے کے لیے نماز کے علاوہ خالص سجدہ ثابت نہیں ہے-
📌ويسن للمنفرد ولامام قوم المحصورين راضين بالتطويل الدعاء فيه (2)
📕 المراجع
1) (مسلم:482)
2) (مغنی المحتاج:293/1)
3) (تحفۃ المحتاج:1/210)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0334
مرد کے لے کس دھات کی انگوٹھی پہننا درست ہے؟اوراس کے پہننے کی کیفیت کیا ہے؟
جواب: حضرت انس رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اوراس کانگینہ بھی چاندی کا تھا (بخاری:5870)
حضرت سہل بن سعدرض فرماتے ہیں کہ ایک شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کرواگرچہ بطورمہرلوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو (بخاری :515)
ان احادیث کی روشنی میں مرد کے لئے چاندی لوہا,پیتل,اورسیسہ, کی ایک انگوٹھی یاایک سے زائدپہننا جائز ہے. جب کہ ایک سے زیادہ انگوٹھی پہننے کارواج اورلوگوں کی عادت ہو،اورانگوٹھی دائیں ہاتھ کی چھوٹھی انگلی میں پہننا افضل ہے.چھوٹھی انگلی سے متصل انگلی اورانگوٹھے میں پہننا جائز ہے.شہادت کی انگلی اوراس سے متصل درمیانی انگلی میں مکروہ تنزیہی ہے.. (اعانة الطالبين.. 243/2)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0333
اگرکویی شخص فرض غسل اوروضو سے پہلے اپنا ہاتھ پانی میں بغیر چلو کی نیت سے داخل کرتا ہے تواس پانی سے طہارت کرنے کا کیاحکم ہے؟
جواب: حضرت ابوہریرہ رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص رکے ہوے پانی میں ہاتھ داخل نہ کرے توپوچھا گیا کہ اے ابوہریرہ !پھرپانی کیسے نکالاجاے؟
توحضرت ابوہریرہ رض نے فرمایا کہ چلوسے پانی نکال کرباہرہاتھ دھویا جاے(مسلم:658)
مذكوره حديث سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئ جنبی رفع جنابت كي نيت سےابتداء میں یاوضوکرنے والا چہرہ دھونے کے بعدرفع حدث کی نیت سےقلتین سے کم پانی میں ہاتھ داخل کرے یا مطلقا ہاتھ داخل کرے تو پانی مستعمل ہوگااوراس پانی سے غسل اوروضودرست نہیں ہوگا، البتہ اپناہاتھ چلو(پانی نکالنے) کی نیت سے داخل کرے تو مستعمل نہیں ہوگا ،البتہ اگر پانی قلتین یا اس سے زیادہ ہے تو کسی بھی حالت میں پانی مستعمل نہیں ہوگا چاہے چلوکی نیت کرے یا نہ کرے
إذا غَمَسَ المُتَوَضِّئُ يَدَهُ فِي إناءٍ فِيهِ دُونَ القُلَّتَيْنِ فَإنْ كانَ قَبْلَ غَسْلِ الوَجْهِ لَمْ يَصِرْ الماءُ مُسْتَعْمَلًا سَواءٌ نَوى رَفْعَ الحَدَثِ أمْ لا: وإنْ كانَ بَعْدَ غَسْلِ الوَجْهِ فَهَذا وقْتُ غَسْلِ اليَدِ فَفِيهِ تَفْصِيلٌ ذَكَرَهُ إمامُ الحَرَمَيْنِ وجَماعاتُ مِن الخُراسانِيِّينَ قالُوا إنْ قَصَدَ غَسْلَ اليَدِ صارَ مُسْتَعْمَلًا(١)
ولَمْ يَنْوِ الِاغْتِرافَ بِأنْ نَوى اسْتِعْمالًا أوْ أطْلَقَ صارَ مُسْتَعْمَلًا، فَلَوْ غَسَلَ بِما فِي كَفِّهِ باقِيَ يَدِهِ لا غَيْرَها أجْزَأهُ، أمّا إذا نَوى الِاغْتِرافَ بِأنْ قَصَدَ نَقْلَ الماءِ مِن الإناءِ والغَسْلَ بِهِ خارِجَهُ لَمْ يَصِرْ مُسْتَعْمَلًا ولا يُشْتَرَطُ لِنِيَّةِ الِاغْتِرافِ نَفْيُ رَفْعِ الحَدَثِ (٢)
🔰🔰 المراجع 🔰🔰
١ – (المجموع:220/1)
٢ – (مغني المحتاج :39/1)
(شرح مسلم :524/1)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0332
اگركسى عورت كاحمل1/ مہينه يا 40/دن كے اندر ساقط هوجاےاوراس كا خون 40/دن يا60/دن تک جارى رهے تواس خون كاكياحكم ہے؟
جواب: اللہ تعالی کاارشاد..ھم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیداکیاپھر ھم نے اسے نطفہ بنایا جوکہ ایک مدت معینہ تک رحم میں رھا پھر ھم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنادیا پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کی بوٹی بنایا (المومنون:14)..
حضرت عبداللہ ا بن مسعود رض سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بلا شبہ تم کو اپنی ماں کی پیٹ میں چالیس دن تک(نطفہ کی شکل میں) جمع کیا جاتا ھے پھروہ نطفہ چالیس دن تک خون کا لوتھڑا بن کر رہتا ھے پھر گوشت کی بوٹی بنکر چالیس دن تک رھتا ھے (بخاری:3332)
فقہاء کرام نے مذکورہ دلائل سے استدلال کیا ہے کہ عورت کے حمل میں نطفہ چالیس دن تک رہتاہے.پھر خون کا لوتھڑا بن کر رہتا ھے پھر چالیس دن تک گوشت کی بوٹی بنکر رھتا ھے لھذا اگر کسی عورت کا حمل ایک مہینہ یا چالیس دن کے اندر ساقط ہوجاے اس کے بعد خون جاری ھوتو یہ خون نفاس کا شمار نہیں ہوگا کیوں کہ چالیس دن کے اندر عورت کے حمل سے جو چیز ساقط ھوجاتی ھے وہ منی ہی ہے.لہذایہ خون اس کی عادت کے مطابق نکلے توحیض ہوگا یاعادت سے زیادہ نکلے توپندرہ دن تک توحیض ہی شمارہوگا اس کے بعد استحاضہ کاشمار ہوگااس لیے کہ نفاس کا اطلاق اس خون پرہوتا ہے جوبچہ کی ولادت یاعلقہ ومضغہ کے خروج کے بعدنکلتا ہے .اورجب حمل علقہ یا مضغہ کی شکل میں ساقط ہوجاے تواس وقت غسل ولادت بھی واجب ہوتاہے اورجس علقہ اورمضغہ میں انسانی خلقت کی ابتداء ہوگی ہوایسے علقہ ومضغہ کے سقوط کے بعدجاری دم نفاس کے بند ہونے پرنفاس کا غسل واجب ہوتا ہے..
وهُوَ أنَّ المَنِيَّ يَمْكُثُ فِي الرَّحِمِ أرْبَعِينَ يَوْمًا لا يَتَغَيَّرُ، ثُمَّ يَمْكُثُ مِثْلَها عَلَقَةً، ثُمَّ يَمْكُثُ مِثْلَها مُضْغَةً، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، والوَلَدُ يَتَغَذّى بِدَمِ الحَيْضِ، وحِينَئِذٍ فَلا يَجْتَمِعُ الدَّمُ مِن حِينِ النَّفْخِ لِأنَّهُ غِذاءٌ لِلْوَلَدِ، وإنَّما يَجْتَمِعُ قَبْلَ ذَلِكَ، (*)
(شرح مسلم::6/146)
(تحفۃ الاحوزی:6/287)
(روضة الطالبين وعمدة المفتين 174/1 )
* (حاشیۃ عمیرہ:1/308)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0331
اگر منفرد یا امام کو شک ہو کہ تین رکعت پڑھی یا چار تو منفرد یا امام کم پریقین کرتے ہوے ایک رکعت مزید پڑھنے کے لیے کھڑا ہوگیا لیکن کچھ دیر بعد یعنی (رکوع میں یا سورہ فاتحہ کے دوران) اسے یقین ہو گیا کہ یہ اس کی زاید رکعت ہے تو امام کیا کرے فورا تشہد میں بیٹھے یا رکعت پوری کرے؟
جواب: اگر امام یا منفردکو تيسري يا چوتھی ركعت میں رکعت کی تعداد میں شک ہوجاے، جس کے سبب وہ اقل پر بناء کرتے ہوے ایک رکعت مزید پڑھنے کھڑا ہو جائے اور کچھ دیربعد رکوع یا سورہ فاتحہ کے دوران اسے یقین ہوگیا کہ یہ اسکی زائد رکعت ہے یہاں تک کہ رکوع کے بعد اعتدال وسجدہ میں یادآجاے تو فورا اسکو تشہد میں بیٹھنا ضروري ہے اور سجدہ سہو کرناسنت ہے.
إذا قامَ إلى خامِسَةٍ فِي رُباعِيَّةٍ ناسِيًا، ثُمَّ تَذَكَّرَ قَبْلَ السَّلامِ، فَعَلَيْهِ أنْ يَعُودَ إلى الجُلُوسِ، ويَسْجُدَ لِلسَّهْوِ، ويُسَلِّمَ، سَواءً تَذَكَّرَ فِي قِيامِ الخامِسَةِ، أوْ
رُكُوعِها، أوْ سُجُودِها. وإنْ تَذَكَّرَ بَعْدَ الجُلُوسِ فِيها، سَجَدَ لِلسَّهْوِ، ثُمَّ سَلَّمَ (١)
🔰🔰المراجع🔰🔰
١ – روضة الطالبين وعمدة المفتين ١/٤١٢٫٤١٣
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0330
اگرامام پانچویں رکعت کے لئے سہوا کھڑاہوجاے اورمقتدی حضرات بھی اس کی اقتداء میں کھڑےہوجائیں تواس نمازکا کیاحکم ہے؟
جواب: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہرکی پانچ رکعت پڑھائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاگیا کہ کیارکعات کی تعداد میں اضافہ ہوا؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہوا؟ توصحابہ نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت ادافرمائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہوفرمایا (بخاری :1226)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے استدلال کیا کہ اگرامام سہواپانچ رکعت پڑھ لے پھراسے یادآجاے توسلام سے پہلے سجدہ سہوکرلے اوراگرسلام پھیرنے کے بعد فورا معلوم ہوجاے تب بھی سجدہ سہوکرناسنت ہے.اس صورت میں نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ،البتہ اگرمقتدیوں کوامام کی پانچویں رکعت کا یقین ہوتوانھیں پانچویں رکعت میں امام کی اقتداء نہیں کرنی چاہیے بلکہ بیٹھ کرامام کے تشہد میں آنے کا انتظار یامفارقت کی نیت سے الگ ہونا چاہیے.اس لیے کہ اگرمقتدی کویقین ہے کہ امام سھوا پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوا ہے اوراسے یہ مسئلہ بھی معلوم ہے کہ امام کی اس زاید رکعت میں متابعت کرنا حرام ہے.پھربھی اقتداء کیا توایسے مقتدی کی نماز باطل ہوگی.اوراگراسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ امام کی پانچویں رکعت میں اقتداء کرنا جایز نہیں ہے یااسے پانچویں رکعت کاعلم نہیں تھا تونماز ہوجاے گی.
فَأمّا إذا دَخَلَ مَعَ الإمامِ وقَدْ سَبَقَهُ بِرَكْعَةٍ فَصَلّى الإمامُ خَمْسًا ساهِيًا فَتَبِعَهُ وهُوَ لا يَعْلَمُ بِسَهْوِهِ أجْزَأتِ المَأْمُومَ صَلاتُهُ، فَإنْ تَبِعَهُ وهُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ سَها بَطَلَتْ صَلاتُهُ، (١)
(فَأجابَ) بِأنَّهُ لا يَجُوزُ لِلْمَأْمُومِ مُتابَعَةُ إمامِهِ فِي خامِسَتِهِ إذْ يَجِبُ عَلَيْهِ قَطْعُ القُدْوَةِ وحِينَئِذٍ ولا يَجُوزُ لَهُ انْتِظارُ إمامِهِ بَعْدَ رَكْعَتِهِ (٢)
ولَوْ قامَ إمامُهُ لِخامِسَةٍ ناسِيًا فَفارَقَهُ بَعْدَ بُلُوغِ حَدِّ الرّاكِعِينَ لا قَبْلَهُ سَجَدَ لِلسَّهْوِ كالإمامِ، وقِيلَ: لا يُسَلِّمُ إذا سَلَّمَ الإمامُ بَلْ يَصْبِرُ، فَإذا سَجَدَ سَجَدَ مَعَهُ. هَذا إذا كانَ مُوافِقًا، أمّا المَسْبُوقُ فَيُخْرِجُ نَفْسَهُ ويُتِمُّ لِنَفْسِهِ ويَسْجُدُ آخِرَ صَلاتِهِ (٣)
🔰🔰المراجع🔰🔰
١ – (الحاوی الکبیر:2/230)
٢ – (فتاوی الرملی:1/177)
٣ – (مغنی المحتاج:1/363)