اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0098
اگر پیشاب کئے ہوئے بچے کو نہلاتے وقت کپڑے پر پانی کے چھینٹے اڑ جائیں تو کیا اس کپڑے پر نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ ہجرت کرتے ہوئے نکلے، تو آپ ﷺ نے پانی منگایا، پھر آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا، تو صحابہ آپ ﷺ کے بقیہ پانی لے کر اپنے اوپر ملنے لگے (البخاری/187)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ میری عیادت کے لئے تشریف لائے اس حال میں کہ میں بے ہوش تھا، تو آپ ﷺ نے پانی منگایا اور وضو کیا، اس کے بعد پانی مجھ پر چھڑکا تو مجھے ہوش آیا۔ (بخاری/5477)
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جوپانی فرض وضو یا فرض غسل میں استعمال ہویانجاست کودورکرنے میں استعمال ہونے کے بعد اس پانی میں نجاست کااثرنہ ہو تووہ پانی پاک ہے.البتہ اس سے مزید طہارت حاصل کرنادرست نہیں ہے. لہذاپیشاب کئے ہوے بچہ کونہلاتے وقت پانی کے چھینٹے اڑجائیں تواس کی وجہ سے بدن وکپڑا نجس نہیں ہوگا اور کپڑے پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔جب کہ ان چھینٹوں میں نجاست کااثر نہ ہو (المجموع 217/1)
فإذا اغسل المَحَلُّ النَّجِسُ غَسْلَةً واحِدَةً فَزالَتْ النَّجاسَةُ وحَكَمْنا بِطَهارَةِ المَحَلِّ فَهَذِهِ الغُسالَةُ طاهِرَةٌ
عَلى الأصَحِّ كَما ذَكَرْنا وهَلْ هِيَ مُطَهِّرَةٌ فِي إزالَةِ النَّجاسَةِ مَرَّةً أُخْرى فِيهِ الطَّرِيقانِ السّابِقانِ فِي أنَّ المُسْتَعْمَلَ فِي الحَدَثِ هَلْ يُسْتَعْمَلُ مَرَّةً أُخْرى فِي الحَدَثِ أصَحُّهُما لا.(١)
_____________
(١) المجموع (٢١٨/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر / 0097
بیت الخلاء میں بیٹھ کر باتیں کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:حضرت ابوسعید خذری رض سے روایت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوشخص ایک دوسرے کے سامنے ستر کھول کراورباتیں کرتے ہوے قضاء حاجت نہ کریں ،اس لئے کہ اللہ تعالی اس برے عمل پرغضبناک ہوتے ہیں (سنن ابی داود:15)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے کھلی جگہ میں بغیر کسی آڑ کے قضاء حاجت کرنااوراس دوران باتیں کرنے کی کراہت وممانعت نقل کی ہے،لہذا بیت الخلاء میں باتیں کرنا مکروہ ہے،اوراس سے احتیاط ضروری ہے، البتہ اشد ضرورت ہو تو بات کرنے کی گنجائش ہے- (مغنی المحتاج78/1)
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
ولايتكلم حال قضاء الحاجة بذكر او غيره…اي يكره له ذلك إلا لضرورة (١)
_____________
(١) المغني المحتاج (٧٣/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0096
کیا کتے کی نجاست سے پاکی کے لیے مٹی کے قائم مقام کوئی اور چیز ہوسکتی ہے؟
جواب: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جب کتا برتن میں منہ ڈالے تو اسے سات مرتبہ دهو اور ساتویں مرتبہ میں مرتبہ مٹی استعمال کرو (أبو داؤد 90 )
اس حدیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ کتے کی نجاست کودورکرنے کے لئے سات مرتبہ پانی سے اورسات مرتبہ میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا ضروری ہےاور اظہر قول کے مطابق کتے کی نجاست سے پاکی کے لیے مٹی کا استعمال کرنا ضروری ہے.مٹی کے علاوہ کوئی چیز کافی نہ ہوگی،البتہ مٹی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں بعض فقہاء نے مٹی کے قائم مقام مثلا صابون وغیرہ کے استعمال کی گنجائش دی ہے. (البیان 1/432)
قال الإمام العمراني رحمه الله:
إذا ولغ الكلب في إناء فيه مائعٌ، أو ماءٌ دون القلتين، أو أدخل فيه منه عضوًا، أو وقع فيه شيءٌ من دمه، أو بوله، أو ذرقه.. وجب غسله سبع مرات، إحداهنَ بالتراب …(١)
قال الإمام الإسنوي رحمه الله:
هل يقوم الصابون والأشنان مقام التراب؟
فيه ثلاثة أقوال:
أظهرها: لا، لظاهر الخبر؛ ولأنها طهارة متعلقة بالتراب فلا يقوم غيره مقامه كالتيمم.
والثاني: نعم.
والثالث: إن وجد التراب لم يعدل إلى غيره، وإلا عدل للضرورة، وقيل: يجوز فيما يفسده التراب كالثياب دون الأواني(٢)
_____________(١)البيان (٥٣٧/١)
(٢)المهمات (٨٩/٢)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0095
اگر کسی کپڑے پر منی لگ جائے اور اسی کپڑے پر نماز ادا کرے تو کیا اس کی نماز ہوجائے گی؟
جواب :حضرت اسود رض فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو کھرچا کرتی تهیں پهر اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑهتے تهے (سنن بیهقی 4166)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء شوافع نے منی کوپاک قرار دیا ہے ،لہذااگر کسی شخص نے منی لگے ہوئے کپڑے پر نماز ادا کی تو اس کی نماز درست ہوگی۔
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
وأما مني الأدمي فطاهر على الأظهر.(١)
_____________(١) مغني المحتاج (١٣٧/١)
(٢)كنز الراغبين (١٤٠/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0094
کیا مذی یا ودی کے نکلنے سے غسل فرض ہوتا ہے یا وضو کافی ہے؟ اور کپڑے وجسم پرلگ جاے تودھوناضروری ہے؟
جواب: حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں ایسا شخص ہوں جسے بار بار مذی آتی رہتی ہے، تو میں ٹھنڈی میں بھی غسل کرتا ہوں حتی کہ میری پیٹھ سفید پڑ گئی ہے، تو میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو اس طرح نہ کر، جب تم مذی کو دیکھو تو اپنی ذکر کو دھو لو اور وضو کرو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو ، اور جب پانی ظاہر ہوجائے تو غسل کرو‘‘ یعنی اگر منی نکلے تو غسل کرو۔ (سنن ابی داؤد؍204)
حضرت علیؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مذی کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’مذی نکلے تو وضو کرو، اور منی نکلے تو غسل کرو‘‘ (سنن ترمذی؍114)
فقہاءکرام نے ان احادیث کی روشنی میں فقہاء نے مذی ودی (پیشاب کے پہلے یابعد نکلنے والاچکنامادہ ) کو نجس قرار دیا ہے،اورمذی یا ودی کے نکلنے سے وضو ٹوٹنے کا حکم لگایا ہے،لہذا مذی ودی کے نکلنے پروضوفرض ہوجاتا ہے غسل کی ضرورت نہیں ،نیزکپڑے پر مذی یا ودی لگنے سے کپڑا نجس ہوجاتا ہے، لہذا اس کو دھو لینا چاہئے.
فِي حَدِيثِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ هَذَا فَوَائِدُ: مِنْهَا أَنَّ الْمَذْيَ لَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَأَنَّهُ نَجَسٌ وَأَنَّهُ يَجِبُ غَسْلُ النَّجَاسَةِ (المجموع :2/142)
ولا يجب الغسل من المذي ـ وهو: ماء أصفر رقيق، يخرج بأدنى شهوة من غير دفق، وهو مخفف، يقال: أمذى الرجل يمذي ـ ويجب منه الوضوء، وغسل الموضع الذي يصيبه لا غير.(البیان:1/419)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0093
وضو کے بعد آسمان کی طرف انگلی اٹھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت انس بن مالک رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس نے وضو کیا اورأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين پڑھا تواس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازہ کھول دیے جاتے ہیں کہ وہ جس سے چاہے داخل ہوجاے (السنن الصغير للبيهقي:109)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وضو کے بعد حدیث میں مذکور دعا پڑھنامستحب ہے.نیز احادیث میں موجود دیگردعاووں کا پڑھنا بھی مستحب ہے،اور فقہاء نے دعا کے لئے دونوں ہاتھوں کے اٹھانے کا تذکرہ کیا ہے
وَيُسَنُّ أَنْ يَأْتِيَ بِجَمِيعِ هَذَا ثَلَاثًا كَمَا مَرَّ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ بِصَدْرِهِ رَافِعًا يَدَيْهِ وَبَصَرَهُ (تحفة المحتاج 1/ 84 )
لیکن اس دعا کے پڑھتے وقت شہادت کی انگل ی آسمان کی طرف اٹھانے سے منع کیا ہے اس لئے کی اس کی کوئی دلیل نہیں ہے. اس لئے آسمان کی طرف انگلی اٹھانے سے بچنا چا ہیے.
مُتَوَجِّهَ الْقِبْلَةِ أَيْ بِصَدْرِهِ رَافِعًا يَدَيْهِ وَبَصَرَهُ إلَى السَّمَاءِ وَلَوْ نَحْوَ أَعْمَى كَهَيْئَةِ الدَّاعِي حَتَّى عِنْدَ قَوْلِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَلَا يُقِيمُ سَبَّابَتَيْهِ أَوْ إحْدَاهُمَا كَمَا يَفْعَلُهُ جَهَلَةُ الطَّلَبَةِ مِنْ مُجَاوِرِي الْجَامِعِ الْأَزْهَرِحاشیۃ (الجمل:1/ 214 )
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0092
وتر نماز کی تینوں رکعتوں میں کیا پڑهنا سنت ہے؟
جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربك الأعلى اور دوسری رکعت میں قل يا أيها الكافرون اور تيسری رکعت میں قل هو الله أحد اور قل أعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑهتے تهے (ترمذی 463)
اس حدیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی وتر صرف ایک رکعت پڑھے تو اس ایک رکعت میں سورہ اخلاص سوره فلق سورة الناس پڑھے اور اگر تین رکعت پڑھ رہا ہے تو پہلی رکعت میں سورہ اعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سوره اخلاص سوره فلق اور سوره ناس پڑھے…
إِذا صلى الْوتر رَكْعَة فَقَط قَرَأَ فِيهَا بعد الْفَاتِحَة سُورَة الْإِخْلَاص {قل أعوذ بِرَبّ الفلق} 113 الفلق الْآيَة 1 {قل أعوذ بِرَبّ النَّاس} 114 النَّاس الْآيَة 1 وَإِن صَلَاة ثَلَاثًا قَرَأَ فِي الأولى سُورَة {سبح اسْم رَبك الْأَعْلَى} 87 الْأَعْلَى الْآيَة 1 وَفِي الثَّانِيَة سُورَة الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَة السُّور الثَّلَاث الْمُتَقَدّمَة
(نهاية الزين 102/1)
(نهاية الزين 102/1) {قل أعوذ برب الفلق} {قل أعوذ برب الناس} {سبح اسم ربك الأعلى}
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0091
کیا نماز شکرانہ پڑھنا احادیث سے ثابت ہے ؟
جواب:حضرت ابو بکرة رض روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبهی کوئی خوشی کا معاملہ پیش آتا یا بشارت دی جاتی تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے (سنن ابی داؤد 2774)
حضرت عبداللہ ابن ابی أوفی رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے أبو جهل کے سر کاٹے جانے کی خوشخبری سن کر دو رکعت نماز پڑهی (سنن ابن ماجہ 1391)
مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کے موقع پر دورکعت نماز پڑھی ہے اور سجدہ شکر بهی کیا ہے، انہیں روایتوں کی بناء پر فقہاء کرام نے یہ مسئلہ تحریر فرمایا ہے کہ کسی نعمت کے حصول پر دورکعت نماز پڑهنا مسنون ہے،اسی طرح سجدہ شکربھی مسنون ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ سجدہ شکرکے ساتھ دورکعت سنت نماز کی نیت سے اداکرے .
لَوْ تَصَدَّقَ مَنْ تَجَدَّدَتْ لَهُ النِّعْمَةُ أَوْ انْدَفَعَتْ عَنْهُ النِّقْمَةُ أَوْ صَلَّى شُكْرًا لِلَّهِ تَعَالَى كَانَ حَسَنًا يَعْنِي مَعَ فِعْلِهِ سَجْدَةَ الشُّكْرِ(المجموع 4/78)
فَاَلَّذِي فَهِمَهُ الْمُصَنِّفُ مِنْ كَلَامِ الْبَغَوِيّ الذَّاكِرِ لِسُنِّيَّةِ التَّصَدُّقِ أَوْ الصَّلَاةِ شُكْرًا أَنَّهُ يُسَنُّ فِعْلُ ذَلِكَ مَعَ السُّجُودِ، (نهاية المحتاج 2 /65)
(المجموع 4/78) (نهاية المحتاج 2/103)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0090
اگر امام ایک مقتدی کے ساتھ آخری رکعت کے تشہد میں بیٹھا ہو،اس وقت اگر دوسرا مقتدی آجائے تو جماعت میں ملنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ تم اس کی اقتداء کرو ،لہذاجب امام تکبیر کہے تو تم بهی تکبیر کہو جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو (بخاری 378)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اگر امام ایک مقتدی کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو اور آخری رکعت کے تشہد میں بیٹھا ہو،اس وقت اگر دوسرا مقتدی آجائے تو وہ امام کے بائیں جانب تکبیر تحریمہ کہہ کر امام سے تھوڑاپیچھے ہٹ کربیٹھ جاے،اس کے بعد امام نہ آگے ہوگا نہ مقتدی پیچھے ہوگا.
قالَ أصْحابُنا فَإنْ حَضَرَ إمامٌ ومَأْمُومٌ وأحْرَمَ عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ جاءَ آخَرُ أحْرَمَ عَنْ يَسارِهِ ثُمَّ إنْ كانَ قُدّامَ الإمامِ سَعَةٌ ولَيْسَ وراءَ المَأْمُومِينَ سَعَةٌ تَقَدَّمَ الإمامُ……………هَذا إذا جاءَ المَأْمُومُ الثّانِي فِي القِيامِ فَإنْ جاءَ فِي التَّشَهُّدِ والسُّجُودِ فَلا تَقَدُّمَ ولا تَأخُّرَ حَتّى يَقُومُوا ولا خِلافَ أنَّ التَّقَدُّمَ والتَّأخُّرَ لا يَكُونُ إلّا بَعْدَ إحْرامِ المَأْمُوم.(١)
(في قيام)او ركوع ومنه الاعتدال بخلاف غيرهما ولو كان تشهدا اخيرا ،فلا يسن فيه ذلك لأنه يتىأتي الا بعمل كثير ومشقة. (٢)
_____________(١) المجموع (٢٥١,٢٥٢/٤)
حاشية البجيرمي على الخطيب (١٣٥/٢)
*اسنى المطالب (٢٢٢/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سورة النساء – آيت نمبر – 036 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)