اہل فلسطین کی مدد یقینی ھے – 27-10-2023
مولانا انصار خطیب صاحب مدنی
مولانا انصار خطیب صاحب مدنی
مولانا انصار خطیب صاحب مدنی
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
فقہ شافعی سوال نمبر / 1220
گھر میں بیوی کے علاوہ کوئی اور محرم رشتہ دار مثلاً والدہ، بالغ بیٹی یا بہن وغیرہ ہو تو کیا اپنے ہی گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت لینے کی ضرورت ہے جبکہ آج کل ہر گھر کے باہر گھنٹی ہوتی ہے؟
اپنے گھر میں اگر بیوی کے علاوہ محرم رشتہ دار ہوں تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے ان کی اجازت لینا ضروری نہیں ہے. بلکہ بغیر اجازت بھی داخل ہوسکتے ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ اجازت کے ساتھ داخل ہو یا داخل ہونے سے پہلے کم از کم کھانسے یا پیروں سے آہستہ آواز کرےجس سے موجود لوگوں کو آنے کی طلاع دے تاکہ اگر وہ نامناسب حالت میں ہو تو اپنے آپ کو سنبھال سکے۔
امام بخاری رحمة الله عليه فرماتے ہیں: سَأَلَ رَجُل حُذَيْفَة : أَسْتَأْذِن عَلَى أُمِّي؟قَالَ : إِنْ لَمْ تَسْتَأْذِن عَلَيْهَا رَأَيْت مَا تَكْرَه ". (الادب المفرد ١٠٦٠)
امام ابن الرفعه رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وإن كان ذا محرم: فإن كان ساكنًا مع صاحب البيت فيه، فلا يلزمه أن يستأذن، ولكن عليه إذا أراد الدخول أن يشعر بدخوله بالنحنحة وشدة الوطء، ونقل الخُطا ليستتر العريان، ويفترق المجتمعا. (كفاية النبيه ١٦/٣٠٣)
(الحاوي الكبير ١٣/٤٦٤)
فقہ شافعی سوال نمبر / 1219
غیر مسلم لوگ دیوالی اور دسہرے کے موقع پر دیوی دیوتاوں کے نام پر بکرے ذبح کرتے ہیں اور ذبح کرنے کے لیے مسلمانوں کو بلاتے ہیں اس صورت میں مسلمان کے لیے جانور کو ذبح کرنے یا گوشت کی صفائی وغیرہ کی اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟
غیروں کے تہواروں کے موقع پر ان کے دیوی دیوتاوں کے نام پر جو بکرے وغیرہ ذبح کئے جاتے ہیں اس طرح کے گناہ کے کاموں میں مسلمان کا اجرت پر کام کرنا شرعا جائز نہیں ہے اس لیے کہ گناہ کے کاموں پر کسی بھی طرح کا تعاون کرنا حرام ہے.
امام ابن حجر الهيتمي رحمة الله عليه: ما الحُكْمُ فِي بَيْعِ نَحْوِ المِسْكِ لِكافِرٍ يُعْلَمُ مِنهُ أنَّهُ يَشْتَرِيه لِيُطَيِّبَ بِهِ صَنَمَهُ وبَيْعِ حَيَوانٍ لِحَرْبِيٍّ يُعْلَمُ مِنهُ أنَّهُ يَقْتُلُهُ بِلا ذَبْحٍ لِيَأْكُلَهُ؟(فَأجابَ) بِقَوْلِهِ يَحْرُمُ البَيْعُ فِي الصُّورَتَيْنِ كَما شَمَلَهُ قَوْلُهُمْ (يعني العلماء ) كُلُّ ما يَعْلَمُ البائِعُ أنَّ المُشْتَرِيَ يَعْصِي بِهِ يَحْرُمُ عَلَيْهِ بَيْعُهُ لَهُ وتَطْيِيبُ الصَّنَمِ وقَتْلُ الحَيَوانِ المَأْكُولِ بِغَيْرِ ذَبْحٍ مَعْصِيَتانِ عَظِيمَتانِ ولَوْ بِالنِّسْبَةِ إلَيْهِمْ لِأنَّ الأصَحَّ أنَّ الكُفّارَ مُخاطَبُونَ بِفُرُوعِ الشَّرِيعَةِ كالمُسْلِمِينَ فَلا تَجُوزُ الإعانَةُ عَلَيْهِما بِبَيْعِ ما يَكُونُ سَبَبًا لِفِعْلِهِما وكالعِلْمِ هُنا غَلَبَةُ الظَّنِّ. الفتاوى الفقهية الكبرى:٢/٢٧٠
علامہ سلیمان البجیرمی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:ولا يَجُوزُ لِلْمُسْلِمِ إعانَةُ الكافِرِ عَلى ما لا يَحِلُّ عِنْدَنا كالأكْلِ والشُّرْبِ… لِأنَّهُ إعانَةٌ عَلى مَعْصِيَةٍ. حاشية البجيرمي على الخطيب:٢/٣٧٤
علامہ زین الدین الملیباری رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وحرم أيضا: بيع نحو عنب ممن علم أو ظن أنه يتخذه مسكرا للشرب والأمرد ممن عرف بالفجور به والديك للمهارشة والكبش للمناطحة والحرير لرجل يلبسه وكذا بيع نحو المسك لكافر يشتري لتطييب الصنم والحيوان لكافر علم أنه يأكله بلا ذبح لان الأصح أن الكفار مخاطبون بفروع الشريعة كالمسلمين۔. فتح المعين: ١/٣٢٦
وكذلك لا يبيع للمسلمين ما يستعينون به على التشبه بالكفار في أعيادهم. (الإسلام سؤال وجواب: رقم السؤال ٦٩٥٥٨)
فقہ شافعی سوال نمبر / 1218
میت کو غسل دینے کے بعد اگر اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے نجاست نکلے تو کفن کے ساتھ پیمپر پہنانے کا کیا مسئلہ ہے؟
میت کو غسل دینے کے بعد اس کی اگلی یا پچھلی شرم گاہ سے نجاست نکل رہی ہو تو اس جگہ کو روئی سے بند کرنا چاہیے اگر ممکن نہ ہو تو اس صورت میں میت کو کفن کے اندر نجاست کو روکنے کے لیے پیمپر پہنانا درست ہے.
فَإِنْ كَانَ يَخَافُ مِنْ مَيْتَتِهِ أَوْ مَيِّتِهِ أَنْ يَأْتِيَ عِنْدَ التَّحْرِيكِ إذَا حُمِلَا شَيْئًا لِعِلَّةٍ مِنْ الْعِلَلِ اسْتَحْبَبْت أَنْ يَشُدَّ عَلَى سُفْلِيّهمَا مَعًا بِقَدْرِ مَا يَرَاهُ يُمْسِكُ شَيْئًا إنْ أَتَى مِنْ ثَوْبٍ صَفِيقٍ فَإِنْ خَفَّ فَلِبْدٌ صَفِيقٌ۔. الأم للشافعي- ط الفكر ١/٣٠٣
قال الشافعي رحمة الله عليه: (ويشد عليه خرقة مشقوقة الطرفين بإحدى أليتيه وعانته، ثم تشد عليه كما يشد التبان الواسع) .قال الشيخ أبو حامد: وهذا الشد لا يحتاج إليه في الميت إلا إن كان به علة قيام، أو خشي عليه أن يخرج منه، فيؤخذ لبد، فيشد عليه من فوق أليتيه، فإن لم يكن لبد، فخرقة. (البيان: ٣ / ٤٤)
فقہ شافعی سوال نمبر / 1217
حمل کے دوران عورتوں کو بعض مرتبہ خاص طبی چانچ کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا عورت ڈاکٹر کے ہوتے ہوئے کسی مرد ڈاکٹر سے چانچ کرانے کا کیا مسئلہ ہے؟
دوران حمل عورت کو بہت سی تکالیف و دشواریوں پیش آتی ہیں اور رحم میں موجود بچہ اور ماں کی صحت کے لیے مختلف طریقوں سے علاج و معالجہ اور جانچ کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے وقت میں ماہر مرد ڈاکٹر سے علاج کی یا خاص طبی جانچ کی checkup ضرورت پیش آئے تو اسکی اجازت ہے۔ البتہ ماہر عورت ڈاکٹر کی موجودگی میں مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا جائز نہیں ہے.
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وإذا كان بعورة المرأة علة يجوز للطبيب الأمين أن ينظر إليها؛ للمعالجة؛ كما يجوز للختان أن ينظر إلى فرج المختون؛ لأنه موضع ضرورة. التهذيب: ٢٣٦/٥
علامة زكريا الأنصاري فرماتے ہیں:قَالَ الْأَذْرَعِيُّ فِي الْغُنْيَةِ رَأَيْت فِي الْكَافِي لَوْ كَانَ بِعَوْرَةِ الرَّجُلِ أَوْ الْمَرْأَةِ عِلَّةٌ جَازَ لِلطَّبِيبِ الْأَمِينِ أَنْ يَنْظُرَ إلَيْهِمَا لِلْمُعَالَجَةِ كَمَا فِي الْخِتَانِ۔ أسنی المطالب:٤٧٤/٤
علامہ ابن الملقن رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ويبَاحَانِ، يعنى النظرُ والْمَسُّ، لِفَصَدٍ وَحِجَامَةٍ وَعِلاَج، للحاجة الملجِئَة إلى ذلك… ونظر القابلة إلى فرج التي تولدها۔ عجالة المحتاج: ١١٨٠/٣
علامه أبوبکر الدمياطي رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وهو أنه لا يباح النظر لأجل المعالجة عند وجود امرأة أو محرم۔ إعانة الطالبين :٤١٩/٣