اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0331
اگر منفرد یا امام کو شک ہو کہ تین رکعت پڑھی یا چار تو منفرد یا امام کم پریقین کرتے ہوے ایک رکعت مزید پڑھنے کے لیے کھڑا ہوگیا لیکن کچھ دیر بعد یعنی (رکوع میں یا سورہ فاتحہ کے دوران) اسے یقین ہو گیا کہ یہ اس کی زاید رکعت ہے تو امام کیا کرے فورا تشہد میں بیٹھے یا رکعت پوری کرے؟
جواب: اگر امام یا منفردکو تيسري يا چوتھی ركعت میں رکعت کی تعداد میں شک ہوجاے، جس کے سبب وہ اقل پر بناء کرتے ہوے ایک رکعت مزید پڑھنے کھڑا ہو جائے اور کچھ دیربعد رکوع یا سورہ فاتحہ کے دوران اسے یقین ہوگیا کہ یہ اسکی زائد رکعت ہے یہاں تک کہ رکوع کے بعد اعتدال وسجدہ میں یادآجاے تو فورا اسکو تشہد میں بیٹھنا ضروري ہے اور سجدہ سہو کرناسنت ہے.
إذا قامَ إلى خامِسَةٍ فِي رُباعِيَّةٍ ناسِيًا، ثُمَّ تَذَكَّرَ قَبْلَ السَّلامِ، فَعَلَيْهِ أنْ يَعُودَ إلى الجُلُوسِ، ويَسْجُدَ لِلسَّهْوِ، ويُسَلِّمَ، سَواءً تَذَكَّرَ فِي قِيامِ الخامِسَةِ، أوْ
رُكُوعِها، أوْ سُجُودِها. وإنْ تَذَكَّرَ بَعْدَ الجُلُوسِ فِيها، سَجَدَ لِلسَّهْوِ، ثُمَّ سَلَّمَ (١)
🔰🔰المراجع🔰🔰
١ – روضة الطالبين وعمدة المفتين ١/٤١٢٫٤١٣
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0330
اگرامام پانچویں رکعت کے لئے سہوا کھڑاہوجاے اورمقتدی حضرات بھی اس کی اقتداء میں کھڑےہوجائیں تواس نمازکا کیاحکم ہے؟
جواب: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہرکی پانچ رکعت پڑھائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاگیا کہ کیارکعات کی تعداد میں اضافہ ہوا؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہوا؟ توصحابہ نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت ادافرمائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہوفرمایا (بخاری :1226)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے استدلال کیا کہ اگرامام سہواپانچ رکعت پڑھ لے پھراسے یادآجاے توسلام سے پہلے سجدہ سہوکرلے اوراگرسلام پھیرنے کے بعد فورا معلوم ہوجاے تب بھی سجدہ سہوکرناسنت ہے.اس صورت میں نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ،البتہ اگرمقتدیوں کوامام کی پانچویں رکعت کا یقین ہوتوانھیں پانچویں رکعت میں امام کی اقتداء نہیں کرنی چاہیے بلکہ بیٹھ کرامام کے تشہد میں آنے کا انتظار یامفارقت کی نیت سے الگ ہونا چاہیے.اس لیے کہ اگرمقتدی کویقین ہے کہ امام سھوا پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوا ہے اوراسے یہ مسئلہ بھی معلوم ہے کہ امام کی اس زاید رکعت میں متابعت کرنا حرام ہے.پھربھی اقتداء کیا توایسے مقتدی کی نماز باطل ہوگی.اوراگراسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ امام کی پانچویں رکعت میں اقتداء کرنا جایز نہیں ہے یااسے پانچویں رکعت کاعلم نہیں تھا تونماز ہوجاے گی.
فَأمّا إذا دَخَلَ مَعَ الإمامِ وقَدْ سَبَقَهُ بِرَكْعَةٍ فَصَلّى الإمامُ خَمْسًا ساهِيًا فَتَبِعَهُ وهُوَ لا يَعْلَمُ بِسَهْوِهِ أجْزَأتِ المَأْمُومَ صَلاتُهُ، فَإنْ تَبِعَهُ وهُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ سَها بَطَلَتْ صَلاتُهُ، (١)
(فَأجابَ) بِأنَّهُ لا يَجُوزُ لِلْمَأْمُومِ مُتابَعَةُ إمامِهِ فِي خامِسَتِهِ إذْ يَجِبُ عَلَيْهِ قَطْعُ القُدْوَةِ وحِينَئِذٍ ولا يَجُوزُ لَهُ انْتِظارُ إمامِهِ بَعْدَ رَكْعَتِهِ (٢)
ولَوْ قامَ إمامُهُ لِخامِسَةٍ ناسِيًا فَفارَقَهُ بَعْدَ بُلُوغِ حَدِّ الرّاكِعِينَ لا قَبْلَهُ سَجَدَ لِلسَّهْوِ كالإمامِ، وقِيلَ: لا يُسَلِّمُ إذا سَلَّمَ الإمامُ بَلْ يَصْبِرُ، فَإذا سَجَدَ سَجَدَ مَعَهُ. هَذا إذا كانَ مُوافِقًا، أمّا المَسْبُوقُ فَيُخْرِجُ نَفْسَهُ ويُتِمُّ لِنَفْسِهِ ويَسْجُدُ آخِرَ صَلاتِهِ (٣)
🔰🔰المراجع🔰🔰
١ – (الحاوی الکبیر:2/230)
٢ – (فتاوی الرملی:1/177)
٣ – (مغنی المحتاج:1/363)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0328
کتنے سال کی بچی سے پردہ ضروری ہے؟
جواب: جب کسی بچی کی عمر اس حدتک پہنچ جاے کہ اسے دیکھنے والوں کولذت حاصل ہوتی ہواورشہوت ابھرتی ہوتوایسی بچی کی طرف دیکھنا حرام ہوگا اوراگربچی اس حد کونہ پہنچی ہوتواسے دیکھنے میں کویی حرج نہیں ہے.البتہ اس حالت میں اس کی اگلی پچھلی شرمگاہ دیکھناحرام ہوگا.
بعض فقہاء نے محل شہوت کوعمر کے ساتھ بھی مقید کیا ہے کہ اگربچی نوسال کی عمر کوپہنچ جاے تواسےبڑی اوربالغ عورتوں کی طرح دیکھنا حرام ہوگا.اس لیے کہ یہ عمر بلوغت کی عمر ہوتی ہے لیکن اگراس عمر سے پہلے ہی کسی بچی کے اندروہ کیفیت پیدا ہوگی جس سے اسے دیکھنے کودل چاہتا ہوتواسے دیکھنا اوراس سے مصافحہ حرام ہی ہوگا.
ولا بأس بالنظر إلى عورة صبي أو صبية لم تبلغ محل الشهوة وإن كان أجنبيًا، ولا ينظر إلى الفرج فإن بلغ محل الشهوة لم يجز وإذا بلغ الصبي أو الصبية عشر سنين، يجب التفريق [بين أخيه وأخته] وأمه وأبيه في المضجع (١)
قال الصيمري: وأما عورة الصبي، والصبية، قبل سبع سنين.. فالقبل والدبر، ثم تتغلظ بعد السبع… فأما بعد العشر: فكعورة البالغين؛ لأن ذلك زمان يمكن البلوغ فيه. (٢)
🔰🔰 المراجع 🔰🔰
١ – التھذیب:5/241
٢ – البیان:2/120
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0326
سفرشروع کرنے سے پہلے کونسی نماز سنت ہے؟
جواب: حضرت عبداللہ ابن مسعود رض فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے اے اللہ کے رسول میں تجارت کی غرض سے بحرین جارہا ہوں تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دورکعت پڑھ لو (مجمع الزوائد:3684)
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم اپنے گھرسے نکلوتودورکعت پڑھ لوجس کی برکت سے سفرکے شرسے حفاظت ہوگی (مسند بزار:8567)
ان دلائل کی روشنی میں امام نووی رح ودیگرعلماء نے سفرکی ابتداء کے وقت دورکعت صلاۃ السفر کی نیت سے ادا کرنے کااستحباب نقل کیا ہے.
اس لیے ان دورکعت کاادا کرنا مسنون ہے.اورپہلی رکعت میں سورہ کافرون اوردوسری میں سورہ اخلاص پڑھنا بھی سنت ہے.
يُسْتَحَبُّ إذا أرادَ الخُرُوجَ مِن مَنزِلِهِ أنْ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ يَقْرَأُ فِي الأُولى بَعْدَ الفاتِحَةِ (قُلْ يا أيها الكافرون) وفِي الثّانِيَةِ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أحَدٌ) (١)
🔰🔰المراجع🔰🔰
١). المجموع ٥/٣٧٤
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0325
غیر مسلموں کے تہوار کے موقعوں پر ان کا ہدیہ قبول کرنا اور کھانا کیسا ہے ؟اور ان کو مبارکباد دینا کیسا ہے؟
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال:نمبر/ 0324
مردارمرغی کوکسی کافرکے ہاتھ فروخت کرنے یاہبہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت جابررض سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے شراب .مردار .خنزیر اوربتوں کی بیع کوحرام قرار دیا ہے (مسلم :1581)
اس حدیث سے پتہ چلا کہ مردار کی بیع درست نہیں ہے.لہذا وہ مرغی جوخودبخودمرجاے یاغیرشرعی طریقہ سے اسے ذبح کیا جاے توایسی مرغی ناپاک ہے اوراسے کھاناحرام ہےاس لئے اس کی خریدوفروخت یااسے کسی کوہبہ کرنا درست نہیں.یہاں تکہ کسی کافرکے ہاتھ اس کو بیچنایا ایسے ہی دینا درست نہیں ہے.کیوں کہ اس صورت میں گناہ پرتعاون اورمدد کرنالازم آتا ہے.اوراللہ تعالی نے گناہ کے کام پرمدد کرنے سے منع فرمایا ہے-
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال .نمبر/ 0323
ضرورت یا حاجت کے وقت پڑهی جانے والی نماز کونسی ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے ؟
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0322
غسل کب فرض ہوتا ہے اور اس کا طریقہ کیا ہیں؟
جواب: سات چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کی بھی موجودگی میں مسلمان کیلئے غسل کرنا واجب ہوجاتا ہے۔
۱۔ منی کا نکلنا بغیر جماع کے، نیند میں ہو یا بیداری میں، شہوت سے ہو یا بغیر شہوت کے نکلے۔ایک قطرہ نکلے یا خون کی شکل میں نکلے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے "وان کنتم جنباً فالطّھّروا”
ترجمہ: اگر تم جنبی ہو تو پاکی حاصل کرو۔ تندرستی اور صحت کی حالت میں مرد کی منی گاڑھی اور سفید ہوتی ہے، اور اچھل اچھل کر نکلتی ہے۔ اس کے نکلتے وقت لذت محسوس ہوتی ہے،اور جب منی خارج ہوجاتی ہے تو آدمی کے اندر فتور پیدا ہوتا ہے یعنی اس کا جسم ڈھیلا پڑجاتا ہے۔اور اس کی بو تقریباً کھجور کے شگوفہ یا گوندے ہوئے آٹے کی مانند ہوتی ہے۔بعض اوقات کسی سبب کی بناءپر منی کا رنگ زرد ہوتا ہے اور وہ پتلا ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات منی کا رنگ خون کی طرح ہوتا ہے۔
اور عورت کا مادۂ منویہ عام حالات میں پتلا اور زرد ہوتا ہے، اور بعض اوقات اس کی قوت بڑھ جانے پر وہ سفید بھی ہوجاتا ہے۔ ۲۔ مرد و عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ ہمبستر ہونا۔ چاہے منی نکلے یا نہ نکلے۔ ۳۔ بلوغت کے بعد کافر کا اسلام لانا۔ ۴۔ موت کا لاحق ہونا
اور اسی طرح تین چیزیں عورتوں کے لئے خاص ہے: (1) عورت کا وہ خون جو نو سال کی عمر کو پہنچنے پر نکلتا ہے۔ (2) نفاس: وہ خون جو ولادت کے بعد نکلتا ہے، اور یہ قطعی طور پر غسل کو واجب کرتا ہے۔ (3) ولادت کا غسل
یہ بات واضح رہے کہ غسل کے فرائض دو ہیں: (1) فرض غسل کی نیت کرنا (2) پورے بدن پر پانی پہنچانا
انسان کو ایسے غسل کرنا چاہئے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔چنانچہ جب کوئی غسل جنابت کرنا چاہے تو سب سے پہلے وہ فرض غسل کی نیت کرے (نویت فرض الغسل) یا (نویت رفع الجنابة) یا (نویت رفع الحدث الأکبر)،
پھر دونوں ہاتھوں کو دھوکر اپنی شرمگاہ کو دھوئے اور جہاں نجاست لگی ہو اس حصہ کو صاف کرے۔ پھر وضو کی نیت کرتے ہوئے مکمل وضو کرے۔ پھر تین بار اپنے سر پر پانی بہائے، اسی طرح داہنی جانب تین بار اور پھر بائیں جانب بھی تین بار، پھر اپنا ہاتھ پورے بدن پر پھیرے اور بدن کے ہر ہر حصہ تک پانی پہنچائے۔
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ شروع میں بسم اللہ پڑھنا، ناک میں پانی لینا، کلی کرنا وغیرہ یہ سب شوافع کے یہاں مسنون ہیں۔ اسی طرح سے اگر آپ سے وضو کے ٹوٹنے کا کوئی عمل نہ ہواہو تو آپ اسی وضو پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ واللہ أعلم بالصواب
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0321
آج کل موبائل کی اسکرین پربسا اوقات قرآن کی آیات جمع ہوجاتی ہیں .پھرموبائل فارمیٹ مارتے وقت یا یوں ہی آیات کوڈلیٹ کیا جاتا ہے. بعض لوگ اسے قیامت کی نشانی بتلاتے ہیں؟شرعا ان آیات کے مٹانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت مسوربن مخرمہ رض صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی تفصیل بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کواس عہد نامہ میں بسم اللہ الرحمن لکھنے کا حکم دیا تومشرکین کے قاصد سہیل نے بسم اللہ کی جگہ بسمک اللھم لکھنے کہا تو توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باسمک اللھم لکھنے کاحکم دیا (بخاری:2731)
بخاری کے شارح ابن بطال رح فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےبسم اللہ کے مٹانے میں کوئی حرج محسوس نہیں فرمایا.اس لیے کہ عہد نامہ سےبسم اللہ کے مٹانے کی وجہ سے سینوں سے بسم اللہ مٹ نہیں جاے گی.(شرح صحیح بخاری لابن بطال 6/433)
مذکورہ دلیل کی روشنی میں موبائل یا کسی اورجگہ سے قرآن کی آیات کومٹانا یاڈلیٹ کرنا شرعا درست ہےجب کہ ان آیات کے مٹانے میں قرآن کریم کی حفاظت مطلوب ہواور توہین مقصود نہ ہو.نیزان آیات کی ضرورت نہ ہوتب بھی ان کومٹانے میں کوئی حرج نہیں ہے.
ويُكْرَهُ إحْراقُ خَشَبٍ نُقِشَ بِالقُرْآنِ إلّا إنْ قُصِدَ بِهِ صِيانَةُ القُرْآنِ فَلا يُكْرَهُ (١)
🔰🔰المراجع🔰🔰
١- (مغني المحتاج 1/67)
*- (نهاية المحتاج 1/126)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0320
جمعہ کی نمازکن لوگوں پر فرض ہے ؟