پیر _23 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0151
تدفین کے وقت تین مشت مٹی ڈالنے اور پہلی مرتبہ میں منھا خلقناكم اور دوسری مرتبہ میں وفیھا نعیدکم اور تیسری مرتبہ میں ومنها نخرجکم تارةً أخرى پڑهنے کا کیا ثبوت ہے؟
جواب: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پر نماز پڑھی اور چار تکبیرکہی پھر قبر کے پاس آئے اور اس پر سر کی جانب سے تین مشت مٹی ڈالی (معجم الأوسط 4673)
حضرت ابو امامہ رض فرماتی ہیں کہ جب حضرت ام کلثوم رض کو قبر میں ڈالا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے {منها خلقناكم وفيها نعيدكم، ومنها نخرجكم تارة أخرى} کی تلاوت فرمائی. (مسند احمد 22187)
فقہاء کرام نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے کہ تدفین کے وقت تین مشت مٹی ڈالنامستحب ہے اور پہلی مرتبہ میں منھا خلقناكم اور دوسری مرتبہ میں وفیھا نعیدکم اور تیسری مرتبہ میں ومنها نخرجکم تارةً أخرى پڑهنا ہے مسنون ہے (المجموع 5/239)
پیر _23 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0103
جمعہ کے خطبہ کے دوران بات کرنے اور خطیب کی دعاپر ہاتهہ اٹہا کے آمین کہنے کاکیاحکم ہے؟
جواب:حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم اپنے ساتھی کو دوران خطبہ خاموش رہنے کوکہوتب بھی تم نے لغوکام کیا(بخاری:934)
اس حدیث کی روشنی فقہاء نے دوران خطبہ بات کرنے کوناپسند اورمکروہ قرار دیا ہے.اورخاموش رہ کرخطبہ سننے کااستحباب نقل کیا ہے.البتہ کسی عذر کی وجہ سے بات کرنا جائز ہے. (منھاج مع المغنی :1/632) اس لئے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے تو ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور فرمایا ائے اللہ کے رسول. مال ہلاک ہوگیا اور اولاد بھوکی ہے اللہ سے دعا کیجئے بارش ہوجائے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ پھیلائے اور دعا کی ( بخاری 933)اور خطیب جب دعا کرتا ہے تو اسکی دعا پردرمیانی آواز میں آمین کہنا سنت ہے ( اعانة الطالبين 146/2) البتہ ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ صراحتا نہیں مل سکا لیکن عمومی دعاووں میں چوں کہ ہاتھ اٹھانے کا استحباب ہے اس لئے اس موقع پربھی ہاتھ اٹھانے کی گنجائش ہے.
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
ويسن الإنصات…ويُكْرَهُ لِلْحاضِرِينَ الكَلامُ فِيها اي في الخطبة لِظاهِرِ هَذِهِ الآيَةِ(١)
قال الإمام الدمياطي رحمه الله:
وكذا التأمين لدعاء الخطيب.
أما مع رفع الصوت فلا يندب، لأن فيه تشويشا (قوله: وكذا التأمين الخ) أي وكذا لا يبعد ندب التأمين بلا رفع صوت لدعاء الخطيب.(٢)_____________(١) مغني المحتاج (٤٩١/١)
(٢)اعانة الطالبين (١٠١/٢)
پیر _23 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0102
آیت سجدہ کی تلاوت کےبعد سجدہ فورا کرنا ممکن نہ تو اس صورت میں کیاحکم ہے؟
جواب: سجدہ تلاوت آیت سجدہ کی تلاوت کے فورا بعد کرلینا سنت ہے.اگرآیت سجدہ اورسجدہ کے درمیان طویل فصل ہوگیا توسجدہ تلاوت مسنون نہیں ہے اس لئے کہ اس کا محل فوت ہوجاتا ہے.(مغنی المحتاج:٣٧٢/١)لہذادوران درس آیت سجدہ آجاےلیکن اس وقت سجدہ تلاوت ممکن نہ ہونے کی صورت میں اگرطویل فاصلہ ہوجاے توسجدہ تلاوت مسنون نہیں ہے.اس لئے کہ اس کا محل فوت ہوگیا ہے،اگرکم فاصلہ گذرا ہوتوسجدہ تلاوت مسنون ہے.
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
فَإنْ لَمْ يَسْجُدْ) مَن طُلِبَ مِنهُ السُّجُودُ عَقِبَ فَراغِ آيَةِ السَّجْدَةِ (وطالَ الفَصْلُ) عُرْفًا ولَوْ بِعُذْرٍ (لَمْ يَسْجُدْ) أداءً لِأنَّهُ مِن تَوابِعِ القِراءَةِ. ولا قَضاءَ لِأنَّهُ ذُو سَبَبٍ عارِضٍ كالكُسُوفِ، فَإنْ قَصُرَ الفَصْلُ سَجَدَ، (١)
_____________(١) مغني المحتاج (٣٧٢/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر / 0099
امام کے کسی سہوپرمقتدی کے حق میں سبحان ا للہ کے ذریعہ لقمہ دینے کا کیا حکم ہے نیز اس کی کیفیت کیا ہے؟
جواب: حضرت سہل ابن سعد الساعدی رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ نے ایک مرتبہ آپنی قوم سے فرمایا: جب تمہیں نماز میں کوئ سہو پیش آئے تو مردوں کو چائے کہ تسبیح کہیں اور عورتیں اپنی داہنی ہتیلی کوبائیں ہاتھ کی ہتیلی پرمارے (بخاری7190)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ مرد مقتدی کے لئے امام کوکسی سہوپرمتنبہ کرنے کے لیے سبحان اللہ کہنامستحب ہے ،اورعورت مقتدی کے لئے داہنی ہتیلی کے اندونی حصہ کوبائیں ہاتھ کی ہتیلی کی پشت پرمارناسنت ہے.البتہ یہ ملحوظ رہے کہ سبحان اللہ کہتے وقت ذکرکی نیت ہو یا ذکر کے ساتھ امام کومتنبہ کرنے کی نیت ہو،اگرصرف متنبہ کرنے کی نیت ہوتومقتدی کی نماز باطل ہوجاے گی. (مغنی المحتاج 1/339)
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
ويَسُنُّ لِمَن نابَهُ شَيْءٌ) فِي صَلاتِهِ (كَتَنْبِيهِ إمامِهِ) لِنَحْوِ سَهْوٍ (وإذْنِهِ لِداخِلٍ) اسْتَأْذَنَ فِي الدُّخُولِ عَلَيْهِ (وإنْذارِهِ أعْمى) مَخافَةَ أنْ يَقَعَ فِي مَحْذُورٍ أوْ نَحْوِ ذَلِكَ كَغافِلٍ وغَيْرِ مُمَيِّزٍ، ومَن قَصَدَهُ ظالِمٌ أوْ نَحْوُ سَبُعٍ (أنْ يُسَبِّحَ وتُصَفِّقَ المَرْأةُ) ومِثْلُها الخُنْثى (بِضَرْبِ) بَطْنِ (اليَمِينِ عَلى ظَهْرِ اليَسارِ) أوْ عَكْسِهِ أوْ بِضَرْبِ ظَهْرِ اليَمِينِ عَلى بَطْنِ اليَسارِ أوْ عَكْسِهِ،…وقد تقدم أنه لا بد أن يقصد بذلك الذكر مع التفهيم فإن قصد التفهيم فقط بطلت صلاته(١)
_____________(١) مغني المحتاج (٣٣٩/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0098
اگر پیشاب کئے ہوئے بچے کو نہلاتے وقت کپڑے پر پانی کے چھینٹے اڑ جائیں تو کیا اس کپڑے پر نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ ہجرت کرتے ہوئے نکلے، تو آپ ﷺ نے پانی منگایا، پھر آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا، تو صحابہ آپ ﷺ کے بقیہ پانی لے کر اپنے اوپر ملنے لگے (البخاری/187)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ میری عیادت کے لئے تشریف لائے اس حال میں کہ میں بے ہوش تھا، تو آپ ﷺ نے پانی منگایا اور وضو کیا، اس کے بعد پانی مجھ پر چھڑکا تو مجھے ہوش آیا۔ (بخاری/5477)
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جوپانی فرض وضو یا فرض غسل میں استعمال ہویانجاست کودورکرنے میں استعمال ہونے کے بعد اس پانی میں نجاست کااثرنہ ہو تووہ پانی پاک ہے.البتہ اس سے مزید طہارت حاصل کرنادرست نہیں ہے. لہذاپیشاب کئے ہوے بچہ کونہلاتے وقت پانی کے چھینٹے اڑجائیں تواس کی وجہ سے بدن وکپڑا نجس نہیں ہوگا اور کپڑے پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔جب کہ ان چھینٹوں میں نجاست کااثر نہ ہو (المجموع 217/1)
فإذا اغسل المَحَلُّ النَّجِسُ غَسْلَةً واحِدَةً فَزالَتْ النَّجاسَةُ وحَكَمْنا بِطَهارَةِ المَحَلِّ فَهَذِهِ الغُسالَةُ طاهِرَةٌ
عَلى الأصَحِّ كَما ذَكَرْنا وهَلْ هِيَ مُطَهِّرَةٌ فِي إزالَةِ النَّجاسَةِ مَرَّةً أُخْرى فِيهِ الطَّرِيقانِ السّابِقانِ فِي أنَّ المُسْتَعْمَلَ فِي الحَدَثِ هَلْ يُسْتَعْمَلُ مَرَّةً أُخْرى فِي الحَدَثِ أصَحُّهُما لا.(١)
_____________
(١) المجموع (٢١٨/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر / 0097
بیت الخلاء میں بیٹھ کر باتیں کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:حضرت ابوسعید خذری رض سے روایت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوشخص ایک دوسرے کے سامنے ستر کھول کراورباتیں کرتے ہوے قضاء حاجت نہ کریں ،اس لئے کہ اللہ تعالی اس برے عمل پرغضبناک ہوتے ہیں (سنن ابی داود:15)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے کھلی جگہ میں بغیر کسی آڑ کے قضاء حاجت کرنااوراس دوران باتیں کرنے کی کراہت وممانعت نقل کی ہے،لہذا بیت الخلاء میں باتیں کرنا مکروہ ہے،اوراس سے احتیاط ضروری ہے، البتہ اشد ضرورت ہو تو بات کرنے کی گنجائش ہے- (مغنی المحتاج78/1)
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
ولايتكلم حال قضاء الحاجة بذكر او غيره…اي يكره له ذلك إلا لضرورة (١)
_____________
(١) المغني المحتاج (٧٣/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0096
کیا کتے کی نجاست سے پاکی کے لیے مٹی کے قائم مقام کوئی اور چیز ہوسکتی ہے؟
جواب: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جب کتا برتن میں منہ ڈالے تو اسے سات مرتبہ دهو اور ساتویں مرتبہ میں مرتبہ مٹی استعمال کرو (أبو داؤد 90 )
اس حدیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ کتے کی نجاست کودورکرنے کے لئے سات مرتبہ پانی سے اورسات مرتبہ میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا ضروری ہےاور اظہر قول کے مطابق کتے کی نجاست سے پاکی کے لیے مٹی کا استعمال کرنا ضروری ہے.مٹی کے علاوہ کوئی چیز کافی نہ ہوگی،البتہ مٹی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں بعض فقہاء نے مٹی کے قائم مقام مثلا صابون وغیرہ کے استعمال کی گنجائش دی ہے. (البیان 1/432)
قال الإمام العمراني رحمه الله:
إذا ولغ الكلب في إناء فيه مائعٌ، أو ماءٌ دون القلتين، أو أدخل فيه منه عضوًا، أو وقع فيه شيءٌ من دمه، أو بوله، أو ذرقه.. وجب غسله سبع مرات، إحداهنَ بالتراب …(١)
قال الإمام الإسنوي رحمه الله:
هل يقوم الصابون والأشنان مقام التراب؟
فيه ثلاثة أقوال:
أظهرها: لا، لظاهر الخبر؛ ولأنها طهارة متعلقة بالتراب فلا يقوم غيره مقامه كالتيمم.
والثاني: نعم.
والثالث: إن وجد التراب لم يعدل إلى غيره، وإلا عدل للضرورة، وقيل: يجوز فيما يفسده التراب كالثياب دون الأواني(٢)
_____________(١)البيان (٥٣٧/١)
(٢)المهمات (٨٩/٢)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0095
اگر کسی کپڑے پر منی لگ جائے اور اسی کپڑے پر نماز ادا کرے تو کیا اس کی نماز ہوجائے گی؟
جواب :حضرت اسود رض فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو کھرچا کرتی تهیں پهر اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑهتے تهے (سنن بیهقی 4166)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء شوافع نے منی کوپاک قرار دیا ہے ،لہذااگر کسی شخص نے منی لگے ہوئے کپڑے پر نماز ادا کی تو اس کی نماز درست ہوگی۔
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
وأما مني الأدمي فطاهر على الأظهر.(١)
_____________(١) مغني المحتاج (١٣٧/١)
(٢)كنز الراغبين (١٤٠/١)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0094
کیا مذی یا ودی کے نکلنے سے غسل فرض ہوتا ہے یا وضو کافی ہے؟ اور کپڑے وجسم پرلگ جاے تودھوناضروری ہے؟
جواب: حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں ایسا شخص ہوں جسے بار بار مذی آتی رہتی ہے، تو میں ٹھنڈی میں بھی غسل کرتا ہوں حتی کہ میری پیٹھ سفید پڑ گئی ہے، تو میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو اس طرح نہ کر، جب تم مذی کو دیکھو تو اپنی ذکر کو دھو لو اور وضو کرو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو ، اور جب پانی ظاہر ہوجائے تو غسل کرو‘‘ یعنی اگر منی نکلے تو غسل کرو۔ (سنن ابی داؤد؍204)
حضرت علیؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مذی کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’مذی نکلے تو وضو کرو، اور منی نکلے تو غسل کرو‘‘ (سنن ترمذی؍114)
فقہاءکرام نے ان احادیث کی روشنی میں فقہاء نے مذی ودی (پیشاب کے پہلے یابعد نکلنے والاچکنامادہ ) کو نجس قرار دیا ہے،اورمذی یا ودی کے نکلنے سے وضو ٹوٹنے کا حکم لگایا ہے،لہذا مذی ودی کے نکلنے پروضوفرض ہوجاتا ہے غسل کی ضرورت نہیں ،نیزکپڑے پر مذی یا ودی لگنے سے کپڑا نجس ہوجاتا ہے، لہذا اس کو دھو لینا چاہئے.
فِي حَدِيثِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ هَذَا فَوَائِدُ: مِنْهَا أَنَّ الْمَذْيَ لَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَأَنَّهُ نَجَسٌ وَأَنَّهُ يَجِبُ غَسْلُ النَّجَاسَةِ (المجموع :2/142)
ولا يجب الغسل من المذي ـ وهو: ماء أصفر رقيق، يخرج بأدنى شهوة من غير دفق، وهو مخفف، يقال: أمذى الرجل يمذي ـ ويجب منه الوضوء، وغسل الموضع الذي يصيبه لا غير.(البیان:1/419)
اتوار _22 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0093
وضو کے بعد آسمان کی طرف انگلی اٹھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت انس بن مالک رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس نے وضو کیا اورأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين پڑھا تواس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازہ کھول دیے جاتے ہیں کہ وہ جس سے چاہے داخل ہوجاے (السنن الصغير للبيهقي:109)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وضو کے بعد حدیث میں مذکور دعا پڑھنامستحب ہے.نیز احادیث میں موجود دیگردعاووں کا پڑھنا بھی مستحب ہے،اور فقہاء نے دعا کے لئے دونوں ہاتھوں کے اٹھانے کا تذکرہ کیا ہے
وَيُسَنُّ أَنْ يَأْتِيَ بِجَمِيعِ هَذَا ثَلَاثًا كَمَا مَرَّ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ بِصَدْرِهِ رَافِعًا يَدَيْهِ وَبَصَرَهُ (تحفة المحتاج 1/ 84 )
لیکن اس دعا کے پڑھتے وقت شہادت کی انگل ی آسمان کی طرف اٹھانے سے منع کیا ہے اس لئے کی اس کی کوئی دلیل نہیں ہے. اس لئے آسمان کی طرف انگلی اٹھانے سے بچنا چا ہیے.
مُتَوَجِّهَ الْقِبْلَةِ أَيْ بِصَدْرِهِ رَافِعًا يَدَيْهِ وَبَصَرَهُ إلَى السَّمَاءِ وَلَوْ نَحْوَ أَعْمَى كَهَيْئَةِ الدَّاعِي حَتَّى عِنْدَ قَوْلِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَلَا يُقِيمُ سَبَّابَتَيْهِ أَوْ إحْدَاهُمَا كَمَا يَفْعَلُهُ جَهَلَةُ الطَّلَبَةِ مِنْ مُجَاوِرِي الْجَامِعِ الْأَزْهَرِحاشیۃ (الجمل:1/ 214 )