مستحاضہ کسے کہتے ہیں اورنماز پڑھنے کے لیے اسے کس طرح طہارت حاصل کرنی چاہیے؟
جواب: حضرت عدی ابن ثابت اپنے دادا سے روایت کرتے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مستحاضہ اپنی حیض کی مدت میں نماز نہ پڑھے.اور حیض کے ایام ختم ہونے پرغسل کرکے نماز پڑھناشروع کردے
(گرچہ استحاضہ کاخون جاری رہے) اوراس کے بعد ہر نماز کے لئے وضو کرے (سنن ابی داؤد:297)
فقہاء کرام نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے کہ استحاضہ حیض اورنفاس کی مدت کے علاوہ وقت میں نکلنے والاخون ہے، اور اسے خراب خون یا بیماری کاخون کہا جاتاہے،
لہذامستحا ضہ عورت اپنی ہر نماز کے لئے اس کا وقت داخل ہونے کے بعد وضو سےپہلے خون کو دھوکر اس جگہ کو کسی کپڑے سے باندھ دے گی یاپیڈ کے ذریعہ بندکردے گی.تاکہ خون نکلنے میں کمی واقع ہو،اس کے بعد فورا وضوکرکے نماز ادا کرے گی تاکہ کم سے کم نجاست میں نماز ادا ہوسکے. (1/137 روضة الطالبين)
الِاسْتِحاضَةُ: قَدْ تُطْلَقُ عَلى كُلِّ دَمٍ تَراهُ المَرْأةُ غَيْرَ دَمِ الحَيْضِ والنِّفاسِ. سَواءً اتَّصَلَ بِالحَيْضِ المُجاوِزِ أكْثَرَهُ أمْ لَمْ يَتَّصِلْ، كالَّذِي تَراهُ لِسَبْعِ سِنِينَ مَثَلًا. وقَدْ تُطْلَقُ عَلى المُتَّصِلِ بِهِ خاصَّةً، ويُسَمّى غَيْرُهُ: دَمُ فَسادٍ، ولا تَخْتَلِفُ الأحْكامُ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ، والخارِجُ حَدَثٌ دائِمٌ، كَسَلَسِ البَوْلِ، فَتَغْسِلُ المُسْتَحاضَةُ فَرْجَها قَبْلَ الوُضُوءِ أوِ التَّيَمُّمِ، وتَحْشُوهُ بِقُطْنَةٍ أوْ خِرْقَةٍ دَفْعًا لِلنَّجاسَةِ وتَقْلِيلًا…. ثم تتوضأ المستحاضة ….ويجب أن تكون طهارته بعد الوقت على الصحيح…وينبغى لها أن تبادر بالصلاة عقب طهارتها فإن تطهرت في أول الوقت وصلت في آخِرهُ أوْ بَعْدَهُ. فَإنْ كانَ تَأْخِيرُها لِسَبَبِ الصَّلاةِ، كالأذانِ، والِاجْتِهادِ فِي القِبْلَةِ، وسَتْرِ العَوْرَةِ، وانْتِظارِ الجُمُعَةِ والجَماعَةِ ونَحْوِها، لَمْ يَضُرَّ، وإلّا فَثَلاثَةُ أوْجُهٍ. الصَّحِيحُ: المَنعُ .[روضة الطلبين (١/٢٥٠)]
جو مسلمان تین جمعہ چهوڑ دے شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کو بلا ضرورت چهوڑ دے تو نامہ اعمال میں منافق لکها جاتا ہے.پھراس کا نفاق نہ مٹایا جاتا ہے اور نہ بدلا جاتا ہے (مسند الشافعي 1/70)
حضرت ابو الجعد الضمری رضي الله عنه سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص تین جمعہ کو ہلکا سمجھ کر چهوڑ دے تو الله تعالى اس کے دل پر مہر لگا دیتے ہیں (أبو داؤد 1052)
ان احادیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص ایک جمعہ یا تین جمعہ کو سستی سے چهوڑ دے تو وہ منافق ہوگا.البتہ جو پے در پے تین جمعہ یااس کے علاوہ کوئی فرض نمازاس کی فرضیت کا انکار کرتے ہوےچهوڑ دے تو وہ کافر ہوجاتا ہے.
اگر کوئ جانور قلتین سے کم پانی میں گر جاۓ پھراسے زندہ نکال دیا جاۓتو پانی نجس ہوگا یا نہیں؟
جواب: اگر کتے اور خنزیر کے علاوہ کوئ جانور قلتین سے کم پانی میں گر جاۓاور اسے زندہ نکال دیا جاۓ تو پانی نجس نہیں ہوگا جبکہ اس کے جسم پر کوئ نجاست لگی ہوئ نہ ہو. البتہ کتے اور خنزیر یا ان دونوں میں سے کسی ایک سے پیدا ہونے والے کے گرنے سے پانی ناپاک ہو جاۓگا. اس لۓکہ یہ نجس العین ہے (التهذيب: ١٦٣/١)
و لو وقع حيوان سوى الكلب و الخنزير أو المتولد من أحدهما في ماء قليل أو مائع آخر ،فخرج حيا لا ينجسه.
التهذيب (١/١٦٣)
اگر امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کیسے نماز پڑھے بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر ؟
جواب : حضرت عبیداللہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رض کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچها : کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں بتائے گی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جی ہاں! ایک مرتبہ آپﷺ کی بیماری سخت ہوگئ تو آپ نے فرمایا :کیا لوگوں نے نماز اداء کی ؟ہم نے کہا : نہیں، وہ تو آپ کے منتظر ہیں. …آپﷺ نے حضرت ابو بکر کو حکم بهیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑهائیں….تو حضرت ابو بکر نے ان ایام میں نماز پڑهائ پہر جب آپ نے اپنے آپ کو ہلکا پایا تو دو آدمیوں کے سہارے مسجد چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بیٹھ کر نماز پڑهائیں (مسلم 936)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑهائے تو جائز ہے اور اس وقت مقتدی اگر کهڑے ہوکر نماز پڑهنے پر قادر ہوتو ان کے لئے کہڑے ہوکر نماز پڑهنا ضروری ہوگا اور بیٹھ کر نماز پڑهنا درست نہیں ہوگا
فإن صلى قاعدا كان على المأمومين أن يصلوا قياما ،اذا كانوا قادرين على القيام فإن صلوا قعودا مع القدرة على القيام لم تصح صلاتهم. البيان (٢/٣٩٥)
شافعی مسلک میں مکروہ وقت میں سجدہ تلاوت یا تحیۃ الوضو یا تحیۃ المسجد پڑهنے کاکیاحکم ہے؟
جواب: حضرت ام سلمہ رضی الله عنه فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے داخل ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہے کہ میں باندھی سے کہا کہ اللہ کے رسول کے پاس جاؤ اور کہو کیا تم ہمیں اس وقت میں نماز پڑھنے نہیں روکتے تھے…. تو اللہ کے رسول نے فرمایا یہ وہ دورکعت ہے جنکو میں ظہر کے بعد پڑھتا تھا لیکن ایک وفد نے مجھکو اس کے پڑھنے سے روکے رکھا ( بخاري 1234)
اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو نماز چھوڑ کر سوجائے یا اسکو بھول جائے تو جب بھی یاد آجائے اسکو پڑھ لے ( سنن ابي داؤد 435)
مذکورہ روایتوں سے فقہاء نے استدلال کیا کہ اوقات مکروہہ میں فوت شدہ فرض نماز اورسنن رواتب کااداکرنادرست ہے،نیز سبب متقدم والی نماز بھی پڑھنا جائز ہے جیسا کہ تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد،سجدہ شکر، سجدہ تلاوت وغیرہ لیکن سبب متاخر والی سنت نمازیں مثلاً احرام کی دو رکعت اور صلاة القتل یعنی پھانسی یا قتل سے پہلے پڑھی جانے والی نماز, اسى طرح مطلق سنت نمازیں پڑھنا مکروہ ہے. اورجمعہ کے دن استواء (وقت مکروہ) میں مطلقاکسی بھی نمازکاپڑھنادرست ہے.
وتكره الصلاة عند الاستواء إلا يوم الجمعة وبعد الصبح حتى ترتفع الشمس كرمح والعصر حتى تغرب إلا لسبب كفائته وكسوف وتحية وسجدة شكر وإلا في حرم مكة على الصحيح.(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔المراجع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔ منها ج الطالبين. ١٤٥,٤٦/١
جواب : بغیر کسی عذر کے اذان کے بعد اور نماز پڑهنے سے پہلے مسجد سے نکلنا مکروہ ہے البتہ کوئی عذر ہوتو مکروہ نہیں ہے بلکہ جائزہے-
دلیل یہ ہیکہ
حضرت ابوالشعثاء فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں بیٹهے ہوئے تهے پس مؤذن نے اذان دی تو ایک شخص مسجد سے نکل گئے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان کودیکھ رہے تھے. یہاں تک کہ وہ مسجد سے باہر نکل گئے اس وقت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس شخص نے أبو القاسم صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی کی (مسلم 655)
اگر کوئ شخص سلام لکھ کر یا واٹس اپ پر کرے تو اس کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب : اگر کوئ شخص لکھ کر سلام کرے تو اس کا فوراً جواب دینا واجب ہے اور واٹشپ پر سلام بهی لکھ کر سلام کرنے کی طرح ہے اس لئے واٹشپ پر کئ گئ سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہوگا جیسا کہ امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی شخص کو دیوار کے پیچھے سے پکارے یا اس جیسے طریقے سے اور پہر سلام کرے یا سلام لکھ کر بهیجے یا قاصد کو بهیجے اور اسے پهچادے تو اس پر سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے
وإذا ناداه من وراء حائط أو نحوه فقال السلام عليك يا فلان أو كتب كتابا وسلم فيه عليه أو أرسل رسولا وقال سلم على فلان فبلغه الكتاب والرسول وجب عليه رد الجواب على الفور (4 / 594)
جواب : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ہمیں لوگوں پر تین چیزوں کے ذریعے سے فضیلت دی گئی ہے، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئی ،اور ہمارے لئے مکمل زمین کو سجدہ کی جگہ بنائی گئی ،اور اس کی مٹی ہمارے لئے پاک بنائی گئی ہے (مسلم 522)
اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ پوری جگہ پاک ہے سوائے اس جگہ کےجس میں نجاست لگی ہوئی ہے لہذا اگر غیر مسلم کی جگہ میں کوئی نجاست نہ ہو یعنی جگہ پاک ہو تواجازت کے ساتھ نماز پڑهنا درست ہے – (البيان 2 / 104)
Fiqhe Shafi Question No/0075 What is the ruling on praying at non Muslims place ?
Ans. Hazrath Huzaifa (RA) reports that Prophet Muhammad (SAW) said: We have given three things to the people as superiority – Our rows has been made as like of the angels rows , the whole of the earth is been made for us to make prostration, the mud of the land has been made pure for us . (Muslim522) By the light of this Hadith , we come to know that the whole of the earth is pure except for the place Which has impurity . However, if a non Muslims place does not consist any of the impurities and the place is pure , it is permissible to offer salath in that place With his permission.
وضوء کرنے والے کو سلام کرنا اور وضو کرنے والے کے لئے اسکا جواب دینے کا کیا حکم ہے ؟
جواب: حضرت مهاجر بن قنفذ رض فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو سلام كيا جبکہ آپ ص پیشاب کررہے تھے, تو آپ ص نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا یہانتک آپ نےوضو کیا اور سلام کا جواب دیا ( سنن النسائی 38)
مذکورہ حدیث سے فقہاء نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص وضو کرنے والےکو سلام کرے اور وضو کرنے والا اس کے سلام کا جواب دیدے تو اس طرح سلام کرنا اور اس کا جواب دینا مکروہ نہیں ہے.بلکہ جائزہے.لیکن بہتریہ ہے کہ وضوکے بعدجواب دے.
ولا يكره سلام عليه) أي ولا يكره على غير المتوضئ أن يسلم عليه(قوله: ولا منه) أي ولا يكره صدور السلام منه ابتداء.وقوله: ولا رده أي ولا يكره على المتوضئ رد السلام إذا سلم عليه(١)