درس قرآن نمبر 0095
درس قرآن نمبر 0094
درس قرآن نمبر 0093
درس قرآن نمبر 0092
درس قرآن نمبر 0091
فقہ شافعی سوال نمبر – 0089
سوال نمبر/ 0089
اگر کسی وجہ سے مغرب کی نماز قضاء ہوگئ اور عشاء کی جماعت کهڑی ہوچکی ہو تو سب سے پہلے کونسی نماز پڑهی جائے گی؟
جواب: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئ شخص نماز بهول جائے یا نماز کو چهوڑ کر سوجائے تو اس کو جب بهی یاد آجائے تو پڑھ لے (مسلم 684)
علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قضاء نماز کا یادآتے ہی اس کوبغیر تاخیرکے پڑھ لیناچاہئے،لہذا اگر کسی کی مغرب کی نماز قضاء ہوجائے اور عشاء کا وقت آجائے تو اگر وقت کشادہ ہو تو پہلے مغرب پڑهنا بہتر ہے اگرچہ عشاء کی جماعت کهڑی ہو البتہ اگر پہلے عشاء پڑهے تب بھی جائز ہے
ولو تذكر فائتة و هناك جماعة يصلون في الحاضرة والوقت متسع ،فالاولى أن يصلي الفائتة اولا منفردا .
روضة الطالبين (١/٣٧٦)
(وَيُسَنُّ تَرْتِيبُهُ) أَيْ الْفَائِتِ فَيَقْضِي الصُّبْحَ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَهَكَذَا خُرُوجًا مِنْ خِلَافِ مَنْ أَوْجَبَهُ (وَ) يُسَنُّ (تَقْدِيمُهُ عَلَى الْحَاضِرَةِ الَّتِي لَا يَخَافُ فَوْتَهَا) مُحَاكَاةً لِلْأَدَاءِ، وَلِلْخُرُوجِ مِنْ خِلَافِ مَنْ أَوْجَبَ ذَلِكَ أَيْضًا، وَلِأَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَاتَتْهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَصَلَّاهَا بَعْدَ الْغُرُوبِ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ،مغني المحتاج (١/٣٠٨)
فقہ شافعی سوال نمبر – 0088
سوال نمبر/ 0088
امام صاحب کو سجدہ سہو لاحق ہوا اور امام نے سجدہ نہیں کیا تو کیا نماز صحیح ہوگی؟
جواب: حضرت ابو سعید خذری رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہوجائے تو شک کو چھوڑ دو اور یقین پر عمل کرلو،(شک کی صورت میں )کم شمار کرے تو ایک رکعت نماز پڑهے اور دو سجدے کرلے پس اگر اس کی نماز مکمل تهی تو یہ رکعت نفل ہوگی اور دو سجدیں نفل ہوگے (أبو داؤد 1024)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اگر نماز میں کوئ سہو لاحق ہوجائے تو سجدہ سہو کرنا سنت ہے اور اگر سجدے سہو نہ کرے تب بهی نماز صحیح ہے-
(وسُجُودُ السَّهْوِ سُنَّةٌ لِقَوْلِهِ ﷺ فِي حَدِيثِ أبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ «كانَتْ الرَّكْعَةُ نافِلَةً لَهُ والسَّجْدَتانِ» ولِأنَّهُ فِعْلٌ لِما لا يجب فلا يجب)……وسُجُودُ السَّهْوِ سُنَّةٌ عِنْدَنا لَيْسَ بِواجِبٍ.مهذب مع المجموع (٤/١٤٤)
فقہ شافعی سوال نمبر – 0087
سوال نمبر/ 0087
کسی نیک شخص کے ہاتھ اور پاؤں کے بوسہ لینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: أم ابان اپنے دادا سے روایت کرتی ہے کہ انهوں نے فرمایا : جب ہم مدینہ آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ لیتے (أبو داؤد 5225)
فقہاء کرام اور شارحین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ صالحین،صاحب علم اور نیک لوگوں نیز والدین کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ لینا جائز اورمشروع ہے.
جب کہ یہ عمل صرف دینی اعتبار سےان کےاحترام اورعقیدت کی وجہ سے ہو،اگراس سے بڑھ کران کومشکل کشا یاکسی اورغلط عقیدہ سے بوسہ لیا جاے تویہ عمل حرام ہے،
واضح رہے کہ کسی دنیاداراورمالدار کوان کی شان وشوکت کی وجہ سے چومناشرعانا پسند اورحرام ہے.
يُسْتَحَبُّ تَقْبِيلُ يَدِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ وَالزَّاهِدِ وَالْعَالِمِ وَنَحْوِهِمْ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ وَأَمَّا تَقْبِيلُ يَدِهِ لِغِنَاهُ وَدُنْيَاهُ وَشَوْكَتِهِ وَوَجَاهَتِهِ عِنْدَ أَهْلِ الدُّنْيَا بِالدُّنْيَا وَنَحْوِ ذَلِكَ فَمَكْرُوهٌ شَدِيدُ الْكَرَاهَةِ وَقَالَ الْمُتَوَلِّي لَا يَجُوزُ فَأَشَارَ إلَى تَحْرِيمِهِ وَتَقْبِيلُ رَأْسِهِ وَرِجْلِهِ كَيَدِهِ. (١)
(وَتَقْبِيلُ الْيَدِ لِزُهْدٍ أَوْ صَلَاحٍ أَوْ) كِبَرِ (سِنٍّ) أَوْ نَحْوِهَا مِنْ الْأُمُورِ الدِّينِيَّةِ كَشَرَفٍ وَصِيَانَةٍ (مُسْتَحَبٌّ) اتِّبَاعًا لِلسَّلَفِ وَالْخَلَفِ (وَ) تَقْبِيلُهَا (لِدُنْيَا وَثَرْوَةٍ) وَنَحْوِهِمَا كَشَوْكَةٍ وَوَجَاهَةٍ عِنْدَ أَهْلِ الدُّنْيَا مَكْرُوهٌ (شَدِيدُ الْكَرَاهَةِ).(٢)
_____________(١) المجموع (٦٣٦/٤)
(٢)اسنى المطالب (١٨٦/٤)
*شرح رياض الصالحين للعثيمين(٤٥١/٤)
فقہ شافعی سوال نمبر – 0086
سوال نمبر/ 0086
اذان کے وقت مغربمیں جانا اور استنجاء کے وقت اذان کا جواب دینا درست ہے یا نھیں؟
جواب: حضرت مہاجر بن قنفذ فرماتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے درحال کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے تو حضرت مہاجر نے ان کو سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور پھر عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں ناپاک جگہوں پر اللہ کا ذکر کرنے کو ناپسند کرتا ہوں(سنن ابی داود 17)
مذکورہ حدیث سے فقہاء کرام نے مسئلہ اخذ کیا ہے کہ استنجاء کے وقت اذان کا جواب دینا مکروہ ہے
البتہ فقھاء نے اس بات کی صراحت کی ھے کہ جب وہ اپنی ضرورت سے فارغ ہو جاے تب اذان کا جواب دے. اب رھی بات بیت الخلاء میں جانے کی تو اگر استنجاء کا شدید تقاضہ نہ ہو تو بہتر ھے کہ رک جاے اور اذان کا جواب دے کر استنجاء کرے اس لئے کہ علماء نے اذان کے وقت قرآت قرآن و ذکر و درس وتدریس اور دنیوی امور کو ترک کر کے اذان کا جواب دینے کاحکم نقل کیا ھے.
ويُسْتَحَبُّ)) مُتابَعَتُهُ لِكُلِّ سامِعٍ مِن طاهِرٍ ومُحْدِثٍ وجُنُبٍ وحائِضٍ وكَبِيرٍ وصَغِيرٍ لِأنَّهُ ذِكْرٌ وكُلُّ هَؤُلاءِ مِن أهْلِ الذِّكْرِ ويُسْتَثْنى مِن هَذا المُصَلِّي ومَن هُوَ عَلى الخَلاءِ والجِماعِ فَإذا فَرَغَ مِن الخَلاءِ والجِماعِ تابَعَهُ صَرَّحَ بِهِ صاحِبُ الحاوِي وغَيْرُهُ فَإذا سَمِعَهُ وهُوَ فِي قِراءَةٍ أوْ ذِكْرٍ أوْ دَرْسِ عِلْمٍ أوْ نَحْوِ ذَلِكَ. المجموع (٣/١٢٥)
إذا سمع المؤذن وهو صفي قراءة أو ذكر لله قطع القراة والذكر وتابع المؤذن لأن الاذان يفوت.والقراءة والذكر لايفوتان. البيان (٢/٨٣)