بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0085
اگر رکے ہوئے پانی میں نجاست گر جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’جب پانی دو قلے پہنچ جائے تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کرسکتی‘‘ (رواہ ابوداؤد 15/1)
حضرت ابو امامہ باهلی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’پانی پاک ہوتاہے، کوئی چیز اسے نجس نہیں کرسکتی مگریہ کہ اس کا مزہ یا بو بدل جائے‘‘ (سنن ابن ماجہ 512)
فقہاء کرام نے ان حدیثوں سے استدلال کیا ہے کہ اگر رکے ہوئ پانی میں نجاست گر جائے تو پہلے اس پانی کی مقدار کو دیکھا جائے گا، اگر دو قلے سے کم ہو تو پانی نجس ہوجائے گا،چاہے اس میں کسی قسم کاتغیرپیدا نہ ہوا ہو، البتہ اگر دوقلے یا اس سے زیادہ ہو تو اس پانی کے رنگ، بو، مزہ میں سے کسی ایک میں بھی تبدیلی آجائے تو وہ پانی نجس ہوجائے گا۔ اور دو قلے سے مراد فقہاء نے 192/ لیٹر یااس سے زیادہ مقدارمتعین کی ہے۔
ثُمَّ الْمَاءُ الْقَلِيلُ يَنْجُسُ بِمُلَاقَاةِ النَّجَاسَةِ الْمُؤَثِّرَةِ، تَغَيَّرَ أَمْ لَا. وَأَمَّا غَيْرُ الْمُؤَثِّرَةِ، كَالْمَيْتَةِ الَّتِي لَا نَفْسَ لَهَا سَائِلَةً، وَنَجَاسَةٍ لَا يُدْرِكُهَا طَرْفٌ، وَوُلُوغِ هِرَّةٍ تَنْجُسُ فَمُهَا ثُمَّ غَابَتْ وَاحْتُمِلَ طَهَارَتُهُ، فَلَا يَنْجُسُ عَلَى الْمَذْهَبِ…..وأمّا الكَثِيرُ، فَيَنْجُسُ بِالتَّغَيُّرِ بِالنَّجاسَةِ لِلْإجْماعِ، سَواءً قَلَّ التَّغَيُّرُ أمْ كَثُرَ، وسَواءً تَغَيَّرَ الطَّعْمُ أوِ اللَّوْنُ أوِ الرّائِحَةُ
روضة الطالبين (١٣٠/١)
القلتان: خمس مئة رطل بغدادي وتساوي مئة واثنين وتسعين كيلو غراما وثمان مئة وسبعة وخمسين غراما (١٩٢,٨٥٧ كلغ) ويتساوي بالمكعب ذراعا وربعا طولا وعرضا وعمقا. الفقه المنهجي (١/٣٨)
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0084
دو حیض کے درمیان پاکی کی مدت کتنے دن ہوتی ہے اور اگر اس پاکی کی مدت کے اندر خون آجائے تو وہ خون کونسا شمار ہوگا ؟
جواب: فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ دو حیض کے درمیان پاکی کی مدت کم از کم پندرہ دن ہے اور اگر پندرہ دن سے پہلے خون نکل آئے تو وہ خون استحاضہ یعنی بیماری کا خون شمار ہوگا،لہذااس دوران اس پرحیض کے احکام جاری نہیں ہوگے.بلکہ خون کی صفائی وطہارت کے بعد نماز اورروزہ وغیرہ کی ادائیگی ضروری ہوگی-
أقل الطهر بين حيضتين: خمسة عشر يوما و غالبه تمام الشهر بعد الحيض ، ولا حد لاكثره ولو وجدنا امرأة تحيض على الاطراد اقل من يوم وليلة او اكثر من خمسة عشر ، او بطهر اقل من خمسة عشر ، فثلاثة اوجه . الأصح : لا عبرة به . روضة الطالبين (١/٢٤٨)
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0083
مستحاضہ کسے کہتے ہیں اورنماز پڑھنے کے لیے اسے کس طرح طہارت حاصل کرنی چاہیے؟
جواب: حضرت عدی ابن ثابت اپنے دادا سے روایت کرتے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مستحاضہ اپنی حیض کی مدت میں نماز نہ پڑھے.اور حیض کے ایام ختم ہونے پرغسل کرکے نماز پڑھناشروع کردے
(گرچہ استحاضہ کاخون جاری رہے) اوراس کے بعد ہر نماز کے لئے وضو کرے (سنن ابی داؤد:297)
فقہاء کرام نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے کہ استحاضہ حیض اورنفاس کی مدت کے علاوہ وقت میں نکلنے والاخون ہے، اور اسے خراب خون یا بیماری کاخون کہا جاتاہے،
لہذامستحا ضہ عورت اپنی ہر نماز کے لئے اس کا وقت داخل ہونے کے بعد وضو سےپہلے خون کو دھوکر اس جگہ کو کسی کپڑے سے باندھ دے گی یاپیڈ کے ذریعہ بندکردے گی.تاکہ خون نکلنے میں کمی واقع ہو،اس کے بعد فورا وضوکرکے نماز ادا کرے گی تاکہ کم سے کم نجاست میں نماز ادا ہوسکے. (1/137 روضة الطالبين)
الِاسْتِحاضَةُ: قَدْ تُطْلَقُ عَلى كُلِّ دَمٍ تَراهُ المَرْأةُ غَيْرَ دَمِ الحَيْضِ والنِّفاسِ. سَواءً اتَّصَلَ بِالحَيْضِ المُجاوِزِ أكْثَرَهُ أمْ لَمْ يَتَّصِلْ، كالَّذِي تَراهُ لِسَبْعِ سِنِينَ مَثَلًا. وقَدْ تُطْلَقُ عَلى المُتَّصِلِ بِهِ خاصَّةً، ويُسَمّى غَيْرُهُ: دَمُ فَسادٍ، ولا تَخْتَلِفُ الأحْكامُ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ، والخارِجُ حَدَثٌ دائِمٌ، كَسَلَسِ البَوْلِ، فَتَغْسِلُ المُسْتَحاضَةُ فَرْجَها قَبْلَ الوُضُوءِ أوِ التَّيَمُّمِ، وتَحْشُوهُ بِقُطْنَةٍ أوْ خِرْقَةٍ دَفْعًا لِلنَّجاسَةِ وتَقْلِيلًا…. ثم تتوضأ المستحاضة ….ويجب أن تكون طهارته بعد الوقت على الصحيح…وينبغى لها أن تبادر بالصلاة عقب طهارتها فإن تطهرت في أول الوقت وصلت في آخِرهُ أوْ بَعْدَهُ. فَإنْ كانَ تَأْخِيرُها لِسَبَبِ الصَّلاةِ، كالأذانِ، والِاجْتِهادِ فِي القِبْلَةِ، وسَتْرِ العَوْرَةِ، وانْتِظارِ الجُمُعَةِ والجَماعَةِ ونَحْوِها، لَمْ يَضُرَّ، وإلّا فَثَلاثَةُ أوْجُهٍ. الصَّحِيحُ: المَنعُ .[روضة الطلبين (١/٢٥٠)]
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0082
جو مسلمان تین جمعہ چهوڑ دے شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کو بلا ضرورت چهوڑ دے تو نامہ اعمال میں منافق لکها جاتا ہے.پھراس کا نفاق نہ مٹایا جاتا ہے اور نہ بدلا جاتا ہے (مسند الشافعي 1/70)
حضرت ابو الجعد الضمری رضي الله عنه سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص تین جمعہ کو ہلکا سمجھ کر چهوڑ دے تو الله تعالى اس کے دل پر مہر لگا دیتے ہیں (أبو داؤد 1052)
ان احادیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص ایک جمعہ یا تین جمعہ کو سستی سے چهوڑ دے تو وہ منافق ہوگا.البتہ جو پے در پے تین جمعہ یااس کے علاوہ کوئی فرض نمازاس کی فرضیت کا انکار کرتے ہوےچهوڑ دے تو وہ کافر ہوجاتا ہے.
(قَوْلُهُ: مَن تَرَكَ ثَلاثَ جُمْعٍ تَهاوُنًا) أيْ بِأنْ لا يَكُونَ لِعُذْرٍ ولا يَمْنَعُ مِن ذَلِكَ اعْتِرافُهُ بِوُجُوبِها وأنَّ تَرْكَها مَعْصِيَةٌ، وظاهِرُ إطْلاقِهِ أنَّهُ لا فَرْقَ فِي ذَلِكَ بَيْنَ المُتَوالِيَةِ وغَيْرِها، ولَعَلَّهُ غَيْرُ مُرادٍ وإنَّما المُرادُ المُتَوالِيَةُ (قَوْلُهُ: طَبَعَ اللَّهُ عَلى قَلْبِهِ) أيْ ألْقى عَلى قَلْبِهِ شَيْئًا كالخاتَمِ يَمْنَعُ مِن قَبُولِ المَواعِظِ والحَقِّ . (١)
(من ترك ثلاث جمعات من غير عذر كتب من المنافقين) أراد النفاق العملي قال في فتح القدير: صرح أصحابنا بأن الجمعة فرض آكد من الظهر وبإكفار جاحدها . (٢)
_____________
(١) نهاية المحتاج (٢٨٣/٢)
(٢)فيض القدير (١٠٣/٦)
*روضة الطالبين (٢٧٠/٢)
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0081
اگر کوئ جانور قلتین سے کم پانی میں گر جاۓ پھراسے زندہ نکال دیا جاۓتو پانی نجس ہوگا یا نہیں؟
جواب: اگر کتے اور خنزیر کے علاوہ کوئ جانور قلتین سے کم پانی میں گر جاۓاور اسے زندہ نکال دیا جاۓ تو پانی نجس نہیں ہوگا جبکہ اس کے جسم پر کوئ نجاست لگی ہوئ نہ ہو. البتہ کتے اور خنزیر یا ان دونوں میں سے کسی ایک سے پیدا ہونے والے کے گرنے سے پانی ناپاک ہو جاۓگا. اس لۓکہ یہ نجس العین ہے (التهذيب: ١٦٣/١)
و لو وقع حيوان سوى الكلب و الخنزير أو المتولد من أحدهما في ماء قليل أو مائع آخر ،فخرج حيا لا ينجسه.
التهذيب (١/١٦٣)
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0080
اگر امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کیسے نماز پڑھے بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر ؟
جواب : حضرت عبیداللہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رض کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچها : کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں بتائے گی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جی ہاں! ایک مرتبہ آپﷺ کی بیماری سخت ہوگئ تو آپ نے فرمایا :کیا لوگوں نے نماز اداء کی ؟ہم نے کہا : نہیں، وہ تو آپ کے منتظر ہیں. …آپﷺ نے حضرت ابو بکر کو حکم بهیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑهائیں….تو حضرت ابو بکر نے ان ایام میں نماز پڑهائ پہر جب آپ نے اپنے آپ کو ہلکا پایا تو دو آدمیوں کے سہارے مسجد چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بیٹھ کر نماز پڑهائیں (مسلم 936)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑهائے تو جائز ہے اور اس وقت مقتدی اگر کهڑے ہوکر نماز پڑهنے پر قادر ہوتو ان کے لئے کہڑے ہوکر نماز پڑهنا ضروری ہوگا اور بیٹھ کر نماز پڑهنا درست نہیں ہوگا
فإن صلى قاعدا كان على المأمومين أن يصلوا قياما ،اذا كانوا قادرين على القيام فإن صلوا قعودا مع القدرة على القيام لم تصح صلاتهم. البيان (٢/٣٩٥)
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0079
شافعی مسلک میں مکروہ وقت میں سجدہ تلاوت یا تحیۃ الوضو یا تحیۃ المسجد پڑهنے کاکیاحکم ہے؟
جواب: حضرت ام سلمہ رضی الله عنه فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے داخل ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہے کہ میں باندھی سے کہا کہ اللہ کے رسول کے پاس جاؤ اور کہو کیا تم ہمیں اس وقت میں نماز پڑھنے نہیں روکتے تھے…. تو اللہ کے رسول نے فرمایا یہ وہ دورکعت ہے جنکو میں ظہر کے بعد پڑھتا تھا لیکن ایک وفد نے مجھکو اس کے پڑھنے سے روکے رکھا ( بخاري 1234)
اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو نماز چھوڑ کر سوجائے یا اسکو بھول جائے تو جب بھی یاد آجائے اسکو پڑھ لے ( سنن ابي داؤد 435)
مذکورہ روایتوں سے فقہاء نے استدلال کیا کہ اوقات مکروہہ میں فوت شدہ فرض نماز اورسنن رواتب کااداکرنادرست ہے،نیز سبب متقدم والی نماز بھی پڑھنا جائز ہے جیسا کہ تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد،سجدہ شکر، سجدہ تلاوت وغیرہ لیکن سبب متاخر والی سنت نمازیں مثلاً احرام کی دو رکعت اور صلاة القتل یعنی پھانسی یا قتل سے پہلے پڑھی جانے والی نماز, اسى طرح مطلق سنت نمازیں پڑھنا مکروہ ہے. اورجمعہ کے دن استواء (وقت مکروہ) میں مطلقاکسی بھی نمازکاپڑھنادرست ہے.
وتكره الصلاة عند الاستواء إلا يوم الجمعة وبعد الصبح حتى ترتفع الشمس كرمح والعصر حتى تغرب إلا لسبب كفائته وكسوف وتحية وسجدة شكر وإلا في حرم مكة على الصحيح.(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔المراجع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔ منها ج الطالبين. ١٤٥,٤٦/١
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0078
كيا جنبی شخص حالت جنابت ميں آذان كا جواب دي سكتا ہے؟
جواب: جنبی شخص کے لئے حالت جنابت آذان کا جواب دینا مستحب ہے، اس لئے کہ آذان کاجواب ایک قسم کاذکرہے.اورجنبی کے لیے ذکرکی اجازت ہے ۔
ويُسْتَحَبُّمُتابَعَتُهُ لِكُلِّ سامِعٍ مِن طاهِرٍ ومُحْدِثٍ وجُنُبٍ وحائِضٍ وكَبِيرٍ وصَغِيرٍ لِأنَّهُ ذِكْرٌ وكُلُّ هَؤُلاءِ مِن أهْلِ الذِّكْرِ(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔المراجع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔ المجموع۔ ١٢٥/٣
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0077
کیا اذان کے بعد مسجد سے نکلنا جائز ہے؟
جواب : بغیر کسی عذر کے اذان کے بعد اور نماز پڑهنے سے پہلے مسجد سے نکلنا مکروہ ہے البتہ کوئی عذر ہوتو مکروہ نہیں ہے بلکہ جائزہے-
دلیل یہ ہیکہ
حضرت ابوالشعثاء فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں بیٹهے ہوئے تهے پس مؤذن نے اذان دی تو ایک شخص مسجد سے نکل گئے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان کودیکھ رہے تھے. یہاں تک کہ وہ مسجد سے باہر نکل گئے اس وقت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس شخص نے أبو القاسم صلى الله عليه وسلم کی نافرمانی کی (مسلم 655)
امام نووی فرماتے ہیں
(الثَّامِنَةُ وَالْعِشْرُونَ) يُكْرَهُ الْخُرُوجُ مِنْ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الْأَذَانِ حَتَّى يُصَلِّيَ إلَّا لِعُذْرٍ
________________
[النووي ,المجموع شرح المهذب ,٢/٢٠٥]
بدھ _18 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/0076
اگر کوئ شخص سلام لکھ کر یا واٹس اپ پر کرے تو اس کا جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب : اگر کوئ شخص لکھ کر سلام کرے تو اس کا فوراً جواب دینا واجب ہے اور واٹشپ پر سلام بهی لکھ کر سلام کرنے کی طرح ہے اس لئے واٹشپ پر کئ گئ سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہوگا جیسا کہ امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی شخص کو دیوار کے پیچھے سے پکارے یا اس جیسے طریقے سے اور پہر سلام کرے یا سلام لکھ کر بهیجے یا قاصد کو بهیجے اور اسے پهچادے تو اس پر سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے
وإذا ناداه من وراء حائط أو نحوه فقال السلام عليك يا فلان أو كتب كتابا وسلم فيه عليه أو أرسل رسولا وقال سلم على فلان فبلغه الكتاب والرسول وجب عليه رد الجواب على الفور (4 / 594)