005 – سورة المائدة
004 – سورة النساء
003 – سورة آل عمران
002 – سورة البقرة
001 – سورة الفاتحة
فقہ شافعی سوال نمبر – 0340
سوال نمبر/ 0340
اگر کوئی شخص مرتے وقت یہ وصیت کرے کہ اپنے اعضاء مثلاً دل یا آنکھ کو دوسروں کو دے جس سے دوسرے کو فائدہ ہو کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے ؟
جواب: اگر کسی شخص نے یہ ہدایت کی کہ اس کے اعضاء پیوند کاری کے لیے استعمال کئے جائیں جسے عرف عام میں وصیت کہا جاتا ہے،مگر شریعت میں اسے اصلاحی طور پر وصیت نہیں کہا جاسکتا اور ایسی وصیت اور خواہش شرعا قابل اعتبار نہیں۔
البتہ اگر کوئی مریض ایسی حالت کو پہنچ جائے کہ اس کا کوئی عضو اس طرح بیکار ہوکر رہ گیا ہو کہ اگر اس عضو کی جگہ دوسرا متبادل اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا اور عضو انسانی کی پیوندکاری کی صورت میں ماہر اطباء کو غالب گمان ہو کہ اس کی جان بچ جائے گی اور متبادل عضو انسانی اس مریض کے لیے فراہم ہو تو ایسی مجبوری اور بے کسی کے عالم میں عضو انسانی کی پیوندکاری کراکر اپنی جان بچانے کی تدبیر کرنا مریض کے لیے مباح ہوگا
فقہ شافعی سوال نمبر – 0339
سوال نمبر/ 0339
امام صاحب کو احتلام ہوا تھا لیکن انہیں خبر نہیں ہوئ اور اسی حالت میں صبح کی نماز پڑھائ پھر دن نکلنے کے بعد انہیں اس کا علم ہوا تو ایسی صورت میں جو لوگ نمازمیں شریک تھے انکی نماز ہوئ یا نہیِں؟
جواب: حضرت براء بن عازب رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا امام جنبی تھا لیکن وہ بھول گیا اور نماز پڑھائ تو مقتدیوں کی نماز ہو جائیگی,پھر امام غسل کر کے اپنی نماز کو لو ٹاۓ (سنن الدارالقطنی ١٣٥٢)
مذکورہ حدیث شریف کی روشنی میں فقہاء کرام نے یہ بات تحریر فرمائ کہ اگر کوئ شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھے بعد میں معلوم ہوا کہ امام صاحب جنبی تھے یا بے وضو تھے تو ایسی صورت میں جو لوگ نماز میں شریک تھے ان کی نماز ہو جائیگی البتہ امام صاحب کی نماز نہیں ہوگی اگر نماز میں داخل ہونے سے پہلے مقتدی کو اسکا علم ہو کہ امام صاحب جنبی تھے یا بے وضو تھے تو ایسی صورت میں مقتدی اور امام دونوں کی نماز نہیں ہوگی دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا, جیسا کہ فقہاء کی عبارت سے معلوم ہوتا ہیں,
قال الإمام الشافعي رحمه الله:
فَمَن صَلّى خَلْفَ رَجُلٍ، ثُمَّ عَلِمَ أنَّ إمامَهُ كانَ جُنُبًا، أوْ عَلى غَيْرِ وُضُوءٍ وإنْ كانَتْ امْرَأةٌ أمَّتْ نِساءً، ثُمَّ عَلِمْنَ أنَّها كانَتْ حائِضًا أجْزَأتْ المَأْمُومِينَ مِن الرِّجالِ والنِّساءِ صَلاتُهُمْ وأعادَ الإمامُ صَلاتَهُ.
ولَوْ عَلِمَ المَأْمُومُونَ مِن قَبْلِ أنْ يَدْخُلُوا فِي صَلاتِهِ أنَّهُ عَلى غَيْرِ وُضُوءٍ، ثُمَّ صَلَّوْا مَعَهُ لَمْ تَجْزِهِمْ صَلاتُهُمْ؛[الأم (٣٢٩/٢)]
فقہ شافعی سوال نمبر – 0338
سوال.نمبر/ 0338
اگر کسی کو خواب میں احتلام ہونے لگے اور اچانک آنکھ کهل جائے اور وہ کسی طرح اسے روکنے میں کامیاب ہو جائے. (جیسے اپنے ہاتھ وغیرہ سےعضو کے کس کر پکڑے)
مطلب اسے منی نکلنے کی لزت تو محسوس ہو. لیکن اس کے روکنے کی وجہ سے ذرا بهی منی نہ نکلے یابغیرتلذذ کے کچھ قطرات نکل جائیں تو کیا اس پر غسل واجب ہوگا؟
جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہےکہ ایک شخص کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ وہ خواب میں احتلام ہونے کو دیکھا لیکن صبح میں تری نہیں پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر غسل واجب نہیں ہوگا . ١
📕فقہائے کرام نے مذکورہ حدیث کی روشنی سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا اگر کسی شخص نے خواب میں دیکھا کہ اس کو احتلام ہو رہا ہے لیکن جب نیند سے بیدار ہوا تو کپڑے پر منی کا کچھ اثر نظر نہیں آیا تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ہوگا،لیکن کسی کومنی کے نکلنے کااحساس ہوااوراس نے منی کے نکلنے کوکسی طرح روک لیالیکن کچھ وقفہ بعد بغیر کسی لذت کے کچھ قطرات یاچکنامادہ نکل جائے جومنی کی صفات کے مطابق ہوتوغسل واجب ہوگا .
📌📖وإن احتلم، ولم يجد البلل، أو شك: هل خرج منه المني؟ لم يجب عليه الاغتسال؛ لما ذكرناه من الخبر.
وإن رأى المني على فراش، أو ثوب يبتذله هو، وغيره، لم يجب عليه الغسل؛ لجواز أن يكون من غيره، والمستحب له: أن يغتسل؛ لجواز أن يكون منه.
وإن تحقق أن المني خرج منه في النوم، ولم يعلم متى خرج منه وجب عليه أن يغتسل، ووجب عليه أن يعيد كل صلاة صلاها بعد أقرب نومة نامها. ويستحب له أن يعيد ما صلى من الوقت الذي تيقن أنه حدث بعده.
قال في «المذهب»: وإن تقدمت منه رؤيا فنسيها، ثم ذكرها عند وجود المني فعليه إعادة ما صلى بعد ذلك؛ لأن معه علامة ودليلا.(٢)
📚📚المراجع📚📚
١.(سنن ترمذی :٣١)
٢.البيان ١/٣٤٧,٣٤٦
★ الحاوي الكبير ١/٢١٣
فقہ شافعی سوال نمبر – 0337
سوال نمبر/ 0337
کسی کافرکی موت پراناللہ کہنے کا کیاحکم ہے؟
جواب: اللہ تعالی کاارشاد ہےالذین اذااصابتھم مصیبۃ قالوا اناللہ واناالیہ راجعون (البقرہ:156)
کہ مسلمانو ں کوتکلیف لاحق ہوتی ہے تووہ اناللہ پڑھتے ہیں.نیزحضرت ام سلمہ رض فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کوجب کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے تووہی کہتا ہے جس کاحکم اللہ نے دیا ہے یعنی اناللہ کہتا ہے (مسلم:2126)
مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اناللہ کسی مسلمان کوتکلیف پہنچنے پرپڑھنا مشروع ہے،چوں کہ کافرکی موت کسی مسلمان کے لئے تکلیف کاسبب نہیں ہے،اس لئے جمہور علماء نے کافرکی موت پراناللہ پڑھنا کاتذکرہ نہیں کیا ہے. البتہ کافرکی موت پرہمدردی اوربھائی چارگی کااظہار کرنانیزاس سے عبرت حاصل کرناجائز ہے،اس لئے کہ حدیث پاک میں موت کوڈرانے والی چیز قرار دیا ہے (مسلم:960)
اور حضرت جابررض فرماتے ہیں کہ ایک یہودی کے جنازہ کے گذرتے وقت کھڑے ہوگیے توآپ سے کہا گیا کہ یہ یہودی کاجنازہ ہے توآپ نے فرمایا کہ کیا یہ انسان نہیں ہے.(بخاری:1312)
ان دلائل کی روشنی میں کافرکی موت کو باعث عبرت سمجھنااوربھائی چارگی کاثبوت پیش کرنا درست ہے..