اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0313
قبرپربیٹھنے یاکھڑے رہنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی انگار پربیٹھے،پھراس کے کپڑے جل جاے یہاں تک کہ اس کی چمڑی نکل جاے یہ اس کے لیے بہتر ہے قبرپر بیٹھنے کے گناہ کے مقابلہ میں (مسلم:2248)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پربیٹھنے سے منع فرمایا (مسلم:2245)
ان دلائل کی روشنی میں فقہاء نے قبروں پربیٹھنے .کھڑے رہنے اور روندنے کومکروہ قرار دیا ہے.البتہ اگرکوئی عذرہومثلا کسی میت تک پہچنے کے کسی قبرپرسے گذرناناگزیز ہوتوپھراس کی بدرجہ مجبوری گنجائش ہے.(مغنی المحتاج:2/48)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0311
اگر كوئی آدمی نماز پڑہنے كیلئے آئے اور امام صاحب سجدے یا تشھد وغیرہ میں تھے تو وہ كس طرح امام صاحب كے ساتھ شامل ہوگا؟
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0308
*نئے اسلامی سال کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟*
نئے اسلامی سال کی آمد پر مبارکباد دینا سنت نہیں ہے بلکہ ایک مباح اور جائز عمل ہے لہذا اگر کوئی نئے اسلامی سال کی آمد پر سنت اور مستحب عمل نہ سمجھتے ہوئے صرف مبارکباد دیتا ہے یا *کل عام وانتم بخیر* کے الفاظ کہتا ہے تو اس کی گنجائش ہے۔
(خاتمة) قال القمولي لم أر لأحد من أصحابنا كلاما في التهنئة بالعيد والأعوام والأشهر كما يفعله الناس لكن نقل الحافظ المنذري عن الحافظ المقدسي أنه أجاب عن ذلك بأن الناس لم يزالوا مختلفين فيه والذي أراه مباح لا سنة فيه ولا بدعة وأجاب الشهاب ابن حجر بعد اطلاعه على ذلك بأنها مشروعة واحتج له بأن البيهقي عقد لذلك بابا فقال باب ما روي في قول الناس بعضهم لبعض في العيد تقبل الله منا ومنكم وساق ما ذكره۔ (تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي :3/56) وسئل رحمه الله: فضيلة الشيخ:لابن عثیمن ما رأيكم في تبادل التهنئة في بداية العام الهجري الجديد؟ الجواب: أرى أن بداية التهنئة في قدوم العام الجديد لا بأس بها ولكنها ليست مشروعة بمعنى: أننا لا نقول للناس: إنه يسن لكم أن يهنئ بعضكم بعضاً، لكن لو فعلوه فلا بأس، وإنما ينبغي له أيضاً إذا هنأه في العام الجديد أن يسأل الله له أن يكون عام خيرٍ وبركة فالإنسان يرد التهنئة. هذا الذي نراه في هذه المسألة، وهي من الأمور العادية وليست من الأمور التعبدية. (لقاء الباب المفتوح:93)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0307
*اسلام میں مرد کے لیے سر کے کسی حصے کے بال کو کاٹ کر بالکل چھوٹا کرنا اور کسی حصے کے بال کو بڑا رکھنے کا کیا حکم ہے؟*
*مرد کا سر کے کسی حصے کے بال کو بالکل چھوٹا کرنا اور کسی حصے کے بال کو بڑا کرنے کو قزع کہتے ہیں اور ایسا کرنا منع ہے اگر اس طرح کرنے سے غیروں كے ساتھ مشابہت ہوتی ہے تو ایسا کرنا حرام ہے۔*
*قال الإمام النووي رحمه الله : يكره القزع وهو حلق بعض الرأس لحديث بن عمر رضي الله عنهما في الصحيحين.* (المجموع :١/ ٢٩٥) *قال الإمام العمراني رحمه الله: ويكره أن يترك على بعض رأسه الشعر؛لما روي: عن ابن عمر قال: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم-عن القزع في الرأس.* (البيان: ٤ / ٤٦٧) *الصحيح لمسلم/٢١٢٠* * سنن أبي داود/٤٠٣١*
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0306
اگرکسی نے ایسے شخص کوصدقہ دیا جومستحق نہیں تھا تواس کاصدقہ درست ہوگا یانہیں؟نیز اس کوثواب ملے گا یانہیں؟
جواب: حضرت ابوہریرہ رض فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے کہاکہ میں رات میں صدقہ کروں گا تووہ صدقہ لے کرنکلا اورایک مالدار کے ہاتھ صدقہ کیاتوصبح لوگ کہنے لگے کہ رات مالدار کوصدقہ دیاگیا لیکن اس سے کہا گیا کہ تیرا صدقہ قبول کیا گیا (مسلم :1022)
اس حدیث کی شرح میں امام نووی رح فرماتے ہیں:کہ مالدار کوبھی صدقہ دینے کی صورت میں ثواب ملے گا (شرح مسلم:3/91)
لہذا نفل صدقہ جس طرح کسی فقیرکودینا درست ہے اسی طرح کسی غیرمستحق بھی دیا جاے تب بھی درست ہے.اوراس صورت میں اس کوثواب بھی ملے گا.البتہ زکاۃ کی رقم کسی غیرمستحق کودینے سے ادا نہیں ہوگی.لہذا زکوۃ اداکرتے وقت مستحق کی صحیح چھابین کرکے ہی دینا چاہیے.
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0305
نماز جنازہ کا مختصر طریقہ اور اس میں پڑهی جانے والی ضروری دعائیں کیا ہے؟
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0304
عورت کے لیے سجدہ کی حالت میں اپنے ہاتھ کس طرح رکھناچاہیے؟
جواب: حضرت انس رض سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کویی سجدہ میں اپنے ہاتھ کتے کے ہاتھ بچھانے کی طرح نہ بچھاے (بخاری:822)
اس حدیث کی روشنی میں مرداورعورت کے لیے اپنے ہاتھ سجدہ میں زمین سے اٹھاے رکھنا سنت ہے .اس لئے سجدہ کے دوران اپنے ہاتھ زمین پربچھانے سے احتیاط کرنا چاہیے تاکہ سنت کے خلاف ورزی نہ ہوسکے.
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0303
*جنازہ کی نماز میں امام کہاں کھڑا رہیگا؟*
*میت اگر عورت کی ہو تو نماز جنازہ پڑھاتے وقت امام میت کی کمر کے پاس اور میت اگر مرد کی ہو تو سر کے پاس کھڑا ہوکر نماز پڑھانا مستحب ہے۔*
*عن أبي غالب، قال: صليت مع أنس بن مالك على جنازة رجل، فقام حيال رأسه، ثم جاءوا بجنازة امرأة من قريش، فقالوا: يا أبا حمزة صل عليها، فقام حيال وسط السرير، فقال له العلاء بن زياد: هكذا رأيت النبي صلى الله عليه وسلم قام على الجنازة مقامك منها ومن الرجل مقامك منه؟ قال: نعم. فلما فرغ قال:احفظوا.* (جامع الترمذي/٢٥/: ١٠٣٤ ) *قال الإمام النووي رحمه الله: السنة أن يقف الإمام عند عجيزة المرأة بلا خلاف للحديث، وفي الرجل وجهان :(الصحيح) باتفاق المصنفين وقطع به كثيرون وهو قول جمهور أصحابنا المتقدمين : أنه يقف عند رأسه .* (المجموع :٥ / ١٧٩) *قال الخطيب الشربيني رحمه الله : ويقف المصلي ندبا من إمام ومفرد عند رأس الذكر (الرجل) أو الصغير وعجزها أي الأنثى* (مغني المحتاج :٢/ ٣٧)
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال نمبر/ 0302
عورتوں کے لیے دوران نماز اپنے پیروں میں موزے پہننا ضروری ہے؟
جواب: حضرت ام سلمہ رض نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ایسی عورت جس کے پاس ازار نہ ہو وہ صرف قمیص پہن کراوردوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھ سکتی ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! جب کہ وہ قمیص اتنا لمبا ہوکہ وہ قدم کے ظاہری حصہ کو بھی چھپالے, (سنن ابی داود:630)
اس حدیث کی روشنی میں امام شافعی رح نے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کے قدم کا ظاہری حصہ بھی نماز کے لیے ستر میں شامل ہے.اسی بناء پر عورت کے لیے نماز میں اپنے قدم کے اوپری حصہ کوچھپانا ضروری ہے چاہے موزہ پہن کرچھپاے یا کپڑا لپیٹ کرچھپاے.
البتہ بہتر یہ ہے کہ مکمل قدم کوچھپالیا جاے جس کے لیے عورت نماز سے قبل موزے پہن لے تاکہ اس کے دونوں قدم چھپ جاے.
اتوار _29 _مئی _2016AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سوال.نمبر/ 0300
عورت کے لیے اپنے پیر میں سونے کی چین پہننے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت ابوموسی اشعری رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے میری امت کی عورتوں کے لیے سونا اورریشم حلال کردیا ہےاورمردوں پرحرام کیا ہے (نسائی :5151)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء فرماتے ہیں کہ عورت کے لیے سونے چاندی کے مختلف قسم کے زیورات پہننے کی اجازت ہے لہذا عورت کے لیے سونے کا ہار ،کنگن نیز پازیب (سونے کی چین )کاپیرمیں پہننااوران جیسی اشیاء کا استعمال جایز ہے.البتہ زیورات کے استعمال میں اسراف سے احتیاط کرنا ضروری ہے.اور عرف میں جتنی مقدارکے زیورات استعمال ہوتے ہیں اسی طرح کے زیورات استعمال کرنا چاہیے.