طلب العلم وبدء العودة إلى المدارس – 16-08-2024
فضيلة الشيخ ياسر بن راشد الدوسري
فضيلة الشيخ ياسر بن راشد الدوسري
فقہ شافعی سوال نمبر / 1266
صلاۃ التسبیح پڑھتے وقت اگر رکوع کی تسبیح پڑھنا چھوٹ جائے پھر اعتدال میں کھڑا ہونے کے بعد واپس رکوع میں جاکر اگر ان تسبیحات کو پڑھے تو کیا نماز ہوجائے گی یا نہیں؟
اگر رکوع میں تسبیحات چھوٹ جائے تو اعتدال میں کھڑا ہونے کے بعد واپس رکوع میں لوٹنا حرام ہے اور اگر کوئی اعتدال میں کھڑا ہونے کے بعد تسبیحات مکمل کرنے کے لیے لوٹنے سے نماز باطل ہوجائے گی. ہاں اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو نماز باطل نہیں ہوگی۔ البتہ ایسے موقع پر سجدہ سہو کرنا سنت ہے
قال الشيخ البجيرمي: ولو تذكر في الاعتدال ترك تسبيحات الركوع حرم عليه عوده لها وقضائها في الاعتدال ، لأنه ركن قصير فلا يطول على ما ورد ويقضيها في السجود لاستحباب تطويله۔
(تحفة الحبيب:٤٢٧/١)
قال الإمام المزجّد: فلو تذكر في الاعتدال ترك تسبيحات الركوع حرم عوده لها ويقضيها في السجود..
(العباب: ٢٥٢/١)
تحفة المحتاج:٢٦٩/١
نهاية المحتاج:١٢٣/٢
الفتاوى الكبرى الفقهية: ٢٧٠/١
مولانا زكریا برماور ندوی صاحب
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1261
استخارہ اور استشاره (مشورہ طلب کرنا) میں سے شرعا کونسا عمل افضل و بہتر ہے؟ نیز استخاره و الاستشارہ میں کونسا عمل مقدم اور کونسا مؤخر کرنا چاہیے؟
استخارہ و استشارہ دونوں ہی سنت عمل ہے اور قرآن و سنت میں دونوں کی ترغیب آئی ہے۔ ایک ہی معاملہ میں استخارہ کی نماز پڑھنا اور استشارہ یعنی مشورہ لینا دونوں جائز ہے اور ان میں سے کسی کو بھی مقدم مؤخر کرنا درست ہے، چاہے پہلے استخارہ کی نماز پڑھے پھر مشورہ کریں یا پہلے مشورہ کرکے بعد میں استخارہ کی نیت سے نماز پڑھے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ کسی اہم دینی یا دنیوی کام کے سلسلے میں پہلے نیک و مخلص اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کرے پھر استخارہ کی نیت سے نماز پڑھ کر اللہ سے رجوع کرے۔
قال الإمام النووي: اعلم أنه يستحبُّ لمن خطر بباله السفر أن يشاور فيه مَنْ يعلم من النصيحة والشفقة والخبرة، ويثق بدينه ومعرفته، قال الله تعالى: ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾ [آل عمران : ١٥٩] ودلائله كثيرة. وإذا شاور وظهر أنه مصلحة استخار الله لها الله في ذلك، فصلى ركعتين من غير الفرضية، ودعا بدعاء الاستخارة.
كتاب الأذكار للنووي: ١٥٠
قال الفيومي القاهري: ولتكن الاستشارة قبل الاستخارة فإذا شاور وظهر أنه مصلحة استخار الله تعالى في ذلك فصلى ركعتين من غير الفريضة ودعا بدعاء الاستخارة.
فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب للفيومي القاهري: ٤٩٣/٤
فقہ شافعی سوال نمبر / 1262
جماعت کی نماز کے دوران اگر اچانک مائک بند ہوجائے یا بجلی چلی جائے جس سے امام کے تکبیرات کا علم نہ ہوسکے تو ایسے لوگ اپنی نماز انداز امام کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے؟ ایسی صورت میں کیا کرینگے
با جماعت نماز کے دوران اگر امام کی تکبیرات کا علم نہ ہو چاہے وہ مائیک خراب ہوجائے یا بجلی چلی جائے یا مکبر یعنی بلند آواز سے تکبیرات کہنے والا خاموش ہو جائے اور امام کی آواز نہ پہنچتی ہو تو ایسا مقتدی اندازا دو رکن کے بقدر انتظار کرے گا۔ ورنہ امام سے مفارقت کی نیت کرے اور اپنی نماز مکمل کرے گا۔
شیخ زکریا انصاری فرماتے ہیں:لو ذهب المبلغ في اثناء صلاته لزمته نية المفارقة ان لم يرج عوده قبل مضي ما يسع ركنين في ظنه فيما يظهر.
(الغرر البهية :٢ / ٤٧۵)
حاشية الجمل: ٢ / ٣٤٧
نهاية المحتاج: ٢ / ١٩٨
اعانة الطالبين: ٢ / ٤٢
حاشية البجيرمي: ١ / ٣٢٣
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)