فقہ شافعی سوال نمبر / 1265 دوران سفر اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو کیا ایسا شخص سفر کی حالت میں قصر و جمع کرسکتا ہے؟ کیا ایسے شخص کے لیے یہ رخصت ختم ہوجائے گی یا نہیں؟ اگر کوئی شخص جائز سفر کی نیت سے نکلے اور دوران سفر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو ایسی صورت میں اس کے سفر کی رخصت ختم نہیں ہوگی ایسا شخص قصر و جمع کر سکتا ہے۔ قال الامام النووي رحمة الله عليه :اما العاصي في سفره وهو من خرج في سفر مباح وقصد صحيح ثم ارتكب معاصي في طريقه كشرب الخمر وغيره فله الترخص بالقصر وغيره بلا خلاف لانه ليس ممنوعا في السفر (المجموع:5/ 327) البيان:2/ 454 روضه الطالبين:1/ 492 اسنى المطالب:1/ 484 نهايه المطلب :2/ 549
فقہ شافعی سوال نمبر / 1264 اگر کسی حاملہ عورت کا حمل ساقط ہوجائے یا شرعی عذر کی وجہ سے ماہر ڈاکٹر کے کہنے پر بچے دانی کو صاف کرنے کے کچھ دنوں تک جو خون نکلے۔اس خون کا کیا حکم ہوگا کیا ایسی حالت میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے یا نہیں غسل کب کرے گی؟ حمل اگر دو مہینے یا اس سے زیادہ مدت کا ہو اور وہ ساقط ہوجائے یا کچھ شرعی عذر کی وجہ سے بچہ دانی کو صاف کرنا پڑے تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس ہی کا خون ہوگا۔ اور حیض و نفاس کی حالت میں نماز پڑھنا، روزے رکھنا، جماع کرنا حرام ہے۔ نفاس والی عورت خون رکنے کے بعد مکمل پاک ہوکر فرض غسل لے گی۔ علامہ ابن حجر الہتمی فرماتے ہیں: النفاس وهو الدم الخارج بعد فراغ جميع الرحم وإن وضعت علقة أو مضغة فيها صورة خفية أخذاً…. ويحرم به ما حرم بالحيض. (تحفة المحتاج :٦٧٨/١) شيخ ابن رفعة رحمة الله عليه فرماتے ہیں: النفاس… الدم الخارج عقيب العلقة والمضغة التي شهد القوابل أنه يخلق منها الولد لو بقيت. (كفاية النبيه:٢٠٨/٢) البيان: ٥١٣/١ ترشيح المستفيدين علي فتح المعين:١٥٣/١ المعتمد في الفقه الشافعي: ١٢٥/١
فقہ شافعی سوال نمبر / 1263 کیا عقیقہ ساتویں دن ہی کرنا ضروری ہے یا اس کے بعد بھی کرسکتے ہیں؟ بچے کا عقیقہ پیدائش کے ساتویں دن کرنا سنت ہے۔ اور سات دن کے بعد بھی کر سکتے ہیں۔ البتہ بچہ کے بالغ ہونے تک والد پر اس کا حق ہے۔ بلوغت کے بعد والد سے ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور وہ خود چاہے تو اپنی طرف سے کر سکتا ہے۔ والسُّنَّةُ أَنْ يَكُونَ ذلك يوم السابع ؛ لِمَا رَوَتْ عَائِشَةُ: أَنَّ النبي ﷺ عَنْ عَنِ الحسن والحسين يوم السابع، وسماهما، وأمر أن يُمَاطَ الأذى عن رُءُوسِهِمَا فإن قدمه على ذلك أو أخره، جَاز؛ لأنه وجد بعد سببه* (البيان ٤٤١/٤) هي سنة، والمستحب ذبحها يوم السابع من يوم الولادة۔۔۔۔۔الأصح. قلت: وإن ولد ليلاً، ويجزئ ذبحها قبل فراغ السبعة، ولا يحسب قبل الولادة۔۔۔* *ولا تفوت بتأخيرها عن السبعة،۔۔وهو مخير في العقيقة عن نفسه (روضة الطالبين/ ٤٥٠) العقيقة سنة وهو ما يذبح عن المولود… ذبح العقيقة يوم السابع من الولادة.. فلو ذبحها بعد السابع او قبله وبعد الولادة أجزاه…. قال أصحابنا: ولا تفوت بتأخيرها عن السبعة لكن يستحب ألا يؤخر عن سن البلوغ…. قال الرافعي : فإن أخر حتى بلغ سقط حكمها في حق غير المولود. وهو مخير في العقيقة عن نفسه .قال : واستحسن القفال والشاشي أن يفعلها ؛ للحديث المروى أن النبي : عَقَّ عَنْ نَفْسِهِ بَعْدَ النُّبُوَّةِ (المجموع ٣٤٥/٩) والا فضل فعلھا عقب الدخول للاتباع ولاتفوت بطلاق والموت ولابطول الزمن فیمایظھر کالعقیقۃ (تحفۃ المحتاج:3/298)