جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1315
اگر کوئی السلام علیکم کہنے کے بجائے عمدا وعلیکم السلام کہہ تو اس سلام کے جواب دینے کا کیا حکم ہے؟
سلام کی ابتداءً السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ مکمل سلام سے کرنا سنت ہے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر سلام کی ابتدا "علیکم السلام” یا "علیکم سلام” کہے تو یہ بھی سلام ہوگا اور اس کا جواب دینا واجب ہوگا البتہ اس طرح سلام کرنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر کوئی وعلیکم السلام کہے تو یہ سلام ہی نہیں ہے۔ اور اس طرح سلام کرنے پر جواب دینا واجب نہیں ہے۔
ﻭﺃﻣﺎ ﺃﻗﻞ اﻟﺴﻼﻡ اﺑﺘﺪاء ﻛﺄﻥ ﻳﻘﻮﻝ اﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺃﻭ ﻋﻠﻴﻚ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻭﺣﺪﻩ ﺃﻭ ﺳﻼﻡ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺃﻭ ﻋﻠﻴﻚ ﻭﻟﻮ ﻗﺎﻝ ﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ ﻓﻮﺟﻬﺎﻥ (ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ) ﺃﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﺑﺘﺴﻠﻴﻢ ﻭﺑﻪ ﻗﻄﻊ اﻟﻤﺘﻮﻟﻲ (ﻭاﻟﺜﺎﻧﻲ) ﻭﻫﻮ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﺃﻧﻪ ﺗﺴﻠﻴﻢ ﻳﺠﺐ ﻓﻴﻪ اﻟﺠﻮاﺏ ﻭﺑﻪ ﻗﻄﻊ اﻟﻮاﺣﺪﻱ ﻭﺇﻣﺎﻡ اﻟﺤﺮﻣﻴﻦ ﻭﻏﻴﺮﻫﻤﺎ ﻭﻟﻜﻦ ﻳﻜﺮﻩ اﻻﺑﺘﺪاء ﺑﻪ ﺻﺮﺡ ﺑﻜﺮاﻫﺘﻪ اﻟﻐﺰاﻟﻲ ﻓﻲ اﻻﺣﻴﺎء ﻭﺩﻟﻴﻠﻪ اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﻋﻦ ﺃﺑﻰ ﺟﺮﺉ ﺑﻀﻢ اﻟﺠﻴﻢ ﺗﺼﻐﻴﺮ ﺟﺮﻭ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ ” ﻗﻠﺖ ﻋﻠﻴﻚ اﻟﺴﻼﻡ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ ﻻ ﺗﻘﻞ ﻋﻠﻴﻚ اﻟﺴﻼﻡ ﻓﺈﻥ ﻋﻠﻴﻚ اﻟﺴﻼﻡ ﺗﺤﻴﺔ اﻟﻤﻮﺗﻰ” ﺭﻭاﻩ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﻭاﻟﺘﺮﻣﺬﻱ ﻭﻏﻴﺮﻫﻤﺎ ﺑﺎﻷﺳﺎﻧﻴﺪ اﻟﺼﺤﻴﺤﺔ ﻗﺎﻝ اﻟﺘﺮﻣﺬﻱ ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺴﻦ ﺻﺤﻴﺢ
(المجموع :٤/٥٩٦)
ﺗﻨﺒﻴﻪ:ﺻﻴﻐﺔ اﻟﺴﻼﻡ اﺑﺘﺪاء: اﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻴﻜﻢ، ﻓﺈﻥ ﻗﺎﻝ: ﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ ﺟﺎﺯ؛ ﻷﻧﻪ ﺗﺴﻠﻴﻢ ﻟﻜﻦ ﻣﻊ اﻟﻜﺮاﻫﺔ ﻟﻠﻨﻬﻲ ﻋﻨﻪ ﻓﻲ ﺧﺒﺮ اﻟﺘﺮﻣﺬﻱ ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻭﻳﺠﺐ ﻓﻴﻪ اﻟﺮﺩ ﻋﻠﻰ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﻛﻤﺎ ﻧﻘﻠﻪ ﻓﻲ اﻟﺮﻭﺿﺔ ﻋﻦ اﻹﻣﺎﻡ ﻭﺃﻗﺮﻩ، ﻭﺇﻥ ﺑﺤﺚ اﻷﺫﺭﻋﻲ ﻋﺪﻡ اﻟﻮﺟﻮﺏ، ﻭﻙﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺳﻼﻡ. ﺃﻣﺎ ﻟﻮ ﻗﺎﻝ: ﻭﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ ﻓﻠﻴﺲ ﺳﻼﻣﺎ ﻓﻼ ﻳﺴﺘﺤﻖ ﺟﻮاﺑﺎ؛ ﻷﻧﻪ ﻻ ﻳﺼﻠﺢ ﻟﻻﺑﺘﺪاء ﻛﻤﺎ ﻧﻘﻠﻪ ﻓﻲ اﻷﺫﻛﺎﺭ ﻋﻦ اﻟﻤﺘﻮﻟﻲ ﻭﺃﻗﺮﻩ
(مغني المحتاج:٦/١٦)
(ﻗﻮﻟﻪ: ﻭﺻﻴﻐﺔ ﺇﺑﺘﺪاﺋﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻴﻜﻢ) ﺃﻱ ﻭﺻﻴﻐﺔ ﺭﺩﻩ: ﻭﻋﻠﻜﻴﻢ اﻟﺴﻼﻡ، ﺃﻭ ﺳﻼﻡ ﻭﻟﻮ ﺗﺮﻙ اﻟﻮاﻭ ﺟﺎز- ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺫﻛﺮﻫﺎ ﺃﻓﻀﻞ – ﻓﺈﻥ ﻋﻜﺲ ﻓﻴﻬﻤﺎ، ﺑﺄﻥ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻻﺑﺘﺪاء ﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ، ﻭﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺮﺩ اﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻴﻜﻢ، ﺟﺎﺯ ﻭﻛﻔﻰ. ﻓﺈﻥ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺮﺩ ﻭﻋﻠﻴﻜﻢ ﻭﺳﻜﺖ ﻋﻦ اﻟﺴﻼﻡ ﻟﻢ ﻳﺠﺰ: ﺇﺫ ﻟﻴﺲ ﻓﻴﻪ ﺗﻌﺮﺽ ﻟﻠﺴﻼﻡ.(ﻗﻮﻟﻪ: ﻭﻛﺬا ﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ) ﺃﻱ ﻭﻛﺬﻟﻚ ﻳﻜﻔﻲ ﻓﻲ ﺻﻴﻐﺔ اﻻﺑﺘﺪاء ﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ ﺑﺘﻘﺪﻳﻢ اﻟﺨﺒﺮ.(ﻗﻮﻟﻪ: ﺃﻭ ﺳﻼﻡ) ﻣﻌﻄﻮﻑ ﻋﻠﻰ ﻟﻔﻆ اﻟﺴﻼﻡ: ﺃﻱ ﻭﻛﺬا ﻳﻜﻔﻲ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺳﻼﻡ، ﺑﺎﻟﺘﻨﻜﻴﺮ ﻭﺗﻘﺪﻳﻢ اﻟﺨﺒﺮ. (ﻗﻮﻟﻪ: ﻟﻜﻨﻪ ﻣﻜﺮﻭﻩ) ﺃﻱ ﻟﻜﻦ اﻻﺗﻴﺎﻥ ﻓﻲ اﻻﺑﺘﺪاء ﺑﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ، ﺃﻭ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺳﻼﻡ ﻣﻜﺮﻭﻩ،ﻓﻀﻤﻴﺮ ﻟﻜﻨﻪ ﻳﻌﻮﺩ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﺑﻌﺪ، ﻭﻛﺬا ﻻ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻟﻪ ﺃﻭ ﺳﻼﻡ ﻓﻘﻂ. ﻭﻋﺒﺎﺭﺓ اﻟﻨﻬﺎﻳﺔ: ﻭﻳﺠﺰﺉ ﻣﻊ اﻟﻜﺮاﻫﺔ ﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ، ﻭﻳﺠﺐ ﻓﻴﻪ اﻟﺮﺩ، ﻭﻙﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺳﻼﻡ.اﻩ.(ﻭﻗﻮﻟﻪ: ﻟﻠﻨﻬﻲ ﻋﻨﻪ) ﺃﻱ ﻓﻲ ﺧﺒﺮ اﻟﺘﺮﻣﺬﻱ ﻭﻏﻴﺮﻩ.ﻗﻮﻟﻪ: ﺑﺨﻼﻑ ﻭﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻼﻡ) ﺃﻱ ﻓﺈﻧﻪ ﻻ ﻳﺠﺐ ﻓﻴﻪ اﻟﺮﺩ، ﻷﻧﻪ ﻻ ﻳﺼﻠﺢ ﻻﺑﺘﺪاء اﻟﺴﻼﻡ،ﻟﺘﻘﺪﻡ ﻭاﻭ اﻟﻌﻄﻒ.
(إعانة الطالبين:٤/٢١٤)
جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1314
اگر کسی عورت سر کے بال بہت زیادہ لمبے ہوں تو اس کے کاٹنے کا کیا حکم ہے؟
عورت کے لیے حلق کرنا مکروہ ہے۔ اگر کسی عورت کے بال اس قدر لمبے ہوں کہ ان کو سنبھالنا دشوار ہوجائے تو زائد مقدار والے بالوں کو کاٹ سکتی ہیں۔اسی طرح شوہر کی اجازت سے زینت کی غرض سے یا عذر کی بناء پر بالوں کو باریک کرنا جائز ہے۔ اس کے برخلاف عورت اگر فیشن یا اہل مغرب کی تقلید میں بال کٹواتی ہے یا غیر شادی شدہ عورت زینت کے لیے بالوں کو فیشن کے طور پر کاٹتی ہے تو اس کی گنجائش نہیں. غیر شادی شدہ عورتوں کے لیے اس طرح کرنا حرام ہے۔
وفيه دليل على جواز تخفيف الشعور للنساء”
(شرح مسلم:٤/٥)
قال ابن المنذر: أجمعوا أن لا حلق على النساء إنما عليهن التقصير قالوا: ويكره لهن الحلق، لأنه بدعة في حقهن وفيه.
المجموع:٨/١١٠
(ﻭﺗﻘﺼﺮ اﻟﻤﺮﺃﺓ) ﻭﻻ ﺗﺆﻣﺮ ﺑﺎﻟﺤﻠﻖ ﺇﺟﻤﺎﻋﺎ ﺑﻞ ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻬﺎ اﻟﺤﻠﻖ ﻋﻠﻰ اﻷﺻﺢ ﻓﻲ اﻟﻤﺠﻤﻮﻉ، ﻭﻗﻴﻞ: ﻳﺤﺮﻡ ﻷﻧﻪ ﻣﺜﻠﺔ ﻭﺗﺸﺒﻪ ﺑﺎﻟﺮﺟﺎﻝ، ﻭﻣﺎﻝ ﺇﻟﻴﻪ اﻷﺫﺭﻋﻲ ﻓﻲ اﻟﻤﺰﻭﺟﺔ ﻭاﻟﻤﻤﻠﻮﻛﺔ ﺣﻴﺚ ﻻ ﻳﺆﺫﻥ ﻟﻬﺎ ﻓﻴﻪ.”
(مغني المحتاج:٢/٢٦٩)
جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1313
عام حالات میں مسلمان عورت کا کسی غیر مسلم عورت کے ستر دیکھنے کا کیا مسئلہ ہے؟ کیا یہ حکم صرف عدت گزارنے والی عورت کے ساتھ خاص ہے وضاحت فرمائیں۔
جس طرح اجنبی مرد کے لیے اجنبی عورت کو دیکھنا حرام ہے. بالکل اسی طرح مسلمان عورت کا کافر عورت کے ستر کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ البتہ ضرورت اور خدمت کے موقع پر جو اعضاء ظاہرہو جاتے ہیں مثلا ہاتھ چہرہ دیکھنے کی اجازت ہے۔ لہذا حالت عدت میں غیر مسلم عورت سے بات کرنا، یا اسے دیکھنا جائز ہے۔البتہ اس کے ستر کو دیکھنے اور اس کے سامنے اپنا ستر کھولنے کی اجازت نہیں ہے
ﻭاﻷﺻﺢ ﺗﺤﺮﻳﻢ ﻧﻈﺮ ﺫﻣﻴﺔ) ﻭﻛﻞ ﻛﺎﻓﺮﺓ ﻭﻟﻮ ﺣﺮﺑﻴﺔ (ﺇﻟﻰ) ﻣﺎ ﻻ ﻳﺒﺪﻭ ﻓﻲ اﻟﻤﻬﻨﺔ ﻣﻦ (ﻣﺴﻠﻤﺔ) ﻏﻴﺮ ﺳﻴﺪﺗﻬﺎ ﻭﻣﺤﺮﻣﻬﺎ ﻟﻤﻔﻬﻮﻡ ﻗﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ {ﺃﻭ ﻧﺴﺎﺋﻬﻦ}
تحفة المحتاج:٧/٢٠٠
ﻭاﻷﺻﺢ ﺗﺤﺮﻳﻢ ﻧﻈﺮ) ﻛﺎﻓﺮﺓ (ﺫﻣﻴﺔ) ﺃﻭ ﻏﻴﺮﻫﺎ (ﺇﻟﻰ ﻣﺴﻠﻤﺔ) ﻓﺘﺤﺘﺠﺐ اﻟﻤﺴﻠﻤﺔ ﻋﻨﻬﺎ ﻟﻘﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: {ﺃﻭ ﻧﺴﺎﺋﻬﻦ}
سورہ اﻟﻨﻮﺭ:آیت نمبر31
ﻓﻠﻮ ﺟﺎﺯ ﻟﻬﺎ اﻟﻨﻈﺮ ﻟﻢ ﻳﺒﻖ ﻟﻠﺘﺨﺼﻴﺺ ﻓﺎﺋﺪﺓ، ﻭﺻﺢ ﻋﻦ ﻋﻤﺮ -ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ- ﺃﻧﻪ ﻣﻨﻊ اﻟﻜﺘﺎﺑﻴﺎﺕ ﺩﺧﻮﻝ اﻟﺤﻤﺎﻡ ﻣﻊ اﻟﻤﺴﻠﻤﺎﺕ، ﻭﻷﻧﻬﺎ ﺭﺑﻤﺎ ﺗﺤﻜﻴﻬﺎ ﻟﻠﻜﺎﻓﺮ. ﻭاﻟﺜﺎﻧﻲ: ﻻ ﻳﺤﺮﻡ ﻧﻈﺮا ﺇﻟﻰ اﺗﺤﺎﺩ اﻟﺠﻨﺲ ﻛﺎﻟﺮﺟﺎﻝ ﻓﺈﻧﻬﻢ ﻟﻢ ﻳﻔﺮﻗﻮا ﻓﻴﻬﻢ ﺑﻴﻦ ﻧﻈﺮ اﻟﻜﺎﻓﺮ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺴﻠﻢ ﻭاﻟﻤﺴﻠﻢ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺴﻠﻢ. ﻧﻌﻢ ﻋﻠﻰ اﻷﻭﻝ ﻳﺠﻮﺯ ﺃﻥ ﺗﺮﻯ ﻣﻨﻬﺎ ﻣﺎ ﻳﺒﺪﻭ ﻋﻨﺪ اﻟﻤﻬﻨﺔ ﻋﻠﻰ اﻷﺷﺒﻪ ﻓﻲ اﻟﺮﻭﺿﺔ ﻛﺄﺻﻠﻬﺎ ﻭﻫﻮ اﻟﻤﻌﺘﻤﺪ، ﻭﻗﻴﻞ: اﻟﻮﺟﻪ ﻭاﻟﻜﻔﻴﻦ ﻓﻘﻂ۔
مغني المحتاج:٤/٢١٣
جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1312
صلاۃ التوبہ کسی دوسری نماز کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
اگر کوئی شخص صلاۃ التوبہ کسی فرض يا نفل نماز کے ساتھ پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے اس نماز کو الگ سے پڑھنا ضروری نہیں بلکہ کسی بھی نماز کے ساتھ صلاۃ التوبہ کی نیت کرنے سے یہ نماز بھی حاصل ہوجائے گی۔
الإمام ابن حجر الهيتمي فرماتے ہیں: مَا تَنْدَرِجُ فِي غَيْرِهَا لَا يَجِبُ تَعْيِينُهَا بِالنِّسْبَةِ لِسُقُوطِ طَلَبِهَا بَلْ لِحِيَازَةِ ثَوَابِهَا كَتَحِيَّةِ مَسْجِدٍ وَسُنَّةِ إحْرَامٍ وَاسْتِخَارَةٍ وَوُضُوءٍ وَطَوَافٍ… وَيَنْبَغِي أَنْ يُلْحَقَ بِذَلِكَ صَلَاةُ التَّوْبَةِ وَرَكْعَتَا الْقَتْلِ وَعِنْدَ الزِّفَافِ وَنَحْوَ ذَلِكَ مِنْ كُلِّ مَا قُصِدَ بِهِ مُجَرَّدُ الشُّغْلِ بِالصَّلَاةِ.
(حواشي الشرواني وابن قاسم العبادي على تحفة المحتاج :١٦٣/٢)
نهاية المحتاج: ٤٥٥/١
نهاية الزين: ٥٥/١
كفاية النبيه:٧١/٣
مغني المحتاج: ٤٥٦/١
جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1309
شرعی طور پر ایسے کپڑے پہننے کا کیا مسئلہ ہے جن پر “مسلم” یا “اسلام” یا اللہ اور رسول کے نام ہو؟
ایسے کپڑے جن پر اسلام” "مسلمان یا اسی طرح قرآنی آیات، عربی الفاظ و اشعار وغیرہ لکھے ہوئے ہوں تو ایسا کپڑا پہننا جائز ہے۔ االبتہ قرآنی آیات یا اللہ و رسول کے ناموں کی بے حرمتی نہ ہو اس کا احتیاط ضروری ہے۔ بےحرمتی و بے ادبی کا قوی امکان ہو تو پھر درست نہیں ہوگا
قال محمد الخطيب الشربيني: يُكْرَهُ كَتْبُ الْقُرْآنِ عَلَى حَائِطٍ وَلَوْ لِمَسْجِدٍ وَثِيَابٍ وَطَعَامٍ وَنَحْوِ ذَلِكَ، وَيَجُوزُ هَدْمُ الْحَائِطِ وَلُبْسُ الثَّوْبِ وَأَكْلُ الطَّعَامِ.
(الإقناع: ٢٥٢/١)
قال زكريا الأنصاري: وَيُكْرَهُ كَتْبُهُ أَيْ الْقُرْآنِ عَلَى حَائِطٍ وَلَوْ لِمَسْجِدٍ وَعِمَامَةٍ لَوْ قَالَ وَثِيَابٌ كَمَا فِي الرَّوْضَةِ كَانَ أَوْلَى…وَيَجُوزُ هَدْمُهُ أَيْ الْحَائِطِ وَلُبْسُهَا أَيْ الْعِمَامَةِ وَالتَّصْرِيحُ بِهِ مِنْ زِيَادَتِهِ…
(اسني المطالب: ١٤٠/١)
مغني المحتاج: ١٢٤/١
بجيرمي علي الخطيب: ٣٧٢/١
حواشي الشرواني: ٢٤٩/١
جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1308
مرغا اگر نماز کے اوقات میت آواز لگاتا ہو اور بارہا اس کا تجربہ بھی کیا گیا ہو، تو ایسے مرغے کی بانگ پر نماز کے اوقات کا اعتبار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
اگر مرغا اکثر و بیشتر نماز کے اوقات کے مطابق بانگ دیتا ہو اور بارہا اس کا تجربہ کیا گیا ہو اور اس کے پاس اذان کا وقت جاننے کے لیے کوئی آلہ یعنی گھڑی یا موبائیل وغیرہ نہ ہو تو ایسی صورت میں اس مرغے کی صُراخ (آواز/ بانگ) کو نماز کے اوقات کی تعین کے لیے معتبر سمجھا جاسکتا ہے۔ اور ایسی حالت میں مرغا کے آواز دینے سے وقت کا اندازہ لگا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
قال شهاب الدين الرملي: اجتهد) بما يغلب على ظنه دخوله ( بورد ونحوه ) كصوت ديك جربت إصابته للوقت ، وصنعة وجوبا إن عجز عن اليقين ، وجوازا إن قدر عليه . هذا كله إن لم يخبره ثقة عن مشاهدة
(نهاية المحتاج: ٣٨٠/١)
قال إمام النووي:فرع: الديك الذي جربت إصابته في صياحه للوقت يجوز اعتماده في دخول الوقت، ذكره القاضي حسين وصاحب التتمة والرافعي.
(المجموع: ٨٠/٣)
قال إمام الخطيب الشربيني::وَمَنْ جَهِلَ الْوَقْتَ)…(جْتَهَدَ)…(بِوِرْدٍ) مِنْ قُرْآنٍ وَدَرْسٍ وَمُطَالَعَةٍ وَصَلَاةٍ (وَنَحْوِهِ) أَيْ الْوَرْدِ كَخِيَاطَةٍ وَصَوْتِ دِيكٍ مُجَرَّبٍ، وَسَوَاءٌ الْبَصِيرُ وَالْأَعْمَى، قال إمام الجمل: لِأَنَّ مَا دَخَلَ تَحْتَهُ مِنْ الْوَرْدِ وَكَلَامِ الشَّارِحِ يُشِيرُ إلَى رَدِّهِ؛ لِأَنَّ الْوِرْدَ مَا كَانَ بِنَحْوِ ذِكْرٍ أَوْ قِرَاءَةٍ وَنَحْوِهِ مَا كَانَ بِنَحْوِ صِنَاعَةٍ وَمِنْهُ سَمَاعُ صَوْتِ دِيكٍ مُجَرَّبٍ وَسَمَاعُ مَنْ لَمْ تُعْلَمْ عَدَالَتُهُ وَمَنْ لَمْ يُعْلَمْ أَنَّ آذَانَهُ أَوْ خَبَرَهُ عَنْ عِلْمٍ وَسَمَاعِ آذَانِ ثِقَةٍ عَارِفٍ فِي الْغَيْمِ لَكِنَّ لَهُ فِي هَذِهِ تَقْلِيدَهُ اهـ (قَوْلُهُ: كَخِيَاطَةٍ إلَخْ) أَيْ بِأَنْ يَتَأَمَّلَ فِي الْخِيَاطَةِ الَّتِي فَعَلَهَا هَلْ أَسْرَعَ فِيهَا عَادَتَهُ أَوْ لَا وَقَوْلُهُ وَصَوْتِ دِيكٍ مُجَرَّبٍ أَيْ بِأَنْ يَتَأَمَّلَ هَلْ آذَانُهُ قَبْلَ عَادَتِهِ أَمْ لَا.
(مغني المحتاج :٣٢٢/١)
•حاشية الجمل:٤٤٠/١
•حواشي البجيرمي:١٥٧/١
جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعیءسوال نمبر/ 1311
کھانے پینے کی چیز میں پھونک مارنے کا کیا حکم ہے؟
برتن میں یا کھانے میں سانس لینا یا پھونک مارنا مکروہ ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ برتن کو منہ سے ہٹا کر سانس لیں۔ اگر کھانا زیادہ گرم ہو تو ٹھنڈا ہونے تک انتظار کریں اگر کھانے میں کوئی گندگی ہو تو اسے اپنی انگلی سے نکال دیں ۔
قال الامام زكريا الأنصاري رحمه الله: وَيُكْرَهُ أَنْ يَتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاءِ، وَأَنْ يَنْفُخَ فِيهِ، أَوْ فِي الطَّعَامِ
(الغرر البهية:٨/٨٨)
قال الامام الرؤياني رحمه الله: الأحسن في الأدب أن يتنفس بعد إبانة الإناء عن فيه ولا حاجة إلى النفخ لأنه لأحد معنيين إن كان لحرارة الشراب فليصبر حتى يبرد، وإن كان من أجل قذى يبصره فيه فليمطه بإصبع أو بحلال أو نحو ذلك.
(بحر المذهب: ١٣/١٤٥)
جمعرات _18 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سورہ النساء آیت نمبر 085 – 086 – 087
مولانا عبد العلیم خطیب صاحب ندوی
بدھ _17 _ستمبر _2025AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
سورہ النساء آیت نمبر 084
مولانا عبد العلیم خطیب صاحب ندوی