بھٹكل جامع مسجد عربی خطبہ – 11-05-2018
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0605
رضاعی ماں کو زکات دینے یا رضاعی ماں اپنے رضاعی بچےکو زکات دے تو کیا زکات ادا ہوگی؟
جواب: اگر کوئی اپنی رضاعی ماں کو جو زکات کی مستحق ہو زکات دے تو اس کی زکات ادا ہوجائے گی، اسی طرح اگر رضاعی ماں اپنے دودھ پینے والے بچے کو زکات دے تب زکات ادا ہوگی اس لیے کہ رضاعی ماں پر رضاعی بچہ کا نفقہ واجب نہیں اور نہ رضاعی بیٹے پر رضائی ماں کا نفقہ واجب ہے۔
وأجمعت الأمة على تأثيره في النكاح، وثبوت المحرمية، وأظهر قولي الشافعي: أنه يؤثر في عدم نقض الوضوء، ولا يؤثر فيما عدا ذلك كالميراث والنفقة والعتق. (النجم الوهاج: ٨/١٩٩) شروط استحقاق الزكاة، ومن لا تدفع إليهم…..أن لا تكون نفقته واجبة على المزكي….فلا يجوز دفع الزكاة إلى الأب والأم أو الجد والجدة مهما علوا، لأن نفقتهم واجبة على الفروع، وكذلك لا يجوز دفع الزكاة إلى الأبناء والبنات وفروعهم إن كانوا صغارا، أو كبارا مجانين أو مرضى مزمنين، لأن نفقة هؤلاء واجبة على آبائهم. (الفقه المنهجي ١/٣٢٥) مغني المحتاج ٤/٢٩٠
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
فقہ شافعی سوال نمبر / 0449
اگر کسی کا پڑوسی زکات کا مستحق ہو تو کیا ہم اسکی طرف سے تحفہ اور دعوت قبول کرسکتے ہیں؟
جواب:۔ اگر کسی کا پڑوسی مستحق زکات ہو اور وہ تحفہ و ہدیہ پیش کرے یا دعوت دے تو اس کو قبول کرنا جائز ہے، چونکہ مستحق زکات شخص کو جو زکات دى جاتی ہیں تو وہ اس مال کا مالک بن جاتا ہے لہذا اگر کسی کا پڑوسی زکات کی رقم لے کر آپ کو ہدیہ یا تحفہ دے تو اس کو قبول کرنا درست ہے۔
عن انس رضی اللہ عنہ أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بلحم تصدق به على بريرة فقال هو عليها صدقة وهو لنا هدية…(رواه البخاري 1495) (مسلم: 170 /1074) دلیل للشافعی: وموافقیه ان لحم الاضحیة اذا قبضه المتصدق علیه وسائر الصدقات یجوز لقابضھا بیعھا. ویحل لمن اھداھا الیه او ملکھا منه بطریق آخر (شرح مسلم:3/148)
Fiqhe Shafi Question No/0449
Can one accept the gifts and invitation from his neighbour who deserves zakah?
Ans; If ones neighbour is a person deserving zakah and he presents gift and invitation then accepting from him is permissible…Whereas the zakah given to the deserving person becomes the owner of the wealth of zakah. Therefore, if ones neighbour accepts the wealth of zakah and give it as a gift or present then accepting those gifts is permissible..
سوال نمبر/ 0244
اگر کسی عورت کےپاس مہرکی رقم موجود ہو یا زیورات ہوں تو کیا اس پر زکوۃ واجب ہوگی؟
جواب:۔ اگرکسی عورت کے پاس بطور مہر نصاب زکوۃ کے بقدر رقم موجود ہو اوراس پر ایک سال مکمل ہوگیا ہو تو اس کی زکاۃ نکالنا واجب ہے. مہر اگر زیورات کی شکل میں ہے.اور ان زیورات کو پہننے کی نیت کے بغیر ذخیرہ اندوزی کی نیت سے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ تواس پر بھی زکوۃ واجب ہوگی. البتہ ان زیورات کو پہننے اور استعمال کی نیت سے رکھی ہوئی ہے تو اس میں زکوۃ واجب نہ ہوگی. اس لیے کہ استعمال کی نیت کی بناء پر وہ زیورات حلی مباح میں شمار ہوں گے. اور عندالشوافع حلی مباح میں زکوۃ واجب نہیں ہے. (مغني المحتاج 142/2)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
سورة ابراهيم – آيت نمبر 48-49-50-51-52 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0444
اگر کوئی شخص اپنے پورے مال کو صدقہ کرے اور اس سے زکات کی نیت نہ کرے تو اس سے زکات ساقط ہوگی یا نہیں؟
جواب:۔ اگر کوئی شخص اپنے پورے مال کو صدقہ کرے اور اس سے زکات کی نیت نہ کرے تو اس سے زکات ساقط نہیں ہوگی بلکہ زکات کی نیت کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔
علامہ عمراني رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ﻭﺇﻥ ﺗﺼﺪﻕ ﺑﺠﻤﻴﻊ ﻣﺎﻟﻪ، ﻭﻟﻢ ﻳﻨﻮ ﺑﺸﻲء ﻣﻨﻪ اﻟﺰﻛﺎﺓ.. ﻟﻢ ﻳﺠﺰﺋﻪ ﻋﻦ اﻟﺰﻛﺎﺓ۔ (البيان:3/415) *المجموع:6/185 *روضة الطالبين:2/76
Fiqhe Shafi Question No/0444
If anyone gives all his wealth as sadqa and doesn’t make the niyyah of zakah then does the zakah get dropped for him?
Ans; If anyone gives all his wealth as sadqa and doesn’t make the niyyah of zakah from it then the zakah doesnot get dropped for him rather it is necessary to give with the niyyah of zakah..
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0604
اگر ہم زکات کی نیت سے کسی کو پیسے دے اور ضرورت مند کو اس بات کا علم نہ ہو کہ یہ زکات کے پیسے ہے اس سے زکات ادا ہوگی یا نہیں؟
جواب:۔عام حالت میں پوشیدہ طور پر صدقہ دینا افضل ہے، اسلئے کہ اس میں ریاء نہیں ہوتا البتہ اگر علانیہ صدقہ دینے میں کوئی دینی مصلحت ہو مثلا لوگ بھی اس کی اقتدا کرینگے تو پھر علانیہ صدقہ دینا افضل ہوگا، البتہ زکات کی رقم دیتے وقت زکات لینے والے کو بتانا ضروری نہیں ہے۔
إذا دفع المالك أو غيره الزكاة إلى المستحق ولم يقل هي زكاة ولا تكلم بشئ أصلا أجزأه ووقع زكاة هذا هو المذهب الصحيح المشهور الذي قطع به الجمهور۔ (المجموع :٦ ٢٢٣) (التهذيب : ٣/٦٣) (روضة الطالبين٢/ ٢٠٧)