بھٹكل مسجدِ ابوذر غفاری گلمی روڈ عربی خطبہ – 04-05-2018
مولانا عبدالاحد فكردے ندوی صاحب
مولانا عبدالاحد فكردے ندوی صاحب
مولانا جعفر فقیہ صاحب ندوی
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0601
بہت سے لوگ خصوصیت کے ساتھ رمضان میں عمرہ کرنا پسند کرتے ہیں تو کیا رمضان میں عمرہ کرنے کی کوئی خاص فضیلت ہے؟
جواب:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ماہ رمضان آئے تو عمرہ کرے کیونکہ رمضان میں عمرہ کرنا اجر و ثواب کے اعتبار سے حج کے برابر ہے۔ (صحیح بخاري:١٦٥٩) صحیح بخاری کی اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں عمرہ کرنا یہ فضیلت کی بات ہے کیونکہ رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کے برابر ہوتا ہے اس لئے رمضان المبارک میں عمرہ کرنا غیر رمضان میں عمرہ سے زیادہ مستحب ہے۔
وَيُسْتَحَبُّ الِاعْتِمَارُ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَفِي رَمَضَانَ لِلْأَحَادِيثِ السَّابِقَةِ قَالَ الْمُتَوَلِّي وَغَيْرُهُ وَالْعُمْرَةُ فِي رَمَضَانَ أَفْضَلُ مِنْهَا فِي بَاقِي السَّنَةِ لِلْحَدِيثِ السَّابِقِ۔ (المجموع : ١١٥/٧)
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0600
اگر کسی باغ کے اردگرد کمپاؤنڈ موجود ہو یا نہ ہو تو ایسے باغ کے گرے ہوئے پھلوں کے اٹھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ کسی چیز کو اس کے مالک کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے لہذا کسی باغ کے پھلوں کو مالک کی اجازت کے بغیر اٹھانا جائز نہیں ہے البتہ اضطرار یعنی بھوک شدت سے کھانے پینے کے لیے اس کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو تب جائز ہے، مگر اس کا بدلہ ادا کرے گا اسی طرح گرے ہوئے پھلوں کا حکم درخت پر موجود پھلوں کی طرح ہے یعنی اگر درخت کمپاونڈ کے اندر ہوں تو ان پھلوں کا اٹھانا مالک کی اجازت کے بغیر درست نہ ہوگا اور اگر کمپاونڈ کے باہر پھل گرا ہو تو صحیح قول کے مطابق ایسے پھلوں کا اٹھانا اور کھانا اس وقت جائز ہے جب کہ یہ گمان ہو کہ اس کا مالک گرے پڑے پھل کھانے پر ناراض نہ ہوتا ہو، اگر درخت کا مالک ناراض ہوتا ہو یا منع کرتا ہو تو ایسے پھل اٹھانا اور کھانا جائز نہیں ہے۔
إذَا مَرَّ الْإِنْسَانُ بِثَمَرِ غَيْرِهِ أَوْ زَرْعِهِ لَمْ يَجُزْ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُ وَلَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ بِغَيْرِ إذْنِ صَاحِبِهِ إلَّا أَنْ يَكُونَ مُضْطَرًّا فَيَأْكُلَ حِينَئِذٍ وَيَضْمَنَ كَمَا سَبَقَ قَالَ أَصْحَابُنَا وَحُكْمُ الثِّمَارِ السَّاقِطَةِ مِنْ الْأَشْجَارِ حُكْمُ الثِّمَارِ الَّتِي عَلَى الشَّجَرِ إنْ كَانَتْ السَّاقِطَةُ دَاخِلَ الْجِدَارِ وَإِنْ كَانَتْ خَارِجَةً فَكَذَلِكَ إنْ لَمْ تَجْرِ عَادَتُهُمْ بِإِبَاحَتِهَا فَإِنْ جَرَتْ فَوَجْهَانِ أَحَدُهُمَا) لَا يَحِلُّ كَالدَّاخِلَةِ وَكَمَا إذَا لَمْ تَجْرِ عَادَتُهُمْ لِاحْتِمَالِ أَنَّ هَذَا الْمَالِكَ لَا يُبِيحُ (وَأَصَحُّهُمَا) يَحِلُّ لِاطِّرَادِ الْعَادَةِ الْمُسْتَمِرَّةِ بِذَلِكَ وَحُصُولِ الظَّنِّ بِإِبَاحَتِهِ. (المجموع :٤٩/٩) * كتاب الام :٦٣٨/٣