المعلمون في التعليم – 09-02-2024
فضيلة الشيخ صالح بن عبدالله بن حميد
فضيلة الشيخ صالح بن عبدالله بن حميد
مولانا اقبال نائطے صاحب ندوی
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا خواجہ معین الدین اكرمی صاحب مدنی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
مولانا عبدالعلیم خطیب صاحب ندوی
فقہ شافعی سوال نمبر / 1248
جمعہ کا خطبہ اگر ظھر کا وقت شروع ہونے سے پہلے دیا جائے تو جمعہ کا خطبہ اور نماز درست ہوگی یا نہیں؟
اگر کسی جگہ جمعہ کا خطبہ ظہر کا وقت شروع ہونے سے پہلے دیا جائے تو جمعہ کی نماز اور خطبہ دونوں درست نہیں اس لیے کہ خطبہ اور جمعہ کی نماز کے لیے ظہر کا وقت شروع ہونا ضروری ہے۔
وَلَا تصح الجمعة إلا في وقت الظهر لانهما فرض في وقت واحد…. وان خطب قبل دخول الوقت لم تصح لان الجمعة ردت إلي ركعتين بالخطبة فإذا لم تجز الصلاة قبل الوقت لم تجز الخطبة فان دخل فيها في وقتها… المجموع:٤ -٥٠٩
وشرطها : الوقت ؛ أي : وقت الظهر ؛بأن تفعل مع خطبتيها كلها فيه؛ لخبر البخاري عن أنس :أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي الجمعة حين تميل الشمس… فلا يجوز شيء من ذلك قبل وقت الظهر ولا بعده… فتح الرحمان/ ٣٨٥
السراج الوهاج:١/٨٥
الفقه المنهجي:١/٢٠٣
المعتمد/١-٥٠٥
فقہ شافعی سوال نمبر / 1247
سنن رواتب اور صلاة الحاجة و صلاۃ التوبہ جیسی نمازوں کو ایک نیت کے ساتھ جمع کرکے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
سنن رواتب کے ساتھ صلاة الحاجة یا صلاۃ التوبہ کی نماز کو ایک ہی نیت کے ساتھ جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔
صَلَاة الْحَاجة فَمن ضَاقَ عَلَيْهِ الْأَمر ومسته حَاجَة…. وَتحصل بِرَكْعَتَيْنِ يَنْوِي بهما قَضَاء حَاجته….. وتندرجان فِي الْفَرْض وَالنَّفْل كتحية الْمَسْجِد۔ نهاية الزين: ١/١٠٥
قَوْلُهُ كَتَحِيَّةِ مَسْجِدٍ إلَخْ) أَيْ وَصَلَاةِ الْحَاجَةِ وَسُنَّةِ الزَّوَالِ وَصَلَاةِ الْغَفْلَةِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ….. وَيَنْبَغِي أَنْ يُلْحَقَ بِذَلِكَ صَلَاةُ التَّوْبَةِ وَرَكْعَتَا الْقَتْلِ وَعِنْدَ الزِّفَافِ وَنَحْوَ ذَلِكَ مِنْ كُلِّ مَا قُصِدَ بِهِ مُجَرَّدُ الشُّغْلِ بِالصَّلَاةِ. تحفة المحتاج: ٢/١١
أَمَّا غَيْرُ الْمَقْصُودِ كَتَحِيَّةٍ وَاسْتِخَارَةٍ وَإِحْرَامٍ وَطَوَافٍ وَسُنَّةِ وُضُوءٍ أَوْ غُسْلٍ أَوْ غَفْلَةٍ وَسُنَّةِ الْقُدُومِ مِنْ السَّفَرِ وَالْخُرُوجِ لَهُ وَرَكْعَتَيْ الْحَاجَةِ وَالزِّفَافِ فَهَذِهِ الْعَشَرَةُ نَصَّ عَلَيْهَا الرَّمْلِيُّ فَيَجُوزُ جَمْعُهَا مَعَ فَرْضٍ أَوْ نَفْلِ۔ حاشية البجيرمي:٢/٨
الإقناع. ١/١٢٩
إعانة الطالبين. ١/١٥٠
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
بزبانِ نوائطی
فقہ شافعی سوال نمبر / 1246
اگر کسی عورت سے متعلق طبی علاج کے بعد یا معائنہ کے بعد یہ معلوم ہو جائے کہ اس میں ولادت کی صلاحیت نہیں ہے تو اس عورت سے نکاح کرنے کا کیا حکم ہے؟
نکاح کے بہت سارے مقاصد ہیں اس میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ انسان پاک دامن رہے اپنی خواہشات کو حلال طریقے سے پورا کرے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس سے نسل انسانی کی ترویج بھی ہو۔ اگر طبی ذرائع سے یقینی طور پر کسی شخص کے تعلق سے یہ بات معلوم ہو کہ ولادت کی صلاحیت نہیں ہے تب بھی اس سے نکاح کرنا یا شادی کرنا جائز ہے۔ البتہ حدیث پاک میں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ اس شخص سے یا اس عورت سے شادی کی جائے جس میں ولادت کی صلاحیت ہو اس سے نکاح کرنا چاہیے۔
وقال المناوي رحمة الله عليه: «تزوج غير الولود مكروه تنزيهًا» انتهى.وكما يجوز للمرأة أن تتزوج من الرجل العقيم، فكذلك يجوز للرجل أن يتزوج من المرأة العقيم.*
فيض القدير: ٦/٩٧٧٥
وَيُنْدَبُ لِمُرِيدِ النِّكَاحِ أَنْ يَنْكِحَ (الْوَلُودَ) الْوَدُودَ لِخَبَرِ «تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
(الغرر البهية: ٤/٩٣)
التهذيب: ٥/٢٣٣
الوسيط: ٥/٢٧