درس قرآن نمبر 0777
سورة الانعام– آيت نمبر 158 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
سورة الانعام– آيت نمبر 158 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
سوال نمبر/ 0400
سونےکے کاروبار کے دو طریقہ ہے ایک قانونی اور دوسرا غیر قانونی، تو کیا غیر قانونی طریقہ پر کاروبار کرنا کیسا ہے؟
جواب:۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :کہ مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کر ے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ وہ آپنے آپکو کیسے ذلیل کرے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :کہ وہ آپنے آپکو ایسی مصیبت میں ڈالے جو اسکے مناسب نہ ہو (الترمذی/2254)
مذکورہ حدیث کے تحت علماء فرماتے ہیں مصیبت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ نقصاندہ اسباب کو اختیار کیا جاے، معلوم یہ ہوا حکومت کے قانونی طریقہ پر لایا ہوا سونا یعنی اس سے متعلق واجبات (ٹیکس) کو ادا کر دیا گیا ہو تو اس کی خرید و فروخت کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، جہاں تک غیر قانونی طریقہ (اسمگلنگ) کے ذریعہ لایا ہوا سونا یہ عمل قانونا جرم ہے، اس کے پکڑے جانے پر سخت سزا اور بےعزتی کا امکان ہے، لہٰذا شرعا کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے کاروبار میں ایسا طریقہ اختیار کر ے جس میں اس کی عزت و آبرو کو خطرہ لاحق ہو، اس طرح کے کاروبار کرنے سے بچنا لازم ہے ۔
————–
امام سندی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ویتعرض من البلاء…. أو بأن يأتي بأسبابها العادية۔(شرح السنن : رقم :4066)
أمام شاطبي فرماتے ہیں:
ومجموع الضروريات خمسة: وهي حفظ الدين و النفس والنقل والمال والعقل وقد قالوا: إنها مراعاة في كل ملة (الموافقات :2/327 (دارالمعرفة، بيروت)
فإذا منعت الدولة تهريب الذهب أو نحوه من الأشياء المباحة لمصالح تعود علي البلد والناس ولمفاسد معتبرة تدفع فيجب الإلتزام بهذا القرار والكف عن التهريب۔(اسلام ويب :254782)
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سورة الانعام– آيت نمبر 158 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
سوال نمبر/ 0104
کسی مسجد میں ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت کرکے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ اگر کسی مسجد میں امام مقرر ہو تو اس کی جماعت سے قبل یا بعد اس کی اجازت کے بغیر دوسری جماعت مکروہ ہے، لیکن اگر مسجد بازار میں یا ایسے راستے پر جہاں لوگوں کی ہمیشہ آمدورفت رہتی ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔
————–
وان حضر وقد فرغ الامام من الصلاة فان كان المسجد له امام راتب كره ان يستانف فيه جماعة وان كان المسجد في سوق او ممر الناس لم يكره أن يستانف الجماعة۔(المھذب مع المجموع/4/193)
اما اذا لم یکن له امام راتب فلا کراھة في الجماعة الثانیه والثالثه…..
واما اذا کان له امام راتب ولیس المسجد مطروقا فمذھبنا کراھك الجماعة الثانیة بغیر أذنه (المجموع:4/194)
سورة الانعام– آيت نمبر 154-155-156-157 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
سوال نمبر/ 0105
تیراکی کے وقت پانی میں پیشاب کرنے کا شرعا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ تیراکی رکے ہوئے پانی میں ہو مثلا کنویں یا تالاب میں اور پانی کم ہو تو اس میں پیشاب کرنا حرام ہے. اور اگر ٹہرا ہوا پانی زیادہ ہو تو مکروہ ہے. لیکن تیراکی جاری پانی میں ہو اور وہ زیادہ ہو مثلا ندی یا سمندر تو حرام نہیں ہے. البتہ جاری پانی میں بھی پیشاب کرنا بہتر نہیں ہے. لیکن اگر جاری پانی کم ہو تو پھر پیشاب کرنا مکروہ ہے۔ اس لئے تیرا کی کرنے والوں کو چاہیے کہ پانی میں پیشاب نہ کریں۔ اس لیے کہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص ٹہڑے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے۔ (مسلم:665 )
————–
وإن كان الماء كثيرا راكبا فقال أصحابنا يكره ولا يحرم…وأما الراكد القليل فقد أطلق جماعة من أصحابنا أنه مكروه والصواب المختار انه يحرم البول فيه (شرح مسلم 1/523)
[ فإن كان الماء كثيرا جاريا لم يحرم البول فيه لمفهوم الحديث ولكن الأولى إجتنابه (شرح مسلم 1/523)
وان كان قليلا جاريا فقد قال جماعة من أصحابنا: يكره…لأنه يقذره وينجسه (شرح مسلم1/523)