درس حدیث نمبر 0088
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
سوال نمبر/ 0109
فرض صدقہ کا گوشت اپنے غریب رشتہ داروں کو دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب:۔ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین کو صدقہ دینے پر ایک صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور رشتہ داروں کو دینے پر دو صدقہ کا ثواب ملتا ہے ایک صدقہ کا اور ایک صلہ رحمی کا (الترمذی :658 )
علامہ مبارکپوری رحمة الله عليه فرماتے ہیں مذکورہ حدیث نفل اور فرض صدقہ دونوں کو شامل ہے اور رشتہ داروں کو زکاة دینے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، لہذا فرض صدقہ کا گوشت اپنے ان غریب رشتہ دارں کو دینا جائز ہے جن کا نفقہ اس پر لازم نہ ہو مثلا بیوی بچے ماں باپ وغیرہ ان کے علاوہ رشتہ دار کو دینا جائز ہے بلکہ ان کو دینا افضل ہے اسی پر دہرا اجر ملنے کا ذکر ہے ایک صلہ رحمی کا اجر، اور دوسرا زکوة کی ادائیگی کا اجر ۔
والله اعلم بالصواب
————–
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ اﻷﺻﻨﺎﻑ ﺃﻗﺎﺭﺏ ﻟﻪ ﻻ ﻳﻠﺰﻣﻪ ﻧﻔﻘﺘﻬﻢ اﺳﺘﺤﺐ ﺃﻥ ﻳﺨﺺ اﻷﻗﺮﺏ ﻓﻤﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﻳﻀﺎ ﻟﻤﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎ ﻣﻦ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ ﻗﺎﻝ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻓﻲ ﺻﺪﻗﺔ اﻟﺘﻄﻮﻉ ﻭﻓﻲ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻭاﻟﻜﻔﺎﺭﺓ ﺻﺮﻓﻬﺎ ﺇﻟﻰ اﻷﻗﺎﺭﺏ ﺇﺫا ﻛﺎﻧﻮ ﺑﺼﻔﺔ اﻻﺳﺘﺤﻘﺎﻕ ﻭﻫﻢ ﺃﻓﻀﻞ ﻣﻦ اﻷﺟﺎﻧﺐ'(المجموع209-210/6
علامہ مبارکپوری رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
اﻟﺼﺪﻗﺔ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺴﻜﻴﻦ اﻟﺦ) ﺇﻃﻼﻗﻪ ﻳﺸﻤﻞ اﻟﻔﺮﺽ ﻭاﻟﻨﺪﺏ ﻓﻴﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﺟﻮاﺯ ﺃﺩاء اﻟﺰﻛﺎﺓ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﺮاﺑﺔ۔(مرعاة المفاتيح :رقم الحدیث 1960)
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سورة الانعام– آيت نمبر 151 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
سوال نمبر/ 0110
اگر جماعت کھڑی ہو جائے تو جماعت کے حصول کے لئے دوڑ کر آنے کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر یہ جماعت نماز جمعہ کی ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا "کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو تم دوڑ کر مت آؤ بلکہ تم چل کر سکون وقار سے آؤ ۔(مسلم /1359)
فقہائے کرام نے اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو اس کے حصول کے لئے دوڑ کر آنا مکروہ ہے اور اگر یہ جماعت نماز جمعہ کے لیے ہو اور جماعت کے فوت ہو نے کا اندیشہ ہو اور امام کی سلام سے قبل امام کے ساتھ ملنے کا امکان ہو تو اس صورت میں دوڑنا واجب ہوگا۔
"إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلي ذكرالله ‘ جب جمعہ کے دن اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرو۔(سورة الجمعة 9)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (ﻗﺎﻝ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ)
ﻭﻛﺮﻫﺘﻢ ﺯﻋﻤﺘﻢ ﺇﺳﺮاﻉ اﻟﻤﺸﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻓﻘﻠﺖ ﻟﻠﺸﺎﻓﻌﻲ:ﻧﺤﻦ ﻧﻜﺮﻩ اﻹﺳﺮاﻉ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺇﺫا ﺃﻗﻴﻤﺖ اﻟﺼﻼﺓ
(ﻗﺎﻝ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ)
ﻓﺈﻥ ﻛﻨﺘﻢ ﻛﺮﻫﺘﻤﻮﻩ ﻟﻘﻮﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ۔
«ﺇﺫا ﺃﺗﻴﺘﻢ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﻼ ﺗﺄﺗﻮﻫﺎ ﻭﺃﻧﺘﻢ ﺗﺴﻌﻮﻥ ﻭاﺋﺘﻮﻫﺎ ﺗﻤﺸﻮﻥ ﻭﻋﻠﻴﻜﻢ اﻟﺴﻜﻴﻨﺔ»
ﻓﻘﺪ ﺃﺻﺒﺘﻢ۔(الأم :8/71)
علامہ ملیباری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ﻭﻳﻨﺪﺏ ﺗﺮﻙ اﻹﺳﺮاﻉ ﻭﺇﻥ ﺧﺎﻑ ﻓﻮﺕ اﻟﺘﺤﺮﻡ ﻭﻛﺬا اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻋﻠﻰ اﻷﺻﺢ ﺇﻻ ﻓﻲ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﻴﺠﺐ ﻃﺎﻗﺘﻪ ﺇﻥ ﺭﺟﺎ ﺇﺩﺭاﻙ اﻟﺘﺤﺮﻡ ﻗﺒﻞ ﺳﻼﻡ اﻹﻣﺎﻡ.(فتح المعين :84)
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سورة الانعام– آيت نمبر 151 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
سوال نمبر/ 0111
اگر کوئی شخص کسی بیماری کی وجہ سے مکمل دن یا کسی ایک نماز کے مکمل وقت تک بےہوش رہا تو ان نمازوں کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر اس کا اسی حالت میں انتقال ہو جائے تو کیا ان نمازوں کی قضاء اس کے ذمہ باقی رہیگی؟
جواب:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "تین لوگوں سے قلم کو اٹھا لیا گیا ہے، سونے والے سے یہاں تک کہ بیدار ہو جائے مجنون سے یہاں تک کہ اس کا جنون ختم ہو جائے بچہ ہاں تک کہ بالغ ہو جائے۔(ابو داؤد 4398)
اس حدیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ مجنون سے نماز ساقط ہو جاتی ہے اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر کوئی شخص بیماری یا کسی کی اور وجہ سے مکمل دن یا کسی ایک نماز کے وقت بے ہوش رہا تو ان نمازوں کی قضاء ضروری نہیں ، نیز اگر اسی حالت میں انتقال ہوگیا تو ان نمازوں کی قضاء اس کے ذمہ باقی نہیں رہتی البتہ قضا کرنا مستحب ہے۔
—————
امام رملی رحمة الله عليه فرماتے ہیں
ولا قضاء….ذي جنون أو إغماء ورد النص فى الجنون وقيس عليه كل من زال عقله بسبب بعذر فيه سواء أقل زمن ذلك أم طال…ويستحب للمجنون والمغمى عليه ونحوها القضاء (نهاية المحتاج1/241)