خطبة الإستسقاء المدينة – 26-01-2017
فضيلة الشيخ عبدالله بن عبدالرحمن البعيجان
فضيلة الشيخ عبدالله بن عبدالرحمن البعيجان
فضيلة الشيخ عبدالرحمن بن عبدالعزيز السديس
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سورة الانعام– آيت نمبر 146-147 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
سوال نمبر/ 0112
اگر کوئی شخص حالتِ حیض میں اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس کے لئے شرعاً کیا حکم ہے،نیز ایسے شخص کے بارے میں شرعاً کیا وعید ہے؟
جواب :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”کہ لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں. آپ کہہ دیجئے کہ وہ گندہ اور نقصان دہ خون ہوتا ہے.اس لئے حالتِ حیض میں اپنی عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ جب خون سے اچھی طرح پاک ہو جائیں تو ان کے ساتھ اس جگہ جماع کرو جہاں جماع کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے (البقرۃ: 222)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا سے منقول ہے فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عورتوں سے مباشرت کرتے درانحالیکہ وہ حائضہ ہوتیں اور ان پر ازار ہوتی رانوں تک یا گھٹنوں تک جس کے ذریعہ وہ پردہ کرتے۔(ابوداؤد: 267)
آیتِ کریمہ اور حدیثِ پاک سے پتہ چلتا ہے اور امت کا اس بات پر اجماع بھی ہے کہ حالتِ حیض میں عورت سے جماع کرنا حرام ہے، اگر کوئی شخص حالتِ حیض میں اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہوگا بلکہ اس کی تعزیر کی جائے گی اور وہ اللہ سے استغفار کرے گا اور توبہ کرے گا. اور وہ کہ جس میں ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرنے کا ذکر ہے اس حدیث کو امام نووی رحمة الله عليه نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس پر حفاظ کا اتفاق بھی نقل کیا ہے، پس درست بات یہ ہے کہ اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے.(شرحِ مسلم: 536)
—————
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
أجمع المسلون على تحريم وطئ الحائض للآية الكريمة والأحاديث الصحيحة …….
الصحيح الجديد لا يلزمه كفارة بل يعذر ويستغفرالله تعالى ويتوب.(المجموع:362/2)
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سورة الانعام– آيت نمبر 145 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
سوال نمبر/ 0113
بسا اوقات بعض جگہوں پر پانی میں کیمیکل چھوڑا جاتا ہے جس کی وجہ سے مچھلیاں پانی کے کنارے لگ جاتی ہیں اگر ان کو فورا نہ پکڑا جائے تو تھوڑی دیر کے بعد مر جاتی ہیں تو ایسی مچھلی کے کھانے کا کیا حکم ہے ؟
جواب:۔ سمندر کا مردار تمام حلال ہے، چاہے وہ شکار کے بعد فطری موت مرے یا کسی سبب کی بنا پر مرے، لہذا کسی جگہ اگر کیمیکل چھوڑنے کی وجہ سے مچھلیاں مر جائیں تو وہ سب حلال ہیں جبکہ ان مچھلیوں کو کھانے کی بناء پر کسی قسم کے ضرر کا اندیشہ نہ ہو، ہاں اگر کسی بیماری وغیرہ کا اندیشہ ہو تو حرام ہیں۔
————
قال الامام النووي:
فيحل عندنا كل ميتات البحر… سواء ما مات بسبب و غيره (المجموع 9/30)
وقال ايضاً:
قد ذكرنا أن مذهبنا: إباحة ميتتات السمك سواء الذي مات بسبب (المجموع. 9/70)
قال وهبة الزحيلي:
مذهب الجمهور غير الحنفية، ورأيهم هو الاصح: حيوان الما: السمك و شبهه مما لا يعيش إلا في الما…. حلال… كيف مات ، حتف أنفه ،أو بسبب ظاهر…. لكن إنتفخ الطافي بحيث يخشي منه السقم يحرم للضرر (موسوعة الفقه الإسلامي 3/672)
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)