فقہ شافعی سوال نمبر – 0007
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0007
اگر کسی کو غسل کی حاجت ہوتو کیا اسے فورا غسل کرنا چاہیے یا تاخیر سے کرنے کی اجازت ہے شرعا اسکی کیا حیثیت ہے؟
جواب:۔ حضرت عضیف بن حارث فرماتے ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صديقه رضي الله عنها سے کہا کہ کیا آپ نے رسول الله صلي الله عليه وسلم کو جنابت کا غسل رات کے شروع حصے میں یا رات کے آخری حصے میں کرتے دیکھا حضرت عائشہ صديقه رضي الله عنہا نے فرمایا بسا اوقات آپ رات کے شروع میں غسل فرماتے اور کبھی رات کے آخری حصے میں غسل فرماتے تو میں نے کہا الله سب سے بڑا ہے تمام تعریفیں اس الله کے لیے ہے جس نے حکم میں وسعت کو رکھا ہے۔ (سنن ابوداود/226)
اس حدیث کے زریعے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ جنابت کے غسل کو تاخیر کرنے کی گنجائش ہے .البتہ بہتریہ ہے کہ جس قدر ممکن ہوسکے جلدی سے غسل کرکے پاک ہوجائے۔
امام ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه فرماتے ہے:
وفيه جواز تاخير الاغتسال عن اوّل وقت وجوبه۔ (فتح الباري:1/56)
علامہ عمرانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
ويجوز للجنب :ان ينام قبل ان يغتسل لما روي عن عائشة رضي الله عنها انها قالت:كان النبي صلى الله عليه وسلم ينام وهو جنب لا يمس ماء والمستحب له :ان يتوضأ ثم ينام۔ (البيان:1/356)
Fiqhe Shafi Question No/0007
If a person is in need of ghusl then should he perform ghusl immediately or is it permissible to perform it later, what does the shariah say with regard to this?
Ans; Hazrat Azeef bin Haaris narrated I asked Hazrat Aaisha R.A "Have you seen the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) having a gusl of janabah at the beginning of the night or at the end?” She replied, “Sometimes he would have a bath at the beginning of the night and sometimes at the end.” And so I said, “Allah is Most Great. All Praise be to Allah Who put ease in the matter…”