فقہ شافعی سوال نمبر – 0086
سوال نمبر/ 0086
اذان کے وقت مغربمیں جانا اور استنجاء کے وقت اذان کا جواب دینا درست ہے یا نھیں؟
جواب: حضرت مہاجر بن قنفذ فرماتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے درحال کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے تو حضرت مہاجر نے ان کو سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور پھر عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں ناپاک جگہوں پر اللہ کا ذکر کرنے کو ناپسند کرتا ہوں(سنن ابی داود 17)
مذکورہ حدیث سے فقہاء کرام نے مسئلہ اخذ کیا ہے کہ استنجاء کے وقت اذان کا جواب دینا مکروہ ہے
البتہ فقھاء نے اس بات کی صراحت کی ھے کہ جب وہ اپنی ضرورت سے فارغ ہو جاے تب اذان کا جواب دے. اب رھی بات بیت الخلاء میں جانے کی تو اگر استنجاء کا شدید تقاضہ نہ ہو تو بہتر ھے کہ رک جاے اور اذان کا جواب دے کر استنجاء کرے اس لئے کہ علماء نے اذان کے وقت قرآت قرآن و ذکر و درس وتدریس اور دنیوی امور کو ترک کر کے اذان کا جواب دینے کاحکم نقل کیا ھے.
ويُسْتَحَبُّ)) مُتابَعَتُهُ لِكُلِّ سامِعٍ مِن طاهِرٍ ومُحْدِثٍ وجُنُبٍ وحائِضٍ وكَبِيرٍ وصَغِيرٍ لِأنَّهُ ذِكْرٌ وكُلُّ هَؤُلاءِ مِن أهْلِ الذِّكْرِ ويُسْتَثْنى مِن هَذا المُصَلِّي ومَن هُوَ عَلى الخَلاءِ والجِماعِ فَإذا فَرَغَ مِن الخَلاءِ والجِماعِ تابَعَهُ صَرَّحَ بِهِ صاحِبُ الحاوِي وغَيْرُهُ فَإذا سَمِعَهُ وهُوَ فِي قِراءَةٍ أوْ ذِكْرٍ أوْ دَرْسِ عِلْمٍ أوْ نَحْوِ ذَلِكَ. المجموع (٣/١٢٥)
إذا سمع المؤذن وهو صفي قراءة أو ذكر لله قطع القراة والذكر وتابع المؤذن لأن الاذان يفوت.والقراءة والذكر لايفوتان. البيان (٢/٨٣)