فقہ شافعی سوال نمبر – 0087
سوال نمبر/ 0087
کسی نیک شخص کے ہاتھ اور پاؤں کے بوسہ لینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: أم ابان اپنے دادا سے روایت کرتی ہے کہ انهوں نے فرمایا : جب ہم مدینہ آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ لیتے (أبو داؤد 5225)
فقہاء کرام اور شارحین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ صالحین،صاحب علم اور نیک لوگوں نیز والدین کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ لینا جائز اورمشروع ہے.
جب کہ یہ عمل صرف دینی اعتبار سےان کےاحترام اورعقیدت کی وجہ سے ہو،اگراس سے بڑھ کران کومشکل کشا یاکسی اورغلط عقیدہ سے بوسہ لیا جاے تویہ عمل حرام ہے،
واضح رہے کہ کسی دنیاداراورمالدار کوان کی شان وشوکت کی وجہ سے چومناشرعانا پسند اورحرام ہے.
يُسْتَحَبُّ تَقْبِيلُ يَدِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ وَالزَّاهِدِ وَالْعَالِمِ وَنَحْوِهِمْ مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ وَأَمَّا تَقْبِيلُ يَدِهِ لِغِنَاهُ وَدُنْيَاهُ وَشَوْكَتِهِ وَوَجَاهَتِهِ عِنْدَ أَهْلِ الدُّنْيَا بِالدُّنْيَا وَنَحْوِ ذَلِكَ فَمَكْرُوهٌ شَدِيدُ الْكَرَاهَةِ وَقَالَ الْمُتَوَلِّي لَا يَجُوزُ فَأَشَارَ إلَى تَحْرِيمِهِ وَتَقْبِيلُ رَأْسِهِ وَرِجْلِهِ كَيَدِهِ. (١)
(وَتَقْبِيلُ الْيَدِ لِزُهْدٍ أَوْ صَلَاحٍ أَوْ) كِبَرِ (سِنٍّ) أَوْ نَحْوِهَا مِنْ الْأُمُورِ الدِّينِيَّةِ كَشَرَفٍ وَصِيَانَةٍ (مُسْتَحَبٌّ) اتِّبَاعًا لِلسَّلَفِ وَالْخَلَفِ (وَ) تَقْبِيلُهَا (لِدُنْيَا وَثَرْوَةٍ) وَنَحْوِهِمَا كَشَوْكَةٍ وَوَجَاهَةٍ عِنْدَ أَهْلِ الدُّنْيَا مَكْرُوهٌ (شَدِيدُ الْكَرَاهَةِ).(٢)
_____________(١) المجموع (٦٣٦/٤)
(٢)اسنى المطالب (١٨٦/٤)
*شرح رياض الصالحين للعثيمين(٤٥١/٤)