فقہ شافعی سوال نمبر – 0239
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0239
جو لوگ زمین کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں اور زمین اس نیت سے خرید کر رکھتے ہیں کہ مناسب قیمت ملنے پر اسے فروخت کروں گا تو ایسی زمین پر بھی زکواة واجب ہوگی؟
جواب:۔ *اگر کسی نے زمین تجارت کی نیت سے خرید کر رکھی ہے، اور اچھی قیمت آنے پر اسے فروخت کرنے والا ہے. اور اس زمین کی قیمت زکات نصاب کے بقدر ہے تو اب خریدنے کے بعد اس پر ایک سال گذر گیا تو پوری زمین کی موجودہ قیمت کا چالیسواں حصہ زکواۃ میں دینا واجب ہے. اگر خرید کر دو تین سال گذر چکے ہوں اور ان سالوں کی زکات نہ نکالی ہو تو پچھلے سالوں کی بھی زکات نکالنا ضروری ہے ۔*
*لو اشتري شقصًا للتجارة بعشرين دينارًا فحال عليه الحول وهو يساوي مائة دينار وجبت عليه زكاة مائة.* (بحرالمذهب١٦٢/٣) *ﺭاﺑﻌﺎ: اﻟﺤﻮﻝ ﻭاﻟﻨﺼﺎﺏ ﻓﻲ ﺃﻣﻮاﻝ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ﻭﻣﻘﺪاﺭ ﻣﺎ ﻳﺠﺐ ﻓﻴﻬﺎ: ﻋﺮﻓﺖ ﻓﻴﻤﺎ ﻣﻀﻰ ﺃﻥ ﺃﻣﻮاﻝ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ـ ﺃﻭ ﻋﺮﻭﺽ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ـ ﻫﻲ: ﺗﻠﻚ اﻟﺴﻠﻊ اﻟﺘﻲ ﺗﻘﻠﺐ ﺑﺎﻟﻤﻌﺎﻭﺿﺔ ﻟﻐﺮﺽ اﻟﺮﺑﺢ، ﺃﻳﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﻫﺬﻩ اﻟﺴﻠﻊ، ﻭﺗﺴﻤﻰ ﻋﺮﻭﺽ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ. ﻓﻜﻞ ﺳﻠﻌﺔ ﻳﺘﺎﺟﺮ ﻓﻴﻬﺎ اﻹﻧﺴﺎﻥ، ﺳﻮاء ﻛﺎﻧﺖ ﺃﺻﻼ ﻣﻦ اﻷﺻﻨﺎﻑ اﻟﺘﻲ ﺗﺰﻛﻰ: ﻛﺎﻟﺬﻫﺐ ﻭاﻟﻔﻀﺔ ﻭاﻟﺤﺒﻮﺏ ﻭاﻟﺜﻤﺎﺭ ﻭاﻟﻤﺎﺷﻴﺔ، ﺃﻡ ﻛﺎﻧﺖ ﻣﻦ ﻏﻴﺮﻫﺎ: ﻛﺎﻷﻗﻤﺸﺔ ﻭاﻟﻤﺼﻨﻮﻋﺎﺕ ﻭاﻷﺭﺽ ﻭاﻝﻋﻘﺎﺭاﺕ ﻭاﻷﺳﻬﻢ، ﻧﺠﺐ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻓﻴﻬﺎ۔* (الفقه المنهجي:2/43) (فتاوی علماء البلدالحرام:177) (الفقه الاسلامی وأدلته :2/864)