فقہ شافعی سوال نمبر – 0364
سوال نمبر/ 0364
حاملہ سے وطی کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت جدامہ بنت وہب الأسدية رض فرماتی ہیں کہ انهوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : میں نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو غیلہ سے منع کروں یہاں تک کہ مجهے اس بات کا علم ہوگیا کہ اہل روم اور فارس غیلہ کرتے ہیں لیکن ان کی اولاد کو کوئ نقصان لاحق نہیں ہوتا ہے (مسلم 3564)
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءً غیلہ سے منع کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جب کسی نقصان کو اس میں نہیں پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا اور علامہ ماوردی رح نے لفظ غیلہ کاایک مطلب حاملہ سے وطی کرنابیان کیا ہے لہذاحاملہ عورت سے وطی جائزہے.
البتہ فقہاء کرام نے یہ بات نقل کی ہے کہ اگر حاملہ عورت سے وطئ کرنے میں بچے کو کسی تکلیف کا اندیشہ نہ ہو تو جائز ہے لیکن اگر تکلیف کا اندیشہ ہو تو مکروہ ہے اور اگر غالب گمان ہوتو اس صورت میں وطئ کرنا حرام ہے. (نهاية المحتاج 6/209) (الحاوي الكبير11/199) (فتاوي اللجنة الدائمة18/247)
ونَهى عَنْهُ مَعَ قَوْلِهِ فِي الغِيلَةِ: «أرَدْتُ أنْ أنْهى عَنْها ثُمَّ عَرَفْتُ أنَّ الرُّومَ لا يَضُرُّهُمْ» يُرِيدُ فِي الحَمْلِ الحادِثِ مِنهُ فَدَلَّ ذَلِكَ مِن قَوْلِهِ ومِن إقْرارِهِ عَلى أنَّهُ لا يَتَنافى فِي اجْتِماعِ الحَيْضِ والحَمْلِ (الحاوي الكبير11/199)