فقہ شافعی سوال نمبر – 0613
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0613
بسا اوقات عین نماز کے وقت اس قدر شدید بارش شروع ہوجاتی ہے کہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا دشوار ہوجاتا ہے تو کیا ایسی صورت میں جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے ؟
جواب:۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے سخت ٹھنڈی اور ہوا کے وقت نماز کے لئے آذان دئی اور کہا کہ اپنے گھروں میں نماز اداء کرو ۔ پھر فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم موذن کو حکم دیا کرتے تھے کہ جب سخت ٹھنڈی یا ہوا چلے تو کہا کرو کہ آپنے گھروں میں نماز پڑھو۔
(بخاری:666) اس حدیث کی روشنی میں فقہاء فرماتے ہیں کہ دن یا رات میں ایسی سخت بارش ہو یا رات کی تاریکی میں تیز ہوا چل رہی ہو یا شدید کیچڑ ہو کہ جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنا دشوار ہو تو ان اعذار کی بناء پر جماعت کے چھوڑنے کی اجازت ہے۔ البتہ اگر سواری کا معقول نظم ہو جس سے بآسانی جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لئے پہنچنا ممکن ہو تو جماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔
(في حديث عمرو بن العاص) عبارة لما روي عنه أنه قال: احتلمت في ليلة باردة في غزوة ذات السلاسل فأشفقت أي خفت أن أغتسل فأهلك فتيممت وصليت بأصحابي الصبح فذكروا ذلك للنبي – صلى الله عليه وسلم – فقال: «يا عمرو صليت بأصحابك وأنت جنب فأخبرته الذي منعني من الاغتسال وقلت: إني سمعت الله يقول: {ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما} [ النساء: 29] فضحك -صلى الله عليه وسلم- ولم يقل شيئا» . اهـ قال حج، قوله – صلى الله عليه وسلم – لعمرو: صليت صريح في تقريره على إمامته ﻳﺠﻮﺯ ﺗﺮﻙ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻟﻠﻌﺬﺭ، ﺳﻮاء ﻗﻠﻨﺎ: ﺇﻥ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻓﺮﺽ ﻋﻠﻰ اﻟﻜﻔﺎﻳﺔ، ﺃﻭ ﺳﻨﺔ. ﻭاﻟﻌﺬﺭ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺿﺮﺑﺎﻥ: ﻋﺎﻡ، ﻭﺧﺎﺹ. ﻓﺄﻣﺎ اﻟﻌﺎﻡ: ﻓﻤﺜﻞ: اﻟﻤﻄﺮ، ﻭاﻟﺮﻳﺢ ﻓﻲ اﻟﻠﻴﻠﺔ اﻟﻤﻈﻠﻤﺔ (البيان 2/368) ﺃﻥ اﻟﻤﻄﺮ ﻭﺣﺪﻩ ﻋﺬﺭ ﺳﻮاء ﻛﺎﻥ ﻟﻴﻼ ﺃﻭ ﻧﻬﺎﺭا ﻭﻓﻲ الوﺣﻞ ﻭﺟﻬﺎﻥ (اﻟﺼﺤﻴﺢ) اﻟﺬﻱ ﻗﻄﻊ ﺑﻪ اﻟﻤﺼﻨﻒ ﻭاﻟﺠﻤﻬﻮﺭ ﺃﻧﻪ ﻋﺬﺭ ﻭﺣﺪﻩ ﺳﻮاء ﻛﺎﻥ ﺑﺎﻟﻠﻴﻞ ﺃﻭ اﻟﻨﻬﺎﺭ (المجموع4/204) ﻗﺎﻝ اﻟﻤﺼﻨﻒ رحمة الله عليه ﻭﺗﺴﻘﻂ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﺑﺎﻟﻌﺬﺭ ﻭﻫﻮ ﺃﺷﻴﺎء ﻣﻨﻬﺎ اﻟﻤﻄﺮ ﻭالوﺣﻞ ﻭاﻟﺮﻳﺢ اﻟﺸﺪﻳﺪﺓ ﻓﻲ اﻟﻠﻴﻠﺔ اﻟﻤﻈﻠﻤﺔ ﻭاﻟﺪﻟﻴﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﺎ ﺭﻭﻯ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﻗﺎﻝ ” ﻛﻨﺎ ﺇﺫا ﻛﻨﺎ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﺳﻔﺮ ﻭﻛﺎﻧﺖ ﻟﻴﻠﺔ ﻣﻈﻠﻤﺔ ﺃﻭ ﻣﻄﻴﺮﺓ ﻧﺎﺩﻯ ﻣﻨﺎﺩﻳﻪ اﻥ ﺻﻠﻮا ﻓﻲ ﺭﺣﺎﻟﻜﻢ۔ (المجموع 4/203)