فقہ شافعی سوال نمبر – 0852
فقہ شافعی سوال نمبر / 0852
*کیا عید کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے یا تنہا گھر پر پڑھ سکتے ہیں ؟*
*دراصل عید کی نماز سارے علاقہ والوں کا ایک جگہ جمع ہو کر پڑھنا مسنون ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اگر عید کی نماز مساجد یا عیدگاہ میں ادا کرنے پر حکومت کی طرف سے پابندی رہی تو اس صورت میں لوگوں کو چاہیے کہ موجودہ قانون کے مطابق بقیہ فرض نمازوں کی طرح گھروں میں چار پانچ افراد مل کر جماعت کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کریں، اگر گھر میں صرف دو لوگ ہوں یا صرف میاں بیوی ہو تب بھی عید کی نماز باجماعت ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ اور اگر امام خطبہ دے سکتا ہو تو نماز کے بعد دو خطبہ دینا سنت ہے۔ اگر کوئی عید کی نماز تنہا ادا کر رہا ہو تو اس وقت خطبہ دینامشروع نہیں ہے۔*
*امام بجیرمی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: قَوْلُهُ: سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ أَيْ فَيُكْرَهُ تَرْكُهَا …. وَتُسَنُّ جَمَاعَةً وَفُرَادَى، وَيُسْتَحَبُّ الِاجْتِمَاعُ لَهَا فی مکان واحد۔* (حاشیة البجیرمی علی شرح المنھج.423/1) *امام نووی رحمة الله علیه فرماتے ہیں: تُسَنُّ صَلَاةُ الْعِيدِ جَمَاعَةً وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ لِلْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ الْمَشْهُورَةِ فَلَوْ صَلَّاهَا الْمُنْفَرِدُ فَالْمَذْهَبُ صِحَّتُهَا .* (ألمجموع شرح المھذب:19/5) *قال الامام الدميري رحمة الله عليه: إذا قلنا: يصلي المنفرد ..لا يخطب على الأصح* (النجم الوھاج:2/537) *(ﻭﺳﻦ ﺧﻄﺒﺘﺎﻥ ﺑﻌﺪﻫﻤﺎ) ﺑﻘﻴﺪ ﺯﺩﺗﻪ ﺑﻘﻮﻟﻲ (ﻟﺠﻤﺎﻋﺔ) ﻻ ﻟﻤﻨﻔرد قال الإمام سليمان الجمل ﻗﻮﻟﻪ ﻟﺠﻤﺎﻋﺔ) ﺃﻱ ﻭﻟﻮ ﺻﻠﻮا ﻓﺮاﺩﻯ ﻷﻥ اﻟﻤﻘﺼﻮﺩ اﻟﻮﻋﻆ ﻭﺃﻗﻞ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ اﺛﻨﺎﻥ ﻛﻤﺎ ﻣﺮ ﻓﻠﻮ ﻛﺎﻥ اﺛﻨﺎﻥ ﻣﺠﺘﻤﻌﺎﻥ ﺳﻦ ﻷﺣﺪﻫﻤﺎ ﺃﻥ ﻳﺨﻄﺐ ﻭﺇﻥ ﺻﻠﻰ ﻛﻞ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﻣﻨﻔﺮﺩا اﻩـ. ..* (حاشية الجمل على شرح المنهج: فتوحات الوهاب بتوضيح شرح منهج الطلاب ٢/٩٦)