فقہ شافعی سوال نمبر – 0857
فقہ شافعی سوال نمبر / 0857
*استبراء کسے کہتے ہیں؟ اس کا طریقہ اور حکم کیا ہے؟*
*مرد کے عضو تناسل میں پیشاب کے بچے ہوئے قطروں سے مکمل طور پر پاکی حاصل کرنے کو استبراء کہتے ہیں اگر کسی شخص کو پیشاب کے بعد پوری طرح پیشاب کے قطرے نہ نکلنے کا یقین ہو تو ایسے شخص کے لیے استبراء کرنا واجب ہے ورنہ عام لوگوں کے لیے استبراء کرنا مندوب ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد بائیں ہاتھ کے انگھوٹے اور شہادت کی انگلی کو عضو تناسل کے نیچھے سے اوپر کی طرف پھیر دے جس سے بقیہ پیشاب باہر نکلے یا پیشاب کے بعد چند قدم چلنے سے یا پھر پیشاب کے بعد تھوڑا کھانسنے سے بھی پیشاب کے بقیہ قطرے نکلتے ہوں اور اطمینان حاصل ہوتا ہو تو اس پر عمل کرنے سے استبراء حاصل ہوگا۔*
*علامہ شربیني رحمة الله فرماتے ہیں۔ ﻭﻳﺴﺘﺒﺮﺉ ﻣﻦ اﻟﺒﻮﻝ ﻧﺪﺑﺎ ﻋﻨﺪ اﻧﻘﻄﺎﻋﻪ ﺑﻨﺤﻮ ﺗﻨﺤﻨﺢ ﻭﻣﺸﻲ، ﻭﺃﻛﺜﺮ ﻣﺎ ﻗﻴﻞ ﻓﻴﻪ: ﺳﺒﻌﻮﻥ ﺧﻄﻮﺓ ﻭﻧﺘﺮ ﺫﻛﺮ. ﻭﻛﻴﻔﻴﺔ اﻟﻨﺘﺮ ﺃﻥ ﻳﻤﺴﺢ ﺑﻴﺴﺮاﻩ ﻣﻦ ﺩﺑﺮﻩ ﺇﻟﻰ ﺭﺃﺱ ﺫﻛﺮﻩ، ﻭﻳﻨﺘﺮﻩ ﺑﻠﻄﻒ ﻟﻴﺨﺮﺝ ﻣﺎ ﺑﻘﻲ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ، ﻭﻳﻜﻮﻥ ﺫﻟﻚ ﺑﺎﻹﺑﻬﺎﻡ ﻭاﻟﻤﺴﺒﺤﺔ؛ ﻷﻧﻪ ﻳﺘﻤﻜﻦ ﺑﻬﻤﺎ ﻣﻦ اﻹﺣﺎﻃﺔ ﺑﺎﻟﺬﻛﺮ، ﻭﺗﻀﻊ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺃﻃﺮاﻑ ﺃﺻﺎﺑﻊ ﻳﺪﻫﺎ اﻟﻴﺴﺮﻯ ﻋﻠﻰ ﻋﺎﻧﺘﻬﺎ. ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﻤﺠﻤﻮﻉ: ﻭاﻟﻤﺨﺘﺎﺭ ﺃﻥ ﺫﻟﻚ ﻳﺨﺘﻠﻒ ﺑﺎﺧﺘﻼﻑ اﻟﻨﺎﺱ. ﻭاﻟﻘﺼﺪ ﺃﻥ ﻳﻈﻦ ﺃﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﺒﻖ ﺑﻤﺠﺮﻯ اﻟﺒﻮﻝ ﺷﻲء ﻳﺨﺎﻑ ﺧﺮﻭﺟﻪ، ﻓﻤﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﺤﺼﻞ ﻫﺬا ﺑﺄﺩﻧﻰ ﻋﺼﺮ، ﻭﻣﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺗﻜﺮﺭﻩ، ﻭﻣﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺗﻨﺤﻨﺢ، ﻭﻣﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻻ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺷﻲء ﻣﻦ ﻫﺬا. ﻭﻳﻨﺒﻐﻲ ﻟﻜﻞ ﺃﺣﺪ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻨﺘﻬﻲ ﺇﻟﻰ ﺣﺪ اﻟﻮﺳﻮﺳﺔ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻟﻢ ﻳﺠﺐ اﻻﺳﺘﺒﺮاء ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ ﺑﻪ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﻭاﻟﺒﻐﻮﻱ، ﻭﺟﺮﻯ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﻤﺼﻨﻒ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ ﻣﺴﻠﻢ ﻟﻘﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺗﻨﺰﻫﻮا ﻣﻦ اﻟﺒﻮﻝ ﻓﺈﻥ ﻋﺎﻣﺔ ﻋﺬاﺏ اﻟﻘﺒﺮ ﻣﻨﻪ ﻷﻥ اﻟﻈﺎﻫﺮ ﻣﻦ اﻧﻘﻄﺎﻉ اﻟﺒﻮﻝ ﻋﺪﻡ ﻋﻮﺩﻩ، ﻭﻳﺤﻤﻞ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﺇﺫا ﺗﺤﻘﻖ ﺃﻭ ﻏﻠﺐ ﻋﻠﻰ ﻇﻨﻪ ﺑﻤﻘﺘﻀﻰ ﻋﺎﺩﺗﻪ ﺃﻧﻪ ﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺴﺘﺒﺮﺉ ﺧﺮﺝ ﻣﻨﻪ ﺷﻲء۔* (مغني المحتاج:١/١٥٩) *وَ وُجُوبِهِ (الإستبراء) مَحْمُولٌ عَلَى مَا إذَا غَلَبَ عَلَى ظَنِّهِ خُرُوجُ شَيْءٍ مِنْهُ بَعْدَ الِاسْتِنْجَاءِ إنْ لَمْ يَفْعَلْهُ۔* (نهاية المحتاج:١ /١٤٢)