فقہ شافعی سوال نمبر – 0861
فقہ شافعی سوال نمبر / 0861
*بارش کے دنوں میں راستہ چلتے کیچڑ کپڑوں پر لگ جائے تو اسی کپڑوں پر نماز پڑھنے کا کیا مسئلہ ہے؟*
*بارش کے موسم میں راستوں پر جو کیچڑ یا جمع شدہ پانی بدن پر لگ جائے تو اگر کیچڑ یا جمع شدہ پانی میں نجاست ملنے کا یقین ہو تو وہ تھوڑا لگے تو معاف ہے اگر زیادہ لگ جائے تو معاف نہیں اور پاک پانی سے اس کا دھونا ضروری ہے زیادہ اور کم کی مقدار کا اعتبار عرف سے کیا جائے گا۔اور اگر نجاست کا یقین نہ ہو تو وہ پانی اور کیچڑ پاک ہے ۔ اس حالت میں نماز درست ہوگی۔*
(*ﻭﻃﻴﻦ اﻟﺸﺎﺭﻉ) ﻳﻌﻨﻲ ﻣﺤﻞ اﻟﻤﺮﻭﺭ ﻭﻟﻮ ﻏﻴﺮ ﺷﺎﺭﻉ ﻛﻤﺎ ﻫﻮ ﻇﺎﻫﺮ (اﻟﻤﺘﻴﻘﻦ ﻧﺠﺎﺳﺘﻪ) ﻭﻟﻮ ﺑﻤﻐﻠﻆ ﻣﺎ ﻟﻢ ﺗﺒﻖ ﻋﻴﻨﻪ ﻣﺘﻤﻴﺰﺓ ﻭﺇﻥ ﻋﻤﺖ اﻟﻄﺮﻳﻖ ﻋﻠﻰ اﻷﻭﺟﻪ ﺧﻼﻓﺎ ﻟﻠﺰﺭﻛﺸﻲ ﻟﻨﺪﺭﺓ ﺫﻟﻚ ﻓﻼ ﻳﻌﻢ اﻻﺑﺘﻼء ﺑﻪ ﻭﻓﺎﺭﻕ ﻣﺎ ﻣﺮ ﻧﺤﻮ ﻣﺎ ﻻ ﻳﺪﺭﻛﻪ ﻃﺮﻑ ﻭﻣﺎ ﻳﺄﺗﻲ ﻓﻲ ﺩﻡ اﻷﺟﻨﺒﻲ ﺑﺄﻥ ﻋﻤﻮﻡ اﻻﺑﺘﻼء ﺑﻪ ﻫﻨﺎ ﺃﻛﺜﺮ ﺑﻞ ﻳﺴﺘﺤﻴﻞ ﻋﺎﺩﺓ اﻟﺨﻠﻮ ﻫﻨﺎ ﻋﻨﻪ ﺑﺨﻼﻓﻪ ﻓﻲ ﺗﻠﻚ اﻟﺼﻮﺭ ﻭﻛﺎﻟﺘﻴﻘﻦ ﺇﺧﺒﺎﺭ ﻋﺪﻝ ﺭﻭاﻳﺔ ﺑﻪ (ﻳﻌﻔﻰ ﻋﻨﻪ) ﺃﻱ ﻓﻲ اﻟﺜﻮﺏ ﻭاﻟﺒﺪﻥ ﻭﺇﻥ اﻧﺘﺸﺮ ﺑﻌﺮﻕ ﺃﻭ ﻧﺤﻮﻩ ﻣﻤﺎ ﻳﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻴﻪ ﻧﻈﻴﺮ ﻣﺎ ﻳﺄﺗﻲ ﺩﻭﻥ اﻟﻤﻜﺎﻥ ﻛﻤﺎ ﻫﻮ ﻇﺎﻫﺮ ﺇﺫ ﻻ ﻳﻌﻢ اﻻﺑﺘﻼء ﺑﻪ ﻓﻴﻪ (ﻋﻤﺎ ﻳﺘﻌﺬﺭ اﻻﺣﺘﺮاﺯ ﻋﻨﻪ ﻏﺎﻟﺒﺎ) ﺑﺄﻥ ﻻ ﻳﻨﺴﺐ ﺻﺎﺣﺒﻪ ﻟﺴﻘﻄﺔ ﺃﻭ ﻗﻠﺔ ﺗﺤﻔﻆ ﻭﺇﻥ ﻛﺜﺮ ﻛﻤﺎ اﻗﺘﻀﺎﻩ ﻗﻮﻝ اﻟﺸﺮﺡ اﻟﺼﻐﻴﺮ ﻻ ﻳﺒﻌﺪ ﺃﻥ ﻳﻌﺪ اﻟﻠﻮﺙ ﻓﻲ ﺟﻤﻴﻊ ﺃﺳﻔﻞ اﻟﺨﻒ ﻭﺃﻃﺮاﻓﻪ ﻗﻠﻴﻼ ﺑﺨﻼﻑ ﻣﺜﻠﻪ ﻓﻲ اﻟﺜﻮﺏ ﻭاﻟﺒﺪﻥ اﻩـ. ﺃﻱ ﺃﻥ ﺯﻳﺎﺩﺓ اﻟﻤﺸﻘﺔ ﺗﻮﺟﺐ ﻋﺪ ﺫﻟﻚ ﻗﻠﻴﻼ ﻭﺇﻥ ﻛﺜﺮ ﻋﺮﻓﺎ ﻓﻤﺎ ﺯاﺩ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺎﺟﺔ ﻫﻨﺎ ﻫﻮ اﻟﻀﺎﺭ ﻭﻣﺎ ﻻ ﻓﻼ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻧﻈﺮ ﻟﻜﺜﺮﺓ ﻭﻻ ﻗﻠﺔ ﻭﺇﻻ ﻟﻌﻈﻤﺖ اﻟﻤﺸﻘﺔ ﺟﺪا ﻓﻤﻦ ﻋﺒﺮ ﺑﺎﻟﻘﻠﻴﻞ ﻛﺎﻟﺮﻭﺿﺔ ﺃﺭاﺩ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎﻩ (ﻭﻳﺨﺘﻠﻒ) ﺫﻟﻚ (ﺑﺎﻟﻮﻗﺖ ﻭﻣﻮﺿﻌﻪ ﻣﻦ اﻟﺜﻮﺏ ﻭاﻟﺒﺪﻥ) ﻓﻴﻌﻔﻰ ﻓﻲ ﺯﻣﻦ اﻟﺸﺘﺎء ﻭﻓﻲ اﻟﺬﻳﻞ ﻭاﻟﺮﺟﻞ ﻋﻤﺎ ﻻ ﻳﻌﻔﻰ ﻋﻨﻪ ﻓﻲ ﺯﻣﻦ اﻟﺼﻴﻒ ﻭﻓﻲ اﻟﻴﺪ ﻭاﻟﻜﻢ ﺳﻮاء ﻓﻲ ﺫﻟﻚ اﻷﻋﻤﻰ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻛﻤﺎ ﻳﺼﺮﺡ ﺑﻪ ﺇﻃﻼﻗﻬﻢ ﻧﻈﺮا ﻟﻤﺎ ﻣﻦ ﺷﺄﻧﻪ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺧﺼﻮﺹ ﺷﺨﺺ ﺑﻌﻴﻨﻪ ﻭﻣﻊ اﻟﻌﻔﻮ ﻋﻨﻪ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺗﻠﻮﻳﺚ ﻧﺤﻮ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺑﺸﻲء ﻣﻨﻪ ﻭﺧﺮﺝ ﺑﺎﻟﻤﺘﻴﻘﻦ ﻧﺠﺎﺳﺘﻪ۔* (تحفة المحتاج:١٣٠/٢) *ﺃﻣﺎ اﻟﺸﻮاﺭﻉ اﻟﺘﻲ ﻟﻢ ﻳﺘﻴﻘﻦ ﻧﺠﺎﺳﺘﻬﺎ ﻓﻤﺤﻜﻮﻡ ﺑﻄﻬﺎﺭﺗﻬﺎ ﻭﺇﻥ ﻇﻦ ﻧﺠﺎﺳﺘﻬﺎ ﻋﻤﻼ ﺑﺎﻷﺻﻞ.* (حاشیة الجمل: ٤٢٠/١)