فقہ شافعی سوال نمبر – 0894
فقہ شافعی سوال نمبر / 0894
*اگر کوئی پہلی رکعت میں بغیر توجیہ کے سورہ فاتحہ شروع کردے پھر فاتحہ ختم ہونے سے پہلے توجیہ پڑھے تو اس نمازکا کیا مسئلہ ہے؟*
*فرض اور نفل ہر نماز کے شروع میں سورہ فاتحہ شروع کرنے سے پہلے ہر ایک کے لیے توجیہ پڑھنا مستحب ہے۔ چاہے منفرد ہو یا امام لیکن شرط یہ ہے کہ ابھی سورہ فاتحہ شروع نہ کیا ہو اگر سورہ فاتحہ شروع کرچکا ہو تو توجیہ کی سنت فوت ہوجائے گی لھذا وہ توجیہ نہ پڑھے، چاہے بھول کر ہی توجیہ پڑھنا چھوڑ دیا ہو۔ یاد رہے اگر کوئی توجیہ پڑھے تب بھی نماز باطل نہیں ہوگی *
*قال الإمام النووي رحمة الله عليه: ثُمَّ يَقُولُ: (وَجَّهْتُ وَجْهِيَ. . .) إِلَى آخِرِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دُعَاءَ الِاسْتِفْتَاحِ عَمْدًا أَوْ سَهْوًا حَتَّى شَرَعَ فِي التَّعَوُّذِ لَمْ يَعُدْ إِلَيْهِ، وَلَا يَتَدَارَكْهُ فِي بَاقِي الرَّكَعَاتِ، وَلَوْ أَدْرَكَ مَسْبُوقٌ الْإِمَامَ فِي التَّشَهُّدِ الْأَخِيرِ وَكَبَّرَ وَقَعَدَ فَسَلَّمَ الْإِمَامُ لِأَوَّلِ قُعُودِهِ قَامَ، وَلَا يَأْتِي بِدُعَاءِ الِاسْتِفْتَاحِ لِفَوَاتِ مَحَلِّهِ.* (روضة الطالبين:٢٤٠/١) *قُلْتُ: ذَكَرَ الشَّيْخُ أَبُو حَامِدٍ فِي تَعْلِيقِهِ: أَنَّهُ إِذَا تَرَكَ دُعَاءَ الِاسْتِفْتَاحِ، وَتَعَوَّذَ، عَادَ إِلَيْهِ مِنَ التَّعَوُّذِ، وَالْمَعْرُوفُ فِي الْمَذْهَبِ: أَنَّهُ لَا يَأْتِي بِهِ كَمَا تَقَدَّمَ. لَكِنْ لَوْ خَالَفَ فَأَتَى بِهِ، لَمْ تَبْطُلْ صَلَاتُهُ؛ لِأَنَّهُ ذِكْرٌ…* (روضة الطالبين) *قال الإمام أصحاب الفقه المنهجي رحمة الله عليه: تستحب قراءة التوجه في افتتاح المفروضة والنافلة، للمنفرد وللإمام والمأموم، بشرط أن لا يبدأ بقراءة الفاتحة بعد، فإن بدأ بها- وقد علمت أن البسملة جزء منها- أو بالتعوذ، فاتت سنية قراءة التوجه، فلا ينبغي أن يعود إليه ولو كان ناسياً.* (الفقه المنهجي: 1/149)