فقہ شافعی سوال نمبر – 0913
فقہ شافعی سوال نمبر / 0913
*سیلاب یا حادثہ میں متعدد مرنے والوں میں مرد اور عورت کو ایک ساتھ دفن کرنے کا کیا حکم ہے؟*
مرد اور عورت کو ایک قبر میں ایک ساتھ جمع کرنا حرام ہے۔ البتہ کسی وبائی مرض یا حادثہ کی وجہ سے زیادہ میتیں ہوں اور الگ الگ دفن کرنے میں دشواری ہو تو ضرورت کی وجہ سے ایک ساتھ ایک قبر میں مرد اور عورت کو جمع کر سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان مٹی کے ذریعے سے اڑتے بنا دے جس میں مرد کو مقدم پھر بچے اور اخر میں عورت کو دفن کرینگے۔
علامہ ابو اسحاق شيرازي رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﻭﻻ ﻳﺪﻓﻦ ﻓﻲ ﻗﺒﺮ ﻭاﺣﺪ اﺛﻨﺎﻥ ﻷﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻢ ﻳﺪﻓﻦ ﻓﻲ ﻛﻞ ﻗﺒﺮ ﺇﻻ ﻭاﺣﺪا ﻓﺈﻥ ﺩﻋﺖ ﺇﻟﻰ ﺫﻟﻚ ﺿﺮﻭﺭﺓ ﺟﺎﺯ ﻷﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﺠﻤﻊ اﻻﺛﻨﻴﻦ ﻣﻦ ﻗﺘﻠﻰ ﺃﺣﺪ ﻓﻲ ﻗﺒﺮ ﻭاﺣﺪ ﺛﻢ ﻳﻘﻮﻝ ﺃﻳﻬﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﺃﺧﺬا ﻟﻠﻘﺮﺁﻥ ﻓﺈﺫا ﺃﺷﻴﺮ ﺇﻟﻰ ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ ﻗﺪﻣﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﻠﺤﺪ ﻭﺇﻥ ﺩﻋﺖ اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ ﻷﻥ ﻳﺪﻓﻦ ﻣﻊ اﻟﺮﺟﻞ اﻣﺮﺃﺓ ﺟﻌﻞ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﺣﺎﺋﻞ ﻣﻦ اﻟﺘﺮاﺏ ﻭﺟﻌﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﺃﻣﺎﻣﻬﺎ اﻋﺘﺒﺎﺭا ﺑﺤﺎﻝ اﻟﺤﻴﺎﺓ ﻭﻻ ﻳﺪﻓﻦ ﻛﺎﻓﺮ ﺑﻤﻘﺎﺑﺮ اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﻭﻻ ﻣﺴﻠﻢ ﻓﻲ ﻣﻘﺒﺮﺓ اﻟﻜﻔﺎﺭ.. (المهذب:٢٥٤/١)
علامہ عمرانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻗﺎﻝ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ ﻭﻻ ﺃﺣﺐ ﺃﻥ ﻳﺪﻓﻦ ﻓﻲ ﻗﺒﺮ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﻭاﺣﺪ؛ ﻷﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ -ﻛﺎﻥ ﻳﻔﻌﻞ ﻫﻜﺬا) . ﻓﺈﻥ ﺩﻋﺖ ﺇﻟﻰ ﺫﻟﻚ ﺿﺮﻭﺭﺓ، ﺑﺄﻥ ﻳﻜﺜﺮ اﻟﻤﻮﺗﻰ، ﺃﻭ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ اﻟﻨﺎﺱ ﺿﻌﻒ؛ ﻟﻘﻠﺔ اﻟﻐﺬاء ﻓﻲ اﻟﻘﺤﻂ، ﺃﻭ ﻣﺸﺘﻐﻠﻴﻦ ﻓﻲ اﻟﺤﺮﺏ … ﺟﺎﺯ ﺃﻥ ﻳﺪﻓﻦ اﻻﺛﻨﺎﻥ، ﻭاﻟﺜﻼﺛﺔ، ﻭﺃﻛﺜﺮ ﻓﻲ ﻗﺒﺮ، ﻭﻳﻘﺪﻡ ﺃﻛﺜﺮﻫﻢ ﻗﺮﺁﻧﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﺒﻠﺔ؛ ﻟﻤﺎ ﺭﻭﻱ: «ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﺃﻣﺮ ﻓﻲ ﻗﺘﻠﻰ ﺃﺣﺪ ﺃﻥ ﻳﺠﻌﻞ اﻻﺛﻨﺎﻥ ﻭاﻟﺜﻼﺛﺔ ﻓﻲ ﻗﺒﺮ، ﻗﺎﻟﻮا: ﻓﻤﻦ ﻧﻘﺪﻡ؟ ﻗﺎﻝ: "ﺃﻛﺜﺮﻫﻢ ﻗﺮﺁﻧﺎ ﻗﺎﻝ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠ(ﻭﻳﺠﻌﻞ ﺑﻴﻦ ﻛﻞ اﺛﻨﻴﻦ ﺣﺎﺟﺰ ﻣﻦ ﺗﺮاﺏ، ﻭﺇﻥ ﺩﻋﺖ ﺿﺮﻭﺭﺓ ﺃﻥ ﻳﺪﻓﻦ ﺭﺟﻞ ﻣﻊ اﻣﺮﺃﺓ ﻓﻲ ﻗﺒﺮ … ﺟﻌﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﻗﺪاﻣﻬﺎ، ﻭﺟﻌﻞ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﺣﺎﺟﺰ ﻣﻦ ﺗﺮاﺏ) . ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺭﺟﻼ ﻭﺻﺒﻴﺎ ﻭﺧﻨﺜﻰ ﻭاﻣﺮﺃﺓ … ﻗﺪﻡ اﻟﺮﺟﻞ، ﺛﻢ اﻟﺼﺒﻲ، ﺛﻢ اﻟﺨﻨﺜﻰ، ﺛﻢ اﻟﻤﺮﺃﺓ، اﻋﺘﺒﺎﺭا ﺑﺼﻒ اﻟﺼﻼﺓ. (البيان:٩٨/٣)
علامہ خطیب شربین رحمة الله عليه فرماتے ہیں: ﻭﻳﻘﺪﻡ اﻟﺮﺟﻞ ﻋﻠﻰ اﻟﺼﺒﻲ ﻭاﻟﺼﺒﻲ ﻋﻠﻰ اﻟﺨﻨﺜﻰ، ﻭاﻟﺨﻨﺜﻰ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺮﺃﺓ، ﻭﻻ ﻳﺠﻤﻊ ﺭﺟﻞ ﻭاﻣﺮﺃﺓ ﻓﻲ ﻗﺒﺮ ﺇﻻ ﻟﻀﺮﻭﺭﺓ ﻓﻴﺤﺮﻡ ﻋﻨﺪ ﻋﺪﻣﻬﺎ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﺤﻴﺎﺓ. ﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﺼﻼﺡ: ﻭﻣﺤﻠﻪ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﻣﺤﺮﻣﻴﺔ ﺃﻭ ﺯﻭﺟﻴﺔ ﻭﺇﻻ ﻓﻴﺠﻮﺯ اﻟﺠﻤﻊ. (مغني المحتاج:٤٠/٢)