فقہ شافعی سوال نمبر – 1261
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1261
استخارہ اور استشاره (مشورہ طلب کرنا) میں سے شرعا کونسا عمل افضل و بہتر ہے؟ نیز استخاره و الاستشارہ میں کونسا عمل مقدم اور کونسا مؤخر کرنا چاہیے؟
استخارہ و استشارہ دونوں ہی سنت عمل ہے اور قرآن و سنت میں دونوں کی ترغیب آئی ہے۔ ایک ہی معاملہ میں استخارہ کی نماز پڑھنا اور استشارہ یعنی مشورہ لینا دونوں جائز ہے اور ان میں سے کسی کو بھی مقدم مؤخر کرنا درست ہے، چاہے پہلے استخارہ کی نماز پڑھے پھر مشورہ کریں یا پہلے مشورہ کرکے بعد میں استخارہ کی نیت سے نماز پڑھے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ کسی اہم دینی یا دنیوی کام کے سلسلے میں پہلے نیک و مخلص اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کرے پھر استخارہ کی نیت سے نماز پڑھ کر اللہ سے رجوع کرے۔
قال الإمام النووي: اعلم أنه يستحبُّ لمن خطر بباله السفر أن يشاور فيه مَنْ يعلم من النصيحة والشفقة والخبرة، ويثق بدينه ومعرفته، قال الله تعالى: ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾ [آل عمران : ١٥٩] ودلائله كثيرة. وإذا شاور وظهر أنه مصلحة استخار الله لها الله في ذلك، فصلى ركعتين من غير الفرضية، ودعا بدعاء الاستخارة.
كتاب الأذكار للنووي: ١٥٠
قال الفيومي القاهري: ولتكن الاستشارة قبل الاستخارة فإذا شاور وظهر أنه مصلحة استخار الله تعالى في ذلك فصلى ركعتين من غير الفريضة ودعا بدعاء الاستخارة.
فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب للفيومي القاهري: ٤٩٣/٤