فقہ شافعی سوال نمبر – 1280
فقہ شافعی سوال نمبر / 1280
اگر کسی عورت کی بچہ دانی کسی وجہ سے دائمی طور پر نکالی گئی ہو اور ایسی عورت کو عادت کے مطابق متعینہ اوقات میں خون نظر آئے تو اس خون کا کیا حکم ہوگا؟
حیض کا خون پیدا ہونے اور نکلنے کی جگہ عورت کی بچہ دانی ہوتی ہے۔ جب عورت کی بچہ دانی نکال لی گئی ہو تو اب شرمگاہ سے نکلنے والا خون حیض کے حکم میں نہیں ہوگا بلکہ پیشاب کی طرح ناپاک خون مانا جائے گا اور اس خون کے نکلنے سے غسل بھی واجب نہیں ہوگا۔ البتہ وضو ٹوٹ جائے گا اور ایسی عورت نماز روزہ بھی نہیں چھوڑے گی بلکہ نماز کے اوقات میں بدن اور کپڑوں کی پاکی کا خیال رکھتے ہوئے صفائی کے بعد شرمگاہ پر پٹی یا کپڑا رکھ کر فورا نماز ادا کریگی ـ اگر خون مسلسل جاری ہو تو سلس البول یا مستحاضہ عورت کی طرح فرض نماز کا وقت داخل ہوجانے کے بعد ایک وضو سے ایک فرض اور کئی سنتیں ادا کرے گی
ﻗﺎﻝ اﻟﻤﺎﻭﺭﺩﻱ: اﻋﻠﻢ ﺃﻥ اﻟﺤﻴﺾ ﻫﻮ ﻣﺎ ﻳﺮﺧﻴﻪ اﻟﺮﺣﻢ ﻣﻦ اﻟﺪﻡ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻋﻠﻰ ﻭﺻﻒ
(الحاوي الكبير:١ / ٣٧٨)
ﻭاﻟﻔﺮﻕ ﺑﻴﻦ ﺩﻡ اﻟﺤﻴﺾ ﻭﺩﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ ﻣﻊ اﻓﺘﺮاﻗﻬﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﺼﻔﺔ: ﺃﻥ ﺩﻡ اﻟﺤﻴﺾ ﻳﺨﺮﺝ ﻣﻦ ﻗﻌﺮ اﻟﺮﺣﻢ ﻭﺩﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ ﻳﺴﻴﻞ ﻣﻦ اﻟﻌﺎﺩﻝ: ﻭﻫﻮ ﻋﺮﻕ ﻳﺴﻴﻞ ﺩمه ﻓﻲ ﺃﺩﻧﻰ اﻟﺮﺣﻢ ﺩﻭﻥ ﻗﻌﺮﻩ ﺣﻜﺎﻩ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻭﻗﺪ ﻗﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﻟﻔﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺣﺒﻴﺶ ﻓﻲ ﺩﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻋﺮﻕ.
(الحاوي الكبير:١ /٣٨٩ )
ﻭﺳﻠﺲ اﻟﺒﻮﻝ ﻭﺳﻠﺲ اﻟﻤﺬﻱ ﺣﻜﻤﻬﻤﺎ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺴﺘﺤﺎﺿﺔ ﻓﻴﻤﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎﻩ ﻭﻣﻦ ﺑﻪ ﻧﺎﺻﻮﺭ ﺃﻭ ﺟﺮﺡ ﻳﺠﺮﻱ ﻣﻨﻪ اﻟﺪﻡ ﺣﻜﻤﻬﻤﺎ ﺣﻜﻢ اﻟﻤﺴﺘﺤﺎﺿﺔ ﻓﻲ ﻏﺴﻞ اﻟﻨﺠﺎﺳﺔ ﻋﻨﺪ ﻛﻞ ﻓﺮﻳﻀﺔ ﻷﻧﻬﺎ ﻧﺠﺎﺳﺔ ﻣﺘﺼﻠﺔ ﻟﻌﻠﺔ ﻓﻬﻮ ﻛﺎﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ.
(المهذب: ١ / ٩١)
ﻭﻳﺠﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺴﺘﺤﺎﺿﺔ ﺃﻥ ﺗﻐﺴﻞ اﻟﺪﻡ ﻭﺗﻌﺼﺐ اﻟﻔﺮﺝ ﻭﺗﺴﺘﻮﺛﻖ ﺑﺎﻟﺸﺪ ﻭاﻟﺘﻠﺠﻢ ﻟﻤﺎ ﺭﻭﻱ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ ﻟﺤﻤﻨﺔ ﺑﻨﺖ ﺟﺤﺶ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ "ﺃﻧﻌﺖ ﻟﻚ اﻟﻜﺮﺳﻒ” ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﺇﻧﻪ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﻓﻘﺎﻝ: "ﺗﻠﺠﻤﻲ” ﻓﺈﻥ اﺳﺘﻮﺛﻘﺖ ﺛﻢ ﺧﺮﺝ اﻟﺪﻡ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺗﻔﺮﻳﻂ ﻓﻲ اﻟﺸﺪ ﻟﻢ ﺗﺒﻄﻞ ﺻﻼﺗﻬﺎ ﻟﻤﺎ ﺭﻭﺕ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ ﺃﻥ ﻓﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺣﺒﻴﺶ اﺳﺘﺤﻴﻀﺖ ﻓﻘﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: "ﺗﺪﻉ اﻟﺼﻼﺓ ﺃﻳﺎﻡ ﺃﻗﺮاﺋﻬﺎ ﺛﻢ ﺗﻐﺘﺴﻞ ﻭﺗﺘﻮﺿﺄ ﻟﻜﻞ ﺻﻼﺓ” ﻭﺗﺼﻠﻲ ﺣﺘﻰ ﻳﺠﻲء ﺫﻟﻚ اﻟﻮﻗﺖ ﻭﺇﻥ ﻗﻄﺮ اﻟﺪﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺼﻴﺮ ﻭﻻ ﺗﺼﻠﻲ ﺑﻄﻬﺎﺭﺓ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﻓﺮﻳﻀﺔ ﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﺎﻃﻤﺔ ﺑﻨﺖ ﺃﺑﻲ ﺣﺒﻴﺶ ﻭﻳﺠﻮﺯ ﺃﻥ ﺗﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﺷﺎءﺕ ﻣﻦ اﻟﻨﻮاﻓﻞ ﻷﻥ اﻟﻨﻮاﻓﻞ ﺗﻜﺜﺮ ﻓﻠﻮ ﺃﻟﺰﻣﻨﺎﻫﺎ ﺃﻥ ﺗﺘﻮﺿﺄ ﻟﻜﻞ ﻧﺎﻓﻠﺔ ﺷﻖ ﻋﻠﻴﻬﺎ
(المهذب:١/ ٩٠)
ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻨﺎﺩﺭ ﻓﻬﻮ:ﻛﺎﻟﺤﺼﻰ ﻭاﻟﺪﻭﺩ، ﻭﺳﻠﺲ اﻟﺒﻮﻝ، ﻭﺩﻡ اﻻﺳﺘﺤﺎﺿﺔ، ﻭﻫﻮ ﻳﻨﻘﺾ اﻟﻮﺿﻮء ﻋﻨﺪﻧﺎ
(البيان: ١ / ١٧٢)