درس حدیث نمبر 0635
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
فقہ شافعی سوال نمبر / 1107
کسی ناجائز کام کے پورے ہونے پر اگر کوئی نذر مانے تو کیا اس کام کے پورا ہونے پر نذر کا پورا کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
شریعت میں کسی بھی ناجائز یا غیر شرعی کام کے ہونے یا نہ ہونے پر نذر ماننے کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ جس طرح وہ کام ناجائز ہے اسی طرح اس کام میں کسی بھی طرح کا تعاون کرنے کی نذر ماننا اور اس نذر کا پورا کرنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔
علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولَوْ نَذَرَ فِعْلَ مُباحٍ أوْ تَرْكَهُ) كَأكْلٍ ونَوْمِ مِن كُلِّ ما اسْتَوى فِعْلُهُ وتَرْكُهُ أيْ: فِي الأصْلِ وإنْ رَجَّحَ أحَدَهُما بِنِيَّةِ عِبادَةٍ بِهِ كالأكْلِ لِلتَّقَوِّي عَلى الطّاعَةِ (لَمْ يَلْزَمْهُ) لِخَبَرِ أبِي داوُد الخ (تحفة المحتاج : ١٠/٨١)
علامہ خطیب شربینی رح فرماتے ہیں: ولا يَصِحُّ نَذْرُ مَعْصِيَةٍ)… لِحَدِيثِ( عمران بن حصين)اھ (مغني المحتاج :٦/٢٣٥)
لِأنَّ نَذْرَ المَعْصِيَةِ لَيْسَ بِنَذْرٍ شَرْعًا اهـ شَيْخُنا (حاشية الجمل: ٣٢٣/٥)
عجالة المحتاج : ٤/١٧٩٠ نهاية المحتاج : ٨/٢٢٤
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (سلطانی مسجد)
فقہ شافعی سوال نمبر / 1106
پیٹ کے کینسر (cancer) کی بیماری میں مرنے والا شخص شھید کے حکم میں ہوگا اور اس کی تجہیز و تکفین کا کیا مسئلہ ہے؟
حدیث مبارک میں پیٹ کی بیماری سے مرنے والے کو شہید کہا گیا ہے،لہذاکوئی پیٹ کے کینسر کی بیماری سے انتقال کر جائے تو وہ شہید کہلائے گا، البتہ اسے عام میت کی طرح غسل، کفن، نماز و دفن کا عمل کیا جائے گا –
الشُّهَداءُ كَما قالَ فِي المَجْمُوعِ ثَلاثَةٌ. الأوَّلُ: شَهِيدٌ فِي حُكْمِ الدُّنْيا بِمَعْنى أنَّهُ لا يُغَسَّلُ ولا يُصَلّى عَلَيْهِ، وفِي حُكْمِ الآخِرَةِ بِمَعْنى أنَّ لَهُ ثَوابًا خاصًّا، وهُوَ مَن قُتِلَ فِي قِتالِ الكُفّارِ بِسَبَبِهِ، وقَدْ قاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ العُلْيا، وسُمِّيَ بِذَلِكَ لِمَعانٍ: مِنها أنَّ اللَّهَ سُبْحانَهُ ورَسُولَهُ شَهِدا لَهُ بِالجَنَّةِ، ومِنها أنَّهُ يُبْعَثُ ولَهُ شاهِدٌ بِقَتْلِهِ وهُوَ دَمُهُ؛ لِأنَّهُ يُبْعَثُ وجُرْحُهُ يَتَفَجَّرُ دَمًا، ومِنها أنَّ مَلائِكَةَ الرَّحْمَةِ يَشْهَدُونَهُ فَيَقْبِضُونَ رُوحَهُ. والثّانِي: شَهِيدٌ فِي حُكْمِ الدُّنْيا فَقَطْ، وهُوَ مَن قُتِلَ فِي قِتالِ الكُفّارِ بِسَبَبِهِ، وقَدْ غَلَّ مِن الغَنِيمَةِ، أوْ قُتِلَ مُدْبِرًا، أوْ قاتَلَ رِياءً أوْ نَحْوَهُ. والثّالِثُ: شَهِيدٌ فِي حُكْمِ الآخِرَةِ فَقَطْ كالمَقْتُول ظُلْمًا مِن غَيْرِ قِتالٍ، والمَبْطُونِ إذا ماتَ بِالبَطْنِ، والمَطْعُونِ إذا ماتَ بِالطّاعُونِ، والغَرِيقِ إذا ماتَ بِالغَرَقِ، والغَرِيبِ إذا ماتَ فِي الغُرْبَةِ، وطالِبِ العِلْمِ إذا ماتَ عَلى طَلَبِهِ، أوْ ماتَ عِشْقًا أوْ بِالطَّلْقِ أوْ بِدارِ الحَرْبِ أوْ نَحْوِ ذَلِكَ (مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج ٢/٣٥ الخطيب الشربيني (ت ٩٧٧)
النجم الوهاج :٣/٧١ حاشية البجيرمي: ٢٨٠/٢ الغرر البهية : ٢/١٠١
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
فقہ شافعی سوال نمبر / 1105
اگر کوئی شخص صف میں کھڑے ہو کر باتیں کرے اور جب امام رکوع میں چلا جائے تو اس کے ساتھ رکوع چلا جائے تو کیا اس صورت میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے رکعت شمار ہوگی جیسا کہ عام طور پر تراویح میں کیا جاتا ہے؟
صف میں کھڑے ہوکر باتیں نہیں کرنا چاہیے بلکہ امام جو جس حال میں پائے اس کی اقتداء کرناچاہیے، لیکن اگر کوئی شخص صف میں حاضر ہو کر باتیں کرتا رہے اور جب امام رکوع میں چلا جائے تو اس کے ساتھ رکوع کرلے تو اس صورت میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے بھی رکعت شمار ہوگی اور نماز بھی ہوجائے گی
قال الامام الترمسي: من أدرك الإمام راكعا … قبل ارتفاعه عن أقل الركوع أدرك الركعة …. اي ما فاته من قيامها وقراءتها وان قصر بتأخير تحرمه لا لعذر حتى ركع (حاشية الترمسي :٣\٨٥٢)
تحفة المحتاج مع حواشي الشرواني وابن القاسم عبادي ٣\٢٠٣ نهاية المحتاج :٢\٢٤٢
مولانا صادق اكرمی صاحب ندوی (تنظیم مسجد)
فضيلة الشيخ عبد الباري بن عواض الثبيتي
فضيلة الشيخ عبد الرحمن بن عبدالعزيز السديس