درس قرآن نمبر 1167
سورة الحجر– آيت نمبر 22-23-24-25-26-27 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
سورة الحجر– آيت نمبر 22-23-24-25-26-27 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ
عنوان : روزے کے اہم مسائل
فضيلة الشيخ عبدالله بن عبدالرحمن البعيجان
فضيلة الشيخ ياسر بن راشد الدوسري
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سوال :نمبر/ 0329
عورتوں کے لئے گھروں میں فرض نمازکے لئے یاتراویح کے جماعت بنانادرست ہے یا نہیں؟
جواب: حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ رض سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھرآکران کی زیارت کرتے تھے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ایک مؤذن مقررکیا تھاجواذان دیتا تھااورآپ نے ام ورقہ رض کوحکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھروالوں کی امامت کرے (سنن ابی داؤد:592)
حضرت رائطہ الحنفیہ رض فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ رض نے ہماری امامت فرمائی اورفرض نماز کی جماعت میں عورتوں کے درمیان کھڑی رہی (سنن بیہقی:5355)
حضرت حجیرہ رض فرماتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ رض نے عصرکی نماز میں ہماری امامت فرمائی اورہمارے درمیان کھڑی رہی (سنن بیہقی:5357)
ان احادیث کی روشنی میں عورتوں کے لیے گھرمیں جماعت بنانا درست اورجائز ہے.البتہ عورتوں کے حق جماعت بنانا مردوں کی طرح مستحب اورمؤکد نہیں ہے.
واضح رہے کہ عورتوں کی جماعت میں امام عورت کوپہلی صف کے درمیان کھڑا رہنا مستحب ہے اس طور پرکہ وہ معمولی مقدار میں اس طورپر آگے رہے کہ مقتدیوں سے ممتاز بھی ہوسکے اور صف سے مکمل طور پر خارج بھی نہ ہو .
نیز جہری نماز میں قرات بھی مردوں کی طرح جہرا نہیں پڑھے گی بلکہ دھیمی آواز میں قرات کرے گی تاکہ کسی اجنبی مرد کے کان میں اس کی آواز نہ پہنچے
أمّا الأُنْثى والخُنْثى فَيَجْهَرانِ حَيْثُ لا يَسْمَعُ أجْنَبِيٌّ، ويَكُونُ جَهْرُهُما دُونَ جَهْرِ الذَّكَرِ، فَإنْ كانَ يَسْمَعُهُما أجْنَبِيٌّ أسَرّا، فَإنْ جَهَرا لَمْ تَبْطُلْ صلاتهما.(١)
(وتَقِفُ إمامَتُهُنَّ) نَدْبًا (وسْطَهُنَّ) بِسُكُونِ السِّينِ لِثُبُوتِ ذَلِكَ عَنْ فِعْلِ عائِشَةَ وأُمِّ سَلَمَةَ – رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْهُما -. رَواهُ البَيْهَقِيُّ بِإسْنادٍ صَحِيحٍ.
أمّا إذا أمَّهُنَّ غَيْرُ المَرْأةِ مِن رَجُلٍ أوْ خُنْثى فَإنَّهُ يَتَقَدَّمُ عَلَيْهِنَّ. (٢)
🔰🔰 المراجع 🔰🔰
١ – مغني المحتاج 1/277
٢ – مغنی المحتاج 1/425
مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ
عنوان : روزے کے اہم مسائل
فقہ شافعی سوال نمبر/ 0608
دوکان کے فرنیچر اور سامان لانے کے لئے متعین شدہ گاڑیوں پر کیا زکوة واجب ہے؟
جواب:۔ دوکان کے فرنیچر اور سامان لانے کے لئے متعین شدہ گاڑیوں پر زکوة واجب نہیں ہے۔
لا يدخل في الأمور التجارية التي يجب تقويمها الأثاث وما في معناه والأجهزة الموجودة في المحل لقصد الاستعانة بها لا لقصد بيعها فلا زكاة عليهما مهما بلغت قيمتها۔ (الفقه المنهجى ۱/٣٠٤)
فضيلة الشيخ احمد بن طالب حميد
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)