جواب:حضرت ابو بکرة رض روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبهی کوئی خوشی کا معاملہ پیش آتا یا بشارت دی جاتی تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے (سنن ابی داؤد 2774)
حضرت عبداللہ ابن ابی أوفی رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے أبو جهل کے سر کاٹے جانے کی خوشخبری سن کر دو رکعت نماز پڑهی (سنن ابن ماجہ 1391)
مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کے موقع پر دورکعت نماز پڑھی ہے اور سجدہ شکر بهی کیا ہے، انہیں روایتوں کی بناء پر فقہاء کرام نے یہ مسئلہ تحریر فرمایا ہے کہ کسی نعمت کے حصول پر دورکعت نماز پڑهنا مسنون ہے،اسی طرح سجدہ شکربھی مسنون ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ سجدہ شکرکے ساتھ دورکعت سنت نماز کی نیت سے اداکرے .
جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربك الأعلى اور دوسری رکعت میں قل يا أيها الكافرون اور تيسری رکعت میں قل هو الله أحد اور قل أعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑهتے تهے (ترمذی 463)
اس حدیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی وتر صرف ایک رکعت پڑھے تو اس ایک رکعت میں سورہ اخلاص سوره فلق سورة الناس پڑھے اور اگر تین رکعت پڑھ رہا ہے تو پہلی رکعت میں سورہ اعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سوره اخلاص سوره فلق اور سوره ناس پڑھے…
وضو کے بعد آسمان کی طرف انگلی اٹھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حضرت انس بن مالک رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس نے وضو کیا اورأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين پڑھا تواس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازہ کھول دیے جاتے ہیں کہ وہ جس سے چاہے داخل ہوجاے (السنن الصغير للبيهقي:109)
فقہاء کرام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ وضو کے بعد حدیث میں مذکور دعا پڑھنامستحب ہے.نیز احادیث میں موجود دیگردعاووں کا پڑھنا بھی مستحب ہے،اور فقہاء نے دعا کے لئے دونوں ہاتھوں کے اٹھانے کا تذکرہ کیا ہے
وَيُسَنُّ أَنْ يَأْتِيَ بِجَمِيعِ هَذَا ثَلَاثًا كَمَا مَرَّ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ بِصَدْرِهِ رَافِعًا يَدَيْهِ وَبَصَرَهُ (تحفة المحتاج 1/ 84 )
لیکن اس دعا کے پڑھتے وقت شہادت کی انگل ی آسمان کی طرف اٹھانے سے منع کیا ہے اس لئے کی اس کی کوئی دلیل نہیں ہے. اس لئے آسمان کی طرف انگلی اٹھانے سے بچنا چا ہیے.
مُتَوَجِّهَ الْقِبْلَةِ أَيْ بِصَدْرِهِ رَافِعًا يَدَيْهِ وَبَصَرَهُ إلَى السَّمَاءِ وَلَوْ نَحْوَ أَعْمَى كَهَيْئَةِ الدَّاعِي حَتَّى عِنْدَ قَوْلِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَلَا يُقِيمُ سَبَّابَتَيْهِ أَوْ إحْدَاهُمَا كَمَا يَفْعَلُهُ جَهَلَةُ الطَّلَبَةِ مِنْ مُجَاوِرِي الْجَامِعِ الْأَزْهَرِحاشیۃ (الجمل:1/ 214 )
کیا مذی یا ودی کے نکلنے سے غسل فرض ہوتا ہے یا وضو کافی ہے؟ اور کپڑے وجسم پرلگ جاے تودھوناضروری ہے؟
جواب: حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں ایسا شخص ہوں جسے بار بار مذی آتی رہتی ہے، تو میں ٹھنڈی میں بھی غسل کرتا ہوں حتی کہ میری پیٹھ سفید پڑ گئی ہے، تو میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو اس طرح نہ کر، جب تم مذی کو دیکھو تو اپنی ذکر کو دھو لو اور وضو کرو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو ، اور جب پانی ظاہر ہوجائے تو غسل کرو‘‘ یعنی اگر منی نکلے تو غسل کرو۔ (سنن ابی داؤد؍204)
حضرت علیؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مذی کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’مذی نکلے تو وضو کرو، اور منی نکلے تو غسل کرو‘‘ (سنن ترمذی؍114)
فقہاءکرام نے ان احادیث کی روشنی میں فقہاء نے مذی ودی (پیشاب کے پہلے یابعد نکلنے والاچکنامادہ ) کو نجس قرار دیا ہے،اورمذی یا ودی کے نکلنے سے وضو ٹوٹنے کا حکم لگایا ہے،لہذا مذی ودی کے نکلنے پروضوفرض ہوجاتا ہے غسل کی ضرورت نہیں ،نیزکپڑے پر مذی یا ودی لگنے سے کپڑا نجس ہوجاتا ہے، لہذا اس کو دھو لینا چاہئے.
ولا يجب الغسل من المذي ـ وهو: ماء أصفر رقيق، يخرج بأدنى شهوة من غير دفق، وهو مخفف، يقال: أمذى الرجل يمذي ـ ويجب منه الوضوء، وغسل الموضع الذي يصيبه لا غير.(البیان:1/419)
اگر کسی کپڑے پر منی لگ جائے اور اسی کپڑے پر نماز ادا کرے تو کیا اس کی نماز ہوجائے گی؟
جواب :حضرت اسود رض فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو کھرچا کرتی تهیں پهر اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑهتے تهے (سنن بیهقی 4166)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء شوافع نے منی کوپاک قرار دیا ہے ،لہذااگر کسی شخص نے منی لگے ہوئے کپڑے پر نماز ادا کی تو اس کی نماز درست ہوگی۔
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
وأما مني الأدمي فطاهر على الأظهر.(١)
کیا کتے کی نجاست سے پاکی کے لیے مٹی کے قائم مقام کوئی اور چیز ہوسکتی ہے؟
جواب: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جب کتا برتن میں منہ ڈالے تو اسے سات مرتبہ دهو اور ساتویں مرتبہ میں مرتبہ مٹی استعمال کرو (أبو داؤد 90 )
اس حدیث سے فقہاء کرام نے استدلال کیا ہے کہ کتے کی نجاست کودورکرنے کے لئے سات مرتبہ پانی سے اورسات مرتبہ میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا ضروری ہےاور اظہر قول کے مطابق کتے کی نجاست سے پاکی کے لیے مٹی کا استعمال کرنا ضروری ہے.مٹی کے علاوہ کوئی چیز کافی نہ ہوگی،البتہ مٹی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں بعض فقہاء نے مٹی کے قائم مقام مثلا صابون وغیرہ کے استعمال کی گنجائش دی ہے. (البیان 1/432)
قال الإمام العمراني رحمه الله:
إذا ولغ الكلب في إناء فيه مائعٌ، أو ماءٌ دون القلتين، أو أدخل فيه منه عضوًا، أو وقع فيه شيءٌ من دمه، أو بوله، أو ذرقه.. وجب غسله سبع مرات، إحداهنَ بالتراب …(١)
قال الإمام الإسنوي رحمه الله:
هل يقوم الصابون والأشنان مقام التراب؟
فيه ثلاثة أقوال:
أظهرها: لا، لظاهر الخبر؛ ولأنها طهارة متعلقة بالتراب فلا يقوم غيره مقامه كالتيمم.
والثاني: نعم.
والثالث: إن وجد التراب لم يعدل إلى غيره، وإلا عدل للضرورة، وقيل: يجوز فيما يفسده التراب كالثياب دون الأواني(٢)
جواب:حضرت ابوسعید خذری رض سے روایت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوشخص ایک دوسرے کے سامنے ستر کھول کراورباتیں کرتے ہوے قضاء حاجت نہ کریں ،اس لئے کہ اللہ تعالی اس برے عمل پرغضبناک ہوتے ہیں (سنن ابی داود:15)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے کھلی جگہ میں بغیر کسی آڑ کے قضاء حاجت کرنااوراس دوران باتیں کرنے کی کراہت وممانعت نقل کی ہے،لہذا بیت الخلاء میں باتیں کرنا مکروہ ہے،اوراس سے احتیاط ضروری ہے، البتہ اشد ضرورت ہو تو بات کرنے کی گنجائش ہے- (مغنی المحتاج78/1)
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
ولايتكلم حال قضاء الحاجة بذكر او غيره…اي يكره له ذلك إلا لضرورة (١)
_____________
(١) المغني المحتاج (٧٣/١)
اگر پیشاب کئے ہوئے بچے کو نہلاتے وقت کپڑے پر پانی کے چھینٹے اڑ جائیں تو کیا اس کپڑے پر نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ ہجرت کرتے ہوئے نکلے، تو آپ ﷺ نے پانی منگایا، پھر آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا، تو صحابہ آپ ﷺ کے بقیہ پانی لے کر اپنے اوپر ملنے لگے (البخاری/187)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ میری عیادت کے لئے تشریف لائے اس حال میں کہ میں بے ہوش تھا، تو آپ ﷺ نے پانی منگایا اور وضو کیا، اس کے بعد پانی مجھ پر چھڑکا تو مجھے ہوش آیا۔ (بخاری/5477)
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جوپانی فرض وضو یا فرض غسل میں استعمال ہویانجاست کودورکرنے میں استعمال ہونے کے بعد اس پانی میں نجاست کااثرنہ ہو تووہ پانی پاک ہے.البتہ اس سے مزید طہارت حاصل کرنادرست نہیں ہے. لہذاپیشاب کئے ہوے بچہ کونہلاتے وقت پانی کے چھینٹے اڑجائیں تواس کی وجہ سے بدن وکپڑا نجس نہیں ہوگا اور کپڑے پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔جب کہ ان چھینٹوں میں نجاست کااثر نہ ہو (المجموع 217/1)
امام کے کسی سہوپرمقتدی کے حق میں سبحان ا للہ کے ذریعہ لقمہ دینے کا کیا حکم ہے نیز اس کی کیفیت کیا ہے؟
جواب: حضرت سہل ابن سعد الساعدی رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ نے ایک مرتبہ آپنی قوم سے فرمایا: جب تمہیں نماز میں کوئ سہو پیش آئے تو مردوں کو چائے کہ تسبیح کہیں اور عورتیں اپنی داہنی ہتیلی کوبائیں ہاتھ کی ہتیلی پرمارے (بخاری7190)
اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ مرد مقتدی کے لئے امام کوکسی سہوپرمتنبہ کرنے کے لیے سبحان اللہ کہنامستحب ہے ،اورعورت مقتدی کے لئے داہنی ہتیلی کے اندونی حصہ کوبائیں ہاتھ کی ہتیلی کی پشت پرمارناسنت ہے.البتہ یہ ملحوظ رہے کہ سبحان اللہ کہتے وقت ذکرکی نیت ہو یا ذکر کے ساتھ امام کومتنبہ کرنے کی نیت ہو،اگرصرف متنبہ کرنے کی نیت ہوتومقتدی کی نماز باطل ہوجاے گی. (مغنی المحتاج 1/339)
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
ويَسُنُّ لِمَن نابَهُ شَيْءٌ) فِي صَلاتِهِ (كَتَنْبِيهِ إمامِهِ) لِنَحْوِ سَهْوٍ (وإذْنِهِ لِداخِلٍ) اسْتَأْذَنَ فِي الدُّخُولِ عَلَيْهِ (وإنْذارِهِ أعْمى) مَخافَةَ أنْ يَقَعَ فِي مَحْذُورٍ أوْ نَحْوِ ذَلِكَ كَغافِلٍ وغَيْرِ مُمَيِّزٍ، ومَن قَصَدَهُ ظالِمٌ أوْ نَحْوُ سَبُعٍ (أنْ يُسَبِّحَ وتُصَفِّقَ المَرْأةُ) ومِثْلُها الخُنْثى (بِضَرْبِ) بَطْنِ (اليَمِينِ عَلى ظَهْرِ اليَسارِ) أوْ عَكْسِهِ أوْ بِضَرْبِ ظَهْرِ اليَمِينِ عَلى بَطْنِ اليَسارِ أوْ عَكْسِهِ،…وقد تقدم أنه لا بد أن يقصد بذلك الذكر مع التفهيم فإن قصد التفهيم فقط بطلت صلاته(١)
جواب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جسے احتلام کا یاد نہیں تھا لیکن کپڑے پر کچھ تری تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ غسل کرے.اور دوسرے ایک شخص جسے احتلام کا یاد تھا لیکن بطور علامت کپڑے پر گیلاپن نہیں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر غسل ضروری نہیں۔ (سنن ابو داود :236)
اس حدیث سے فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ شک کی وجہ سے غسل واجب نہ ہوگا جب تک کہ غسل کے وجوب کا یقین نہ ہوجائے مثلا…احتلام کی وجہ سے کپڑے پر منی کے آثار ہوں، سوکر اٹھنے کے بعد کپڑوں پر کچھ نشانات پائے گئے اور وہ نشانات یقینی طور پر منی کے ہی ہیں تو اس پر غسل واجب ہوگا. اگر وہ نشانات ودی یا مذی دونوں میں سے ایک کے ہونے کا یقین یا اِحتمال ہو تو غسل واجب نہیں۔
اگر یقین ہے کہ منی یا وذی بھی نہیں ہیں توغسل واجب نہ ہوگا.( رواه البخاري 282 المغني 1/269)
قال الإمام الخطيب الشربيني رحمه الله:
فَإنْ احْتَمَلَ كَوْنَ الخارِجِ مَنِيًّا أوْ غَيْرَهُ كَوَدْيٍ أوْ مَذْيٍ تُخَيِّرَ بَيْنَهُما عَلى المُعْتَمَدِ، فَإنْ جَعَلَهُ مَنِيًّا اغْتَسَلَ أوْ غَيْرَهُ تَوَضَّأ وغَسَلَ ما أصابَهُ؛ لِأنَّهُ إذا أتى بِمُقْتَضى أحَدِهِما بَرِئَ مِنهُ يَقِينًا، والأصْلُ بَراءَتُهُ مِن الآخَرِ، ولا مُعارِضَ لَهُ،
مغني المحتاج(١٢٣/١)
Question No/100
Can fardh ghusl be taken on the basis of doubt?
Ans; Hazrat Aisha R.A narrated that the messenger of Allah(sallallahu alaihi wasallam) was asked about a person who found wetness on his cloths or body but did not remember the sexual dream..He replied;He should take a bath(ghusl)..He was asked about a person who remembered that he had a sexual dream but did not find wetness on his clothes or body.. He replied: Bath(ghusl) is not necessary for him.. (Al bukhari 282)
Fuqaha based thier opinion from this hadees that ghusl does not become compulsory(wajib)on the basis of doubt unless the compulsion of ghusl is assured..
for example; If there is some indications of semen(mani) on clothes due to ehtilam or if one sees traces on clothes after waking up from sleep and the traces are surely to be semen only then the bath will be compulsory on him..If one is assured that those traces are either wadi or pre seminal fluid(mazi) then bath will not be compulsory on him..
If he is sure that those traces are neither semen(mani) nor wadi then bath will not be compulsory on him…