بدھ _11 _اگست _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0991
اجنبی شخص کا تھوڑا سا خون اگر کسی دوسرے شخص کو لگ جائے اور وہ شخص دو قلے سے کم پانی میں خون لگا ہوا ہاتھ ڈال دے تو کیا وہ پانی بھی ناپاک ہوجائے گا؟
اگر کسی اجنبی شخص کا تھوڑا سا خون ہاتھ یا کپڑے وغیرہ پر لگ جائے جسے عرف عام تھوڑا سمجھا جاتا ہو تو وہ معاف ہے۔ لیکن اگر وہی تھوڑا خون لگا ہوا ہاتھ دو قلے سے کم پانی میں ڈال دے تو وہ پانی ناپاک ہوجائے گا۔
ينجس الماء ولا ينجس الثوب؛ لأن الثوب أخف حكمًا في النجاسة، بدليل أنه يعفى عن قليل الدم والقيح فيه، بخلاف الماء۔ (البيان في مذهب الإمام الشافعي:۱/٣٢)
يعفى عنه في الثوب دون الماء؛ [لأن] الثوب أحسن حالاً من الماء؛ فإنه يعفى عن دم البراغيث ونحوه فيه، ولا كذلك الماء۔ (كفاية النبيه في شرح التنبيه :۲/٥٢٩)
والأظهر العفو عن قليل دم الأجنبي والله أعلم والقيح والصديد كالدم۔ (منهاج الطالبين وعمدة المفتين في الفقه/٣٢)
منگل _17 _اگست _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0992
اگر کوئی شخص کسی گاڑی پر ڈرائیور ہو تو اس گاڑی کے نقصان کا ضمان اس ڈرائیور پر آئے گا یا اس کا ضامن مالک ہی ہوگا؟
کوئی شخص کسی گاڑی پر ڈرائیونگ کا کام کرتا ہو تو اس گاڑی کے نقصان کا ذمہ دار اس کا ڈرائیور اس وقت ضامن نہیں ہوگا جب یہ نقصان ڈرائیور کی کوتاہی سے نہ ہوا ہو، چونکہ ڈرائیور کا گاڑی پر قبضہ صرف امانت کے طور پر ہوتا ہے اس لیے ڈرائیور ضامن نہیں ہوگا ہاں اگر ڈرائیور کی کوتاہی شامل ہو تو پھر ڈرائیور نقصان کا ضامن بنے گا
(ولا ضمان على الأجير) في تلف ما بيده لأنه أمين على العين المكتراة لأنه لا يمكن استيفاء حقه الا بوضع اليد ع۔۔۔۔ كالوديع فلو اكترى دابة ولم ينتفع بها فتلفت أو اكتراه لخياطة ثوب أو صبغة فتلف لم يضمن سواء انفرد الأجير باليد أم لا۔۔۔۔۔ الا بعدوان۔۔۔ فيصير ضامنا لها لتعديه. (الأقناع مع البجيرمي:١٨١/٣)
وتبقى العين المستاجرة غير مضمونة في يد المستاجرة ما دام لم يتعد في استعمالها أو يقصر في حفظها. (الفقه المنهجي:١٣٦/٣)
جمعرات _2 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0993
*کھانے پینے کے بعد پانی کے ہوتے ہوئے ٹیشو پیپر سے ہاتھ صاف کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟*
*کھانے پینے کے بعد اگر منہ یا ہاتھ پر چکنائی وغیرہ لگے تو اسے پانی سے دھوئے یا پھر ایسی چیز سے ہاتھ صاف کیا جائے جس سے چکنائی وغیرہ دور ہوجائے اگر ٹیشو سے ہاتھ صاف ہوجاتا ہو تو اس کا استعمال کرنا درست ہے ہاں اگر پانی کے بغیر صاف ہونا ممکن نہ ہو تو پانی کا استعمال کرنا ضروری ہے۔*
*أنَّهُ لا كَراهَةَ فِي عَدَمِ غَسْلِ اليَدِ مِنَ الطَّعامِ لَكِنْ بِشَرْطِ أنْ يُزالَ ما فِيها مِن أثَرِهِ بِالمَسْحِ.* (مرقاة المفاتيح:٣٦٨/١)
*قالَ عِياضٌ مَحِلُّهُ فِيما لَمْ يَحْتَجْ فِيهِ إلى الغَسْلِ مِمّا لَيْسَ فِيهِ غَمْرٌ ولُزُوجَةٌ مِمّا لا يُذْهِبُهُ إلّا الغَسْلُ لِما جاءَ فِي الحَدِيثِ مِنَ التَّرْغِيبِ فِي غَسْلِهِ والحَذَرِ مِن تَرْكِهِ* (فتح الباري:٥٧٩/٩)
*قال الإمام النووي رحمة الله عليه: ويستحب مسح اليد بالمنديل بعد فراغ الطعام* (فتاوى الامام النووي :١٦٥)
*قال الإمام الهرري رحمة الله عليه:وفيه جواز مسح اليد بعد الطعام وهذا والله أعلم فيما يكفي فيه المسح * (الکوکب الوھاج شرح صحیح مسلم:21/180)
ہفتہ _28 _اگست _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0994
قسم کے کفارہ میں سے کوئی چیز کسی غیر مسلم کو دینے کا کیا مسئلہ ہے؟
جمہور فقہاء کے نزدیک قسم کے کفارہ میں سے کوئی بھی چیز کسی غیر مسلم کو دینا درست نہیں ہے
الصفات المعتبرة فيمن يعطي من الإطعام والكسوة … الإسلام جمهور الفقهاء و منهم مالك والشافعي وأحمد وأبو يوسف من أصحاب أبي حنيفة على اعتبار الإسلام شرطًا في المعطي فلا يجوز دفعها لكافر. (الشرح الكبير:٢٦٦/١٢)
كفر باطعام ستين مسكينا أو فقيرًا لاكافرا۔ (النجم الوهاج: ٨٠/٨)
ہفتہ _28 _اگست _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0995
ایسی انگوٹھی جس میں اصلی ہیرا لگا ہو تو کیا مردوں کو استعمال کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
انگوٹھی جس میں اصلی ہیرا لگا ہو تو مردوں کے لیے اس انگوٹھی کا استعمال جائز ہے اسلیے کہ مردوں کے لیے ہیرے اور جواہر کے استعمال کے سلسلے میں کوئی ممانعت نہیں ملتی۔
يجوز استعمال الأواني المتخذة من المعادن النفيسة من نحو الماس واللؤلؤ والمرجان وغيرها، لعدم ورود نص بالنهي عنها، والأصل الإباحة ما لم يرد دليل التحريم (الفقه المنهجي :١/٤١)
علامہ دمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قال: والنفيس كياقوت في الأظهر؛ لأنه لا يعرفه إلا الخواص، ولم يرد فيه نهي، ولا يظهر فيه معنى السرف والخيلاء، لكنه مكروه.قال الشافعي : إنما أكره لبس الياقوت والزبد جد من جهة السرف، فلو اتخذ لخاتمه فصًا منها .. جاز قطعًا (النجم الوهاج :١/٢٥٨)
علامہ شربینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ يَحِلُّ (النَّفِيسُ) بِالذّاتِ مِن غَيْرِ النَّقْدَيْنِ أيْ: اسْتِعْمالُهُ واِتِّخاذُهُ (كَياقُوتٍ) وفَيْرُوزَجَ، وبِلَّوْرٍ بِكَسْرِ الباءِ وفَتْحِ اللّامِ، و مِرْجانٍ، وعَقِيقٍ، والمُتَّخَذِ مِن الطِّيبِ المُرْتَفِعِ كَمِسْكٍ وعَنْبَرٍ وعُودٍ (فِي الأظْهَرِ)؛ لِأنَّهُ لَمْ يَرِدْ فِيهِ نَهْيٌ ولا يَظْهَرُ فِيهِ مَعْنى السَّرَفِ والخُيَلاءِ لَكِنَّهُ يُكْرَه۔ (مغني المحتاج :١/٥٣)
جمعرات _2 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0996
*اگر کسی شخص کو جمعہ کے دن نماز سے پہلے غسل لینے کا موقع نہ ملے تو کیا ایسا شخص نماز جمعہ کے بعد غسل کرنے سے جمعہ کا سنت غسل ادا ہوگا یا نہیں؟*
*اگر کسی شخص کو جمعہ کی نماز سے پہلے غسل کرنے کا موقع نہ ملے اور وہ جمعہ کی نماز کے بعد غسل کرے تو جمعہ کا سنت غسل حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ جمعہ کا غسل نماز جمعہ کے لیے ہے نہ کہ جمعہ کے دن کے لیے۔*
*علامہ ترمسي رحمة الله عليه فرماتے ہیں: (يسن الغسل لحاضرها) أي: مريد حضورها وإن لم تجب عليه؛لأن الغسل للصلاة لا لليوم۔* (حاشية الترمسي:٤/ ٢٩۱) مغني المحتاج:١/ ٤٩٦ بداية المحتاج:١/ ٣٨٧ الدیباج شرح المنهاج:١/ ٤٠٤
جمعرات _2 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0997
*اگر کوئی نماز میں تکبیر زیادہ کہے تو کیا سجدہ سہو کرنا ضروری ہے؟ اگر کسی نے سجدہ سہو کردیا تو کیا مسئلہ ہے؟*
*اگرکوئی نماز میں زائد تکبیر کہے تو سجدہ سہو کرنا ضروری نہیں مثلاً تیسری رکعت میں کھڑے ہونے کی بجائے بیٹھ جائے پھر زائد تکبیر کہتے ہوئے کھڑے ہوجائے تو اب نماز کے آخر میں سہو نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ تکبیر نماز کی سنتوں میں سے ہیں اگرچہ زائد تکبیر بھول کر کہے یا عمدا اسی طرح اگر کوئی شخص نہ جاننے کی وجہ سے سجدۂ سہو کرے تو نماز باطل نہیں ہو گی۔*
*قال الإمام النووي (ر): مِن السُّنَنِ كالتَّعَوُّذِ ودُعاءِ الِافْتِتاحِ ورَفْعِ اليَدَيْنِ والتَّكْبِيراتِ والتَّسْبِيحاتِ…… وسائِرِ الهَيْئاتِ المَسْنُوناتِ غَيْرِ الأبْعاضِ فَلا يَسْجُدُ لَها سَواءٌ تَرَكَها عَمْدًا أوْ سَهْوًا لِأنَّهُ لَمْ يُنْقَلُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ السجود لشئ مِنها والسُّجُودُ زِيادَةٌ فِي الصَّلاةِ.* المجموع شرح المهذب ٤/١٢٥
*قال الخطيب الشربيني(ر): لَوْ فَعَلَ ما لا يَقْتَضِي سُجُودَ سَهْوٍ فَظَنَّ أنَّهُ يَقْتَضِيهِ وسَجَدَ لَمْ تَبْطُلْ إنّ كانَ جاهِلًا لِقُرْبِ عَهْدِهِ بِالإسْلامِ أوْ لِبُعْدِهِ عَنْ العُلَماءِ.* (مغني المحتاج إلى معرفة: معاني ألفاظ المنهاج ١/٤١٧) تحفة المحتاج في شرح:٢/١٥٠ حاشية البجيرمي على الخطيب:٢/٥٦ فتح العزيز بشرح الوجيز ٤/١٣٩
منگل _7 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0998
میت کے ناخن نکالنے کا کیا حکم ہے؟
میت کے ناخن نکالنا مکروہ ہے چونکہ انتقال کے بعد میت کے کسی اجزاء کو جسم سے الگ کرنا بے حرمتی ہے۔
علامہ شیخ زکریا انصاری رحمة الله عليه فرماتے ہیں: فَصْلٌ ويُكْرَهُ التَّقْلِيمُ) لِأظْفارِ المَيِّتِ غَيْرِ المُحْرِمِ (وإزالَةُ شَعْرِ المَيِّتِ) المَذْكُورِ. (اسنی المطالب:٢٤/٢)
علامه إمام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: القديم لا يفعل كمال لا يختن …. فقال جماعة : القديم هنا أصح، و هو المختار فلم ينقل عن النبي صلى الله عليه وسلم والصحابة فيه شيء معتمد واجزاء الميت محترم فلا تنتهك بهذا
(روضة الطالبين:٦٢١/١)
منگل _7 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 0999
پولیس محکمہ اگر لائسنس نہ ہونے کی بنیاد پر جرمانہ طلب کرے تو اسمیں سودی رقم صرف کرنا کیساہے آیا شرعًا جائز ہے یا نہیں؟
لائسنس کا رکھنا ایک ضروری قانون ہے اور اس کے متعدد فوائد ہیں اس لیے لائسنس کے بغیر گاڑی چلانا صحیح نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ پولیس اگر جرمانہ لگائے تو اس کے لیے سودی رقم دینا شرعا جائز نہیں ہے کیونکہ سودی رقم کو اپنے کسی ذاتی کام (فائدے) کے لیے استعمال کرنا حرام ہے۔
قال الإمام النووي رحمة الله عليه : الغَزالِيُّ إذا كانَ مَعَهُ مالٌ حَرامٌ وأرادَ التَّوْبَةَ والبَراءَةَ مِنهُ فَإنْ كانَ لَهُ مالِكٌ مُعَيَّنٌ وجَبَ صَرْفُهُ إلَيْهِ أوْ إلى وكِيلِهِ فَإنْ كانَ مَيِّتًا وجَبَ دَفْعُهُ إلى وارِثِهِ وإنْ كانَ لِمالِكٍ لا يَعْرِفُهُ ويَئِسَ مِن مَعْرِفَتِهِ فَيَنْبَغِي أنْ يَصْرِفَهُ فِي مَصالِحِ المُسْلِمِينَ العامَّةِ كالقَناطِرِ والرُّبُطِ والمَساجِدِ ومَصالِحِ طَرِيقِ مَكَّةَ ونَحْوِ ذَلِكَ مِمّا يَشْتَرِكُ المُسْلِمُونَ فِيهِ وإلّا فَيَتَصَدَّقُ بِهِ عَلى فَقِيرٍ أوْ فُقَراءَ (المجموع (٣٣٢/٩)
قال العلامة الوهبة الزحيلي رحمه الله: ولا يحل للورثة أيضًا أخذ الميراث من كسب حرام، وعليهم رد ما أخذوه على أربابه إن عرفوهم، وإلا تصدقوا به؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق به إذا تعذر الرد على صاحبه. (الفقه الإسلامى وأدلته:٥٨٠/٣)
جمعہ _10 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1000
اگر کوئی غسل سے پہلے وضو کرئے اور غسل کرتے وقت شرمگاہ کو ہاتھ لگ جائے تو کیا اس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے یا اسے دوبارہ وضو کرنا ہوگا؟
اگر دوران غسل کسی کا ہاتھ شرم گاہ کو بلا کسی حائل (کپڑے) کے ہاتھ لگ جائے چاہے ہاتھ صابن لگاتے وقت ہو یا کپڑے پہنتے وقت، یا ہوا خارج ہوجائے تو اس سے غسل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ وضو ٹوٹ جائے گا اور اسے دوبارہ مکمل وضو کرنا ضروری ہے۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں: لو أحدث المغتسل في أثناء عـله لم يؤثر ذلك في غسله بل يتمه ويجزيه ، فإن أراد الصلاة لزمه الموضوء، نص على هذا كله الشافعي في الأم والأصحاب ولا خلاف فيه عندنا ، وحكاء ابن المنذر عن عطاء وعمرو بن دينار وسفيان الثوري واختاره ابن المنذر ، وعن الحسن البصري أنه يستأنف الغسل، دليلنا أن الحدث لا يبطل الغسل بعد فراغه فلا يبطله في أثنائه كالأكل والشراب (المجموع شرح المهذب ٣/١٤٩.) ★تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج| ج۱ص١٥٢. ★فقه العبادات على المذهب الشافعي| ج١ص١٤٢. ★روضة الطالبين للنووي| ج١ص٧٥. ★مغني المحتاج للشربيني| ج١ص٣٥.