بدھ _22 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1001
قریبی رشتہ داروں کے انتظار میں میت کی تدفین میں تاخیر کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
انتقال کے بعد میت کی تدفین میں تاخیر کرنا مناسب نہی ہاں اگر میت میں کسی قسم کے تبدیلی کا اندیشہ ہو تو کسی کے انتظار کے بغیر جلد سے جلد تدفین کرنا مستحب ہے۔ کسی بھی قریبی رشتہ داروں کے انتظار میں بہت دیر تک میت کی تدفین کو روکے رکھنا درست نہیں۔
قال الإمام النووي رحمه الله: ﻗﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ (ﺃﺳﺮﻋﻮا ﺑﺎﻟﺠﻨﺎﺯﺓ) ﻓﻴﻪ اﻷﻣﺮ ﺑﺎﻹﺳﺮاﻉ ﻟﻠﺤﻜﻤﺔ اﻟﺘﻲ ﺫﻛﺮﻫﺎ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﻳﺴﺘﺤﺐ اﻹﺳﺮاﻉ ﺑﺎﻟﻤﺸﻲ ﺑﻬﺎ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻨﺘﻪ ﺇﻟﻰ ﺣﺪ ﻳﺨﺎﻑ اﻧﻔﺠﺎﺭﻫﺎ ﻭﻧﺤﻮﻩ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﺑﺸﺮﻁ ﺃﻥ ﻻ ﻳﺨﺎﻑ ﻣﻦ ﺷﺪﺗﻪ اﻧﻔﺠﺎﺭﻫﺎ ﺃﻭ ﻧﺤﻮﻩ (شرح مسلم:١٣/٧)
قال الإمام النووي رحمه الله: قالَ الشّافِعِيُّ ولا أُحِبُّ لِأحَدٍ مِن أهل الجنازة الا بطاء في شئ مِن حالاتِها مِن غُسْلٍ ووُقُوفٍ عِنْدَ القَبْرِ واَللَّهُ أعْلَمُ (المجموع: ٢٣٠/٥)
پیر _27 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1002
میت کو گھر میں لٹانے کا کیا طریقہ ہے؟
میت کو قبلہ کی جانب رخ کرکے دائیں کروٹ پر لٹایا جائے گا ہاں اگر جگہ تنگ ہو یا میت کو ایسا لٹانا دشوار ہو تو اس صورت میں میت کو ایسا چٹ لٹایا جائے گا کہ میت کے پیر کے تلوے اور چہرہ قبلہ کی طرف ہو اور میت کے سر کے نیچے کپڑا یا تکیہ رکھ کر سر کو ذرہ اٹھایا جائے تاکہ چہرہ قبلہ کی طرف ہو۔ اسی طرح ہر اس انسان کو ایسے ہی لٹایا جائے گا جس کی موت قریب ہو یعنی انسان حالت نزع میں ہو
قال الإمام إبن ملقن رحمة الله عليه: ويُضْجَعُ المُحْتَضَرُ لِجَنْبِهِ الًايْمَنِ إلى القِبْلَةِ عَلى الصَّحِيحِ كالموضوع في اللحد فَإنْ تَعَذَّرَ لِضِيقِ مَكان ونَحْوِهِ أُلْقِيَ عَلى قَفاهُ ووَجْهُهُ وأُخْمُصاهُ لِلْقِبْلَةِ…. يرفع رأسه قليلا ليصير وجهه الى القبلة (عمدة المحتاج: ١٢٨/٤-١٢٩)
قال الإمام الزركشي رحمة الله عليه : آداب المحتضر الذي حضرته الوفاة… يضطجع على جنبه الأيمن مستقبل القبلة على الصحيح قال في المجموع: وعليه العمل …. فَإنْ تَعَذَّرَ ذلك لِضِيقِ مَكان ونَحْوِهِ أُلْقِيَ عَلى قَفاهُ بحيث يكون وَجْهُهُ وأُخْمُصاهُ لِلْقِبْلَةِ كالموضوع عل المغتسل (الديباج في توضيح المنهاج: ٢١٨/١)
جمعرات _30 _ستمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1003
غسل کفن کے بعد میت کسی اونچی جگہ پر یا تخت پر یا اسی طرح کسی گاڑی (ایمبولینس) میں رکھی ہوئی ہو اور گاڑی (ایمبولینس) کا دروازہ کھول کر امام دروازہ کے بالکل سامنے کھڑے ہو کرنماز پڑھائے اس طور پر کہ میت بالکل سامنے ہو اور نظر آ رہی ہو تو اس کا کیا مسئلہ ہے؟
میت اگر کسی اونچی جگہ یا تخت پر رکھی ہوئی ہو تو اسی پر رکھ کر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے اسی طرح اگر میت ایمبولنس کے اندر ہو اور دروازہ کھلاہو نیزقبلہ رخ ہو تو ایمبولنس پر رکھی ہوئی میت کی نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔
قال الامام النووي رحمة الله عليه: الزورق المشدود على الساحل، تنزيلًا له منزلة السرير، والماء منزلة الأرض، وتحركه تسفلًا وتصعدًا كتحرك السرير ونحوه على وجه الأرض فلا يمنع صحة الفريضة… (روضة… 1/210)
قال الامام زكريا الانصاري رحمة الله عليه: فَلَوْ صَلّاها فِي هَوْدَجٍ عَلى دابَّةٍ واقِفَةٍ أوْ سَرِيرٍ يَحْمِلُهُ رِجالٌ) وإنْ مَشَوْا بِهِ (أوْ فِي الأُرْجُوحَةِ أوْ الزَّوْرَقِ الجارِي صَحَّتْ) …. (اسني المطالب: 1/136)
قال الامام الرافعي رحمة الله عليه: وبِخِلاَفِ الزَّوْرَقِ المَشْدُودِ عَلى السّاحِلِ؛ لِأنَّهُ كالسَّريرِ والماءُ كالأرْضِ… (العزيز: 1/429)
بدھ _6 _اکتوبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1004
اگر کوئی شخص فرض نماز تنہاء پڑھ رہا ہو اور اسی جگہ کچھ لوگ آکر جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوجائیں تو کیا تنہا نماز پڑھنے والا شخص اپنی نماز چھوڑ کر ان کے ساتھ جماعت میں شامل ہوجائے گا یا اپنی نماز تنہا ہی مکمل کرے گا؟
تنہا فرض نماز پڑھتے وقت اگر دوسرے لوگ آکر الگ سے جماعت بنا کر نماز کے لیے کھڑے ہوجائیں تو تنہا نماز پڑھنے والے شخص کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنی دو رکعت کے بعد سلام پھیرے یا پھر اپنی نماز کو توڑ دے اور اس جماعت میں شریک ہوکر اپنی نماز مکمل کرے۔
قال الإمام النووی رحمة الله عليه: أصْحابُنا إذا دَخَلَ فِي فَرْضِ الوَقْتِ مُنْفَرِدًا ثُمَّ أرادَ الدُّخُولَ فِي جَماعَةٍ اُسْتُحِبَّ أنْ يُتِمَّها رَكْعَتَيْنِ ويُسَلِّمَ مِنها فَتَكُونَ نافِلَةً ثُمَّ يَدْخُلَ فِي الجَماعَةِ فَإنْ لَمْ يَفْعَلْ اُسْتُحِبَّ أنْ يَقْطَعَها ثُمَّ يَسْتَأْنِفَها فِي الجَماعَةِ (المجموع: ١٨٠/٤)
منگل _12 _اکتوبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1005
کرایہ پر لی ہوئی گاڑی خراب ہوجائے تو اس کی اصلاح و درستگی کا ذمہ دار کون ہوگا؟
کرایہ پر لی ہوئی چیزپر کرایہ دار کا قبضہ بطور امانت کے ہوگا اس اعتبار سےاگر وہ چیز کرایہ دار کی طرف سے بغیر کوتاہی کے تلف ہوجائے یا کوئی عیب پایا جائے تو کرایہ دار پر اس تاوان نہیں ہوگا خواہ یہ نقصان گاڑی چلانے کے دوران پیش آئے یا اس سے قبل بلکہ اس کی بھرپائی یا اس کی اصلاح ودرستگی گاڑی کے مالک کے ذمہ ہوگی اور اگر کرایہ پر لینے والے کی کوتاہی سے خر اب ہوگی تو لینے والے کے ذمہ ہوگی
ويد المكتري على الدابة والثوب يدُ أمانة مدةَ الإجارة) فيصدق في التلف، ولا يضمن ما تلف منها بلا تعد ولا تقصير بالإجماع، لأنه مستحق المنفعة (بداية المحتاج في شرح المنهاج:٢/٤١٤)
ويَدُ المُكْتَرِي عَلى) المُسْتَأْجَرِ مِن (الدّابَّةِ والثَّوْبِ) وغَيْرِهِما (يَدُ أمانَةٍ مُدَّةَ الإجارَةِ) جَزْمًا، فَلا يَضْمَنُ ما تَلِفَ فِيها بِلا تَقْصِيرٍ، إذْ لا يُمْكِنُ اسْتِيفاءُ حَقِّهِ، إلّا بِوَضْعِ اليَدِ عَلَيْها، وعَلَيْهِ دَفْعُ مُتْلَفاتِها كالمُودَعِ.تَنْبِيهٌ لَوْ قالَ: عَلى المُسْتَأْجَرِ كَما قَدَّرْتُهُ بَدَلَ عَلى الدّابَّةِ والثَّوْبِ، لَكانَ أخَصْرَ وأشْمَلَ،(وكَذا بَعْدَها) إذالَمْ يَسْتَعْمِلْها (فِي الأصَحِّ (مغني المحتاج:٣/٤٧٦)
تحفة المحتاج في شرح المنهاج٦/١٧٩ العزيز شرح الوجيز المعروف۔ ٦/١٤٥ عجالة المحتاج إلى توجيه المنهاج ٢/٩٣٩
بدھ _13 _اکتوبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1006
کرایہ پر لی ہوئی گاڑی پر اگر پولیس جرمانہ لگائے جبکہ سواری میں جگہ کے بقدر مسافرین کی متعینہ تعداد سے زیادہ لوگ سوار ہوں تو پھر اس جرمانہ کا ضامن کون ہوگا؟
کرایہ پر لی ہوئی گاڑی اگر غیر قانونی طریقہ پر چلائے اور پولیس جرمانہ عائد کرے تو اس کا ذمہ دار بھی کرایہ پر لینے والا شخص ہی ہوگا
أيّ ضرر يصيب العين المستأجرة بسبب سوء الاستعمال، كما لو استأجر سيارة للركوب وأسرع بها في السير في الأماكن المزدحمة أو الطرقات الوعرة، فنتج عن ذلك ضرر لها.وكذلك إذا قصر في الحفظ، كأن يضع العين المستأجرة في مكان لا توضع فيه عادة، كما إذا وضع السيارة في منتصف الطريق، أو مكان غير مأمون دون حراسة، فإنه يضمن ما يطرأ عليها من حوادث. أما لو وضعها في مكان مأمون يعتاد الناس وضعها فيه، ثم أصابها شيء، فإنه لا يضمنه. (الفقہ المنہجی:١٥٧)
(ولو اكترى لمئة فحمل مئةً وعشرة .. لزمه أجرة المثل للزيادة) مع المُسمّى؛ لتعديه بها، وإنما مثل بالعشرة للإشارة إلى أن محلَّ ذلك: إذا كانت الزيادة قدرًا لا يقع التفاوت به بين الكَيْلين (بداية المحتاج في شرح المنهاج ٢/٤١٨) السراج الوهاج/٢٢١ روضة الطالبين وعمدة المفتين ٥/٢٣٣ النجم الوهاج في شرح المنهاج ٥/٣٨٠
جمعرات _28 _اکتوبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1007
مسلمان باورچی کے لیے کتے یا خنزیر کا گوشت کسی غیر مسلم کے لیے پکا کر دینے کا کیا حکم ہے؟
کتے یا خنزیر کا گوشت کھانا حرام ہے تو اسی طرح کسی دوسرے کے لیے کتے یا خنزیر کا گوشت پکا کر کھلانا بھی حرام ہے چونکہ قرآن کے مخاطب رہتی دنیا تک کے لوگ ہیں اس لیے حرام گوشت کھانا یا کھلانا مسلمان کے لیے جس طرح حرام ہے اسی طرح غیر مسلم کو پکا کر کھلانا بھی حرام ہے
وَلَا يَجُوزُ لِلْمُسْلِمِ إعَانَةُ الْكَافِرِ عَلَى مَا لَا يَحِلُّ عِنْدَنَا كَالْأَكْلِ وَالشُّرْبِ (حاشية البجيرمي على الخطيب:374)
علامہ محمد مصطفی الزحیلي فرماتے ہیں: الكفار مخاطبون بفروع الشريعة (الوجيز في أصول الفقه الإسلامي:١/٤٧٣)
لا تَجُوزُ لِلْمُسْلِمِ إعَانَةٌ لِكَافِرٍ عَلَى مَا لَا يَحِلُّ عِنْدَنَا كَالْأَكْلِ وَالشُّرْبِ فِي نَهَارِ رَمَضَانَ بِضِيَافَةٍ أَوْ غَيْرِهَا (أسنى المطالب في شرح روض الطالب ج١ص٤١٨)
ليس للمسلم خصوصية تجعل الحرام على غيره حلالًا له كلا ، إن الله رب الجميع ، والشرع سيد الجميع ، فما أحل الله بشريعته فهو حلال للناس كافة ، وما حرم فهو حرام على الجميع إلى يوم القيامة السرقة مثلا حرام ، سواء أكان السارق مسلما أم غير مسلم ، وسواء أكان المسروق منه مسلما أو غير مسلم (الحلال والحرام في الإسلام ليوسف القرضاوي:٤٥) فلا يجوز للمسلم أن يطبخ أو يقدم لحم الخنزير ولو لغيرالمسلمين، لما فيه من إعانتهم على فعل المحرم، والله تعالى يقول: ولا تَعاوَنُوا عَلى الأِثْمِ والعُدْوان (فتاوى الشبكة الإسلامية:١٣/١٦١٧٠)
منگل _19 _اکتوبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1008
علاج و معالجہ کے لیے ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق ایسی دوا کا استعمال کرنا جس میں کتے یا خنزیر کا مادہ شامل ہو تو اس کے استعمال کا کیا مسئلہ ہے؟
کسی بھی مرض کے علاج کے لیے پاکیزہ اشیاء سے بنی ہوئی دوائی کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنا چاہیے البتہ مرض کے علاج مختلف قسم کے ہوتے ہیں اگر پاک چیزوں سے بنی دواء سے علاج ممکن ہی نہ ہو تو آخری درجہ میں کسی ماہر اور مسلمان عادل ڈاکٹرکے مشورہ سے حرام چیز سے علاج مجبورا کرسکتے ہیں۔
علامہ خطیب شربینی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: فَيَجُوزُ التَّداوِي بِهِ عِنْدَ فَقْدِ ما يَقُومُ مَقامَهُ مِمّا يَحْصُلُ بِهِ التَّداوِي مِن الطّاهِراتِ كالتَّداوِي بِنَجَسٍ كَلَحْمِ حَيَّةٍ وبَوْلٍ، ولَوْ كانَ التَّداوِي بِذَلِكَ لِتَعْجِيلِ شِفاءٍ بِشَرْطِ إخْبارِ طَبِيبٍ مُسْلِمٍ عَدْلٍ بِذَلِكَ أوْ مَعْرِفَتِهِ لِلتَّداوِي بِهِ.(مغنی المحتاج: ٥/ ٥١٨)
امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: فَهُوَ حَرامٌ عِنْدَ وُجُودِ غَيْرِهِ ولَيْسَ حَرامًا إذا لَمْ يَجِدْ غَيْرَهُ. قالَ أصْحابُنا وإنَّما يَجُوزُ ذَلِكَ إذا كانَ المُتَداوِي عارِفًا بِالطِّبِّ يَعْرِفُ أنَّهُ لا يَقُومُ غَيْرُ هَذا مَقامَهُ أوْ أخْبَرَهُ بِذَلِكَ طَبِيبٌ مُسْلِمٌ عَدْلٌ ويَكْفِي طَبِيبٌ واحِدٌ صَرَّحَ بِهِ البَغَوِيّ وغَيْرُهُ. (المجموع: ٩/ ٥١)
بدھ _20 _اکتوبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1009
عید کی نماز میں اگر امام خطبہ پہلے دے اور نماز عید بعد میں پڑھائے تو کیا مسئلہ ہے؟
عید کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نماز ہو پھر خطبہ اگر کسی نے ترتیب بدل کر پہلے خطبہ دیا تو اس خطبہ کا اعتبار نہیں ہوگا.البتہ نماز ہوجائے گی
علامہ اسنوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: فقال: لو بدأ بالخطبة قبل الصلاة، رأيت أن يعيد الخطبة بعد الصلاة، فإن لم يفعل لم يكن عليه إعادة صلاة….. قال النووي في «شرح المهذب» و«زيادات الروضة»، وغيرهما: الصواب -وهو ظاهر نص الشافعي: أنه لا يعتد بها. (المھمات:٣/ ٤٣٤) *المجموع :٥/ ٢٥ *الام :١/ ٢٧٠ *بحر المذھب :٢/ ٤٦٨
اتوار _24 _اکتوبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1010
نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد امام سورہ یا آیات پڑھتا ہے کیا مقتدی امام کے ساتھ ان آیات کی تلاوت کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد امام جن آیات کی تلاوت کرتا ہے اور اس کی آواز مقتدی تک پہنچتی ہو تو مقتدی کے لیے امام کے پیچھے تلاوت کرنا مکروہ ہے بلکہ امام کی تلاوت کو خاموشی سے سنے اگر امام کی تلاوت کی آواز مقتدی تک نہ پہنچ رہی ہو یا مقتدی بہرہ ہو تو مقتدی کے لیے امام کے پیچھے قرات کرنا درست ہے۔ اسی طرح سری نماز میں مقتدی کے لیے سورہ پڑھنا سنت ہے
علامہ دمیری رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: (ولا سورة للمأموم، بل يستمع) لقوله تعالى: ﴿وإذا قرئ القرءان فاستمعوا له﴾. وقال ﷺ: (إذا كنتم خلفي .. فلا تقرؤوا إلا بأم القرآن) (النجم الوهاج :٢/١٢٧)
علامہ رملی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (ولا سُورَةَ لِلْمَأْمُومِ) فِي جَهْرِيَّةٍ (بَلْ يَسْتَمِعُ) وتُكْرَهُ لَهُ قِراءَتُها كَما هُوَ ظاهِرٌ لِلنَّهْيِ الصَّحِيحِ عَنْ قِراءَتِها خَلْفَهُ، والأصْلُ فِي ذَلِكَ قَوْله تَعالى ﴿وإذا قُرِئَ القُرْآنُ فاسْتَمِعُوا لَهُ وأنْصِتُوا﴾ [الأعراف ٢٠٤] والِاسْتِماعُ مُسْتَحَبٌّ لا واجِبٌ، فَإنْ) لَمْ يَسْتَمِعْ قِراءَتَهُ كَأنْ (بَعُدَ) عَنْ إمامِهِ أوْ كانَ أصَمَّ أوْ سَمِعَ صَوْتًا لَمْ يَفْهَمْهُ (أوْ كانَتْ) صَلاتُهُ (سِرِّيَّةً) وأسَرَّ فِيها إمامُهُ أوْ جَهْرِيَّةً ولَمْ يَجْهَرْ فِيها كَما مَرَّ (قَرَأ) المَأْمُومُ السُّورَةَ (فِي الأصَحِّ) إذْ سُكُوتُهُ لا مَعْنى لَهُ (نهاية المحتاج: ١/٣٠٣)