جمعرات _30 _دسمبر _2021AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1031
مساجد میں پینے کا فلٹر پانی مسجد سے باہر گھر والوں یا مزدور قسم کے لوگوں کے لیے لے جانے کا کیا حکم ہے؟
مسجد کا پانی عموماً مسجد کے لیے ہی وقف ہوتا ہے۔ یعنی صرف مسجد کے استعمال کے لیے ہی خاص ہوتا ہے۔ دراصل اس میں وقف کرنے والے یا مسجد کی طرف سے اگر انتظام کیا گیا ہو تو مسجد کی انتظامیہ کے فیصلے کا اعتبار ہوگا اگر مشین پر لکھا ہو پانی باہر لے جانا منع ہو تو اس کا مسجد سے باہر لے جانا اور یا کسی ذاتی کام کے لیے مسجد کا پانی استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ ہاں اگر مشین وقف کرنے والے کی طرف سے یا مسجد انتظامیہ کی طرف سے دوسروں کو بھی استعمال کرنے یا مسجد سے باہر لے جانے کی اجازت ہو تو درست ہے۔
علامہ ابن حجر ہیتمی ؒ رقم طراز ہیں: أَنَّ مَنْ تَصَدَّقَ بِمَاءٍ أَوْ وَقَفَ مَا يَحْصُلُ مِنْهُ الطَّهُورُ بِمَسْجِدِ كَذَا لَمْ يَجُزْ نَقْلُهُ مِنْهُ لِطَهَارَةٍ وَلَا لِغَيْرِهَا مُنِعَ النَّاسُ مِنْهُ أَوْ لَا لِأَنَّ الْمَاءَ الْمُسَبَّلَ يَحْرُمُ نَقْلُهُ عَنْهُ إلَى مَحَلّ آخَرَ لَا يُنْسَبُ إلَيْهِ….. نَعَمْ مَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَتَوَضَّأَ مِنْهُ لَا يَلْزَمُهُ الصَّلَاةُ فِيهِ وَإِنْ احْتَمَلَ أَنَّ الْوَاقِفَ أَرَادَ ذَلِكَ تَكْثِيرًا لِثَوَابِهِ لِأَنَّ لَفْظَهُ يَقْصُرُ عَمَّا يُفْهِمُ ذَلِكَ هَذَا كُلُّهُ إنْ لَمْ يَطَّرِدْ عُرْفٌ فِي زَمَنِ الْوَاقِفِ وَيَعْلَمهُ وَإِلَّا نَزَلَ وَقْفُهُ عَلَيْهِ لِأَنَّهُ مُنَزَّلٌ مَنْزِلَةِ شَرْطِهِ. (الفتاوى الفقهية الكبرى:٣/٢٦٦)
علامہ نووی الجاوی الشافعی ؒ لکھتے ہیں: ولا يجوز نقل الماء المسبِّل للشرب من محلّه إلى محلّ آخر، كأن يأخذه للشرب في بيته مثلاً، إلا إذا عُلم أو قامت قرينة على أن مسبِّله يسمح بذلك. (نهاية الزين ١/٣٦)
★ حاشية البجيرمي ٣/٢٦٨.
★ كفاية الأخيار ١/٦٥.
★ المهمات في شرح الروضة والرافعي ٦/٢٦٠.
اتوار _2 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1032
جانور کوخصی کرنے کی اجرت لینا کیساہے؟
جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے ان جانوروں کی خصی کرنے پر اجرت لینا بھی حرام ہے البتہ ماکول اللحم جانوروں کو چھوٹی عمر میں خصی کرنے پر اجرت لینا جائز ہے۔ اسی طرح ماکول اللحم جانوروں کو بڑی عمر کے بعد خصی کرنا اور اس پر اجرت لینا درست نہیں
لا يجوز خصاء حيوان لا يؤكل لا في صغره ولا في كبره، ويجوز خصاء المأكول في صغره؛ لأن فيه غرضاً وهو طيب لحمه، ولا يجوز في كبرهأ (المجموع:٦/١٧٧)
قالَ البِرْماوِيُّ: والخِصاءُ حَرامٌ إلّا فِي مَأْكُولٍ صَغِيرٍ لِطِيبِ لَحْمٍ فِي زَمَنٍ مُعْتَدِلٍ، وهُوَ عَيْبٌ فِي الآدَمِيِّ مُطْلَقًا (حاشية البجيرمي على الخطيب:٣/٣٩)
إذا كره شي كره اخذ الأجرة عليه كما يحرم أخذها علي الحرام أو كما أخذ الأجرة على الحرام يحرم إعطاءه لأنه إعانة على المعصية (اسنی المطالب:٥٢٠/٢)
حاشية البجيرمي على شرح المنهج :٣/٣١٨
حاشية الجمل :٤/١١٠
جمعرات _6 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1033
چیونٹی کو مارنے کا کیا حکم ہے؟
چیونٹی بھی اللہ کی پیدا ایک مخلوق ہے کسی بھی جانور کو بلا ضرر کے مارنے سے روکا گیا ہے ہاں اگر چھوننی جیسی جاندار چیز سے کسی قسم کی تکلیف ہو تو اس کو مارنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں۔
قال العلامة السهارنفورى رحمه الله: إن النبي ﷺنهى عن قتل أربع من الدواب: النملة) قال القاري عن نوع خاص منها، وهو الكبار ذوات الأرجل الطوال، لأنها قليلة الأذى والضرر. قلت: لم أقف على دليل هذا التخصيص، فلو كان في رواية صح، وإلا، فلا والنحلة لعدم إضرارهما،۔۔۔
قال الإمام النووي رحمه الله: وأمّا قَتْلُ النَّمْلِ فَمَذْهَبُنا أنه لايجوز واحتج أصحابنا فيه بحديث بن عَبّاسٍ أنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهى عَنْ قَتْلِ أرْبَعٍ مِنَ الدَّوابِّ النَّمْلَةِ والنَّحْلَةِ والهُدْهُدِ والصُّرَدِ رَواهُ أبُو داوُدَ بِإسْنادٍ صَحِيحٍ عَلى شَرْطِ البُخارِيِّ ومُسْلِمٍ
أن النبي ﷺ نهى عن قتل أربع من الدواب: النملة، والنحلة، والهدهد،والصرد)، وأولها النملة، ومعلوم أنها لا تقتل إلا إذا آذت، ولهذا مر في الحديث السابق أنها تسبح، فإذا كان لا يحصل منها الأذى فإنها تترك، وإن حصل منها أذى فإنها تقتل، فالنهي في الأصل من أجل عدم الإيذاء، أما إذا وجد إيذاء فإن الذي يؤذي يقتل من أجل دفع أذاه والتخلص من أذاه
قال الإمام النووي رحمه الله: أصْحابُنا ولا يَجُوزُ قَتْلُ النَّحْلِ والنَّمْلِ والخَطّافِ والضُّفْدَعِ وفِي وُجُوبِ الجَزاءِ بِقَتْلِ الهُدْهُدِ والصُّرَدِ خِلافٌ مَبْنِيٌّ عَلى الخِلافِ فِي جَوازِ أكْلِهِما إنْ جازَ وجَبَ وإلّا فَلا (بذل المجهود :٩٩/١٠)
(شرح مسلم :٢٣٩/١٤)
(شرح سنن ابى داود للعباد:٥٩٦/١٣)
(المجموع (٣١٦/٧)
اتوار _9 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1034
جسم پر زخم کی وجہ سے نماز کی حالت میں بہت زیادہ خون نکلے تو اس نماز کا کیا مسئلہ ہے؟ کیا خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟
نماز کی حالت میں زخم ہونے کی وجہ سے خون نکلنے سے اس کی نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اسی طرح خون کے نکلنے سے وضو بھی نہیں ٹوٹتا اب چاہے وہ خون کم ہو یا زیادہ کوئی حرج نہیں
قال الحافظ ابن حجر العسقلاني رحمة الله:اﻟﺤﺠﺔ ﻗﺎﺋﻤﺔ ﺑﻪ ﻋﻠﻰ ﻛﻮﻥ ﺧﺮﻭﺝ اﻟﺪﻡ ﻻ ﻳﻨﻘﺾ (فتح البارى:٢٨١/١)
وحاصِلُ ما فِي الدِّماءِ أنَّهُ يُعْفى عَنْ قَلِيلِها ولَوْ مِن أجْنَبِيٍّ غَيْرِ نَحْوِ كَلْبٍ، وكَثِيرِها مِن نَفْسِهِ ما لَمْ يَكُنْ بِفِعْلِهِ أوْ يُجاوِزُ مَحَلَّهُ فَيُعْفى حِينَئِذٍ عَنْ قَلِيلِها فَقَطْ (نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج :٢/٣٢)
قال الشيخ محمد الزحيلى رحمه الله: فلا ينتقض الوضوء بخروج الدم من الجسم (المعتمد: ٨٨/١)
*التحرير:٣٣/١
*المنهاج القويم :٣٦
*نهاية الزين:٢٩
پیر _10 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 01035
مسجد میں داخل ہونے کے بعد جماعت کھڑی ہونے میں اتنا وقت باقی ہو جس میں دو رکعت سنت بھی ادا نہ کر سکے تو کیا جماعت کے انتظار میں کھڑے رہنا چاہیے یا بیٹھنا چاہئے؟
تحیۃ المسجد کا ثواب بیٹھنے پر فوت ہوجاتا ہے اور وقت ہوتے ہوے تحیۃ المسجد کی دو رکعت چھوڑنا مکروہ ہے ہاں اگر فرض نماز کی جماعت کا وقت قریب ہو تو اگر تحیۃ المسجد پڑھنے سے تکبیر تحریمہ کی نہ ملنے کا یقین ہو تو ایسا شخص جماعت کے انتظار میں کھڑا رہیگا اور فرض نماز کی جماعت کے ساتھ ہی تحیۃ المسجد کی نیت کرے گا تاکہ تحیۃ المسجد کی نماز کا ثواب بھی حاصل ہوجائے
ويُكْرَهُ تَرْكُها إلّا إنْ قَرُبَ قِيامُ مَكْتُوبَةٍ وإنْ لَمْ تَكُنْ جُمُعَةً بِحَيْثُ لَوْ اشْتَغَلَ بِها فاتَتْهُ فَضِيلَةُ التَّحَرُّمِ مَعَ إمامِهِ (حاشية الجمل:١/٤٨٧)
نَعَمْ إنْ قَرُبَ قِيامُ مَكْتُوبَةٍ جُمُعَةٍ أوْ غَيْرِها وقَدْ شُرِعَتْ جَماعَتُها….. وخَشِيَ لَوْ اشْتَغَلَ بِالتَّحِيَّةِ فَواتَ فَضِيلَةِ التَّحَرُّمِ انْتَظَرَهُ قائِمًا ودَخَلَتْ التَّحِيَّةُ (تحفة المحتاج:٢/٢٣٤)
من دخل قرب قيام فريضة تشرع له الجماعة فيها، وخشي لواشتغل بها فاتته فضيلة التحرم .. انتظره قائمًا، ودخلت التحية في الفريضة (شرح المقدمة الحضرمية:١/٣١٧)
*۔ إعانة الطالبين: ١/٢٩٦
*۔تحرير الفتاوى ١/٣١٦
جمعہ _14 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1036
ہاف چمڑے کا موزہ ہے جس کا نیچے والا حصہ ٹخنوں تک مکمل بند ہو لیکن ٹخنہ اور اس کےاوپر والا حصہ کھلا ہو موزے پر مسح کرنے کا کیا حکم ہے؟
موزے پر مسح درست ہونے کے لیے جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ان میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ موزے دونوں پاؤں کو مکمل ڈھانپ دے۔ ہاف موزے چونکہ مکمل پاؤں نہیں ڈھانک سکتے بلکہ اس میں ٹخنہ کھلا رہتا ہے تو ایسے ہاف موزوں پر مسح کرنا درست نہیں ہے
قال الإمام البجيرمي رح الثّانِي مِن الشُّرُوطِ (أنْ يَكُونا) أيْ الخُفّانِ (ساتِرَيْنِ لِمَحَلِّ غَسْلِ الفَرْضِ مِن القَدَمَيْنِ) فِي الوُضُوءِ، وهُوَ القَدَمُ بِكَعْبَيْهِ مِن سائِرِ الجَوانِبِ لا مِن الأعْلى. (حاشية البجيرمي على الخطيب:١/٢٦١)
قال الإمام الرملي رح :كونهما ساترين للرجلين مع كعبيهما من كل الجوانب، وهو محل الفرض لا من الأعلى. (فتح الرحمن بشرح زبد ابن رسلان: ١/١٨٧)
الفقه المنهجي على مذهب الإمام الشافعي:١/٦٥
مجموع شرح المهذب :١/٥٠٣
فتح القريب المجيب في شرح ألفاظ التقريب ١/٤٧
اتوار _16 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1037
اگر کوئی کھلے جگہ میں نماز پڑھ رہا ہے اور آگے کوئی سترہ بھی نہیں ہے تو کتنا آگے سے آدمی گزر سکتا ہے؟
اگر کوئی آدمی کھلی جگہ میں نماز پڑھ رہا ہے اور آگے کوئی سترہ بھی نہیں ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مصلی نے سترہ نہ رکھ کر کوتاہی کی ہے.
وإن لم يجعل المصلي تلقاءه شيئا من ذلك. لم يكره المرور بين يديه؛ لأن المصلي فرط في حق نفسه. وإن مر بين يدي المصلي مار.. لم تبطل صلاته (البيان في مذهب الإمام الشافعي:٢/١٥٨)
العزيز شرح الوجيز المعروف بالشرح الكبير ٢/٥٦
حاشية الجمل على شرح المنهج ١/٤٣٨
پیر _17 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سؤال نمبر / 1038
اگر کوئی امام کے پہلے سلام کے بعد دوسرے سلام سے پہلے امام سے مل جائے تو کیا اسے جماعت کا ثواب ملے گا؟
جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے مقتدی کا امام کے پہلا سلام پھیرنے سے پہلے جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے اگر کوئی شخص امام کے پہلی سلام کے بعد اور دوسری سلام سے قبل امام سے مل جائے تو اسے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا
قال سليمان الجمل رحمة الله عليه: تُدْرَكُ فَضِيلَةُ (جَماعَةِ ما لَمْ يُسَلِّمْ) أيْ الإمامُ التَّسْلِيمَةَ الأُولى وإنْ لَمْ يَقْعُدْ مَعَهُ بِأنَّ سَلَّمَ عَقِبَ تَحَرُّمِهِ (حاشية الجمل:٥٠٦/١) (قَوْلُهُ وتُدْرَكُ فَضِيلَةُ جَماعَةٍ إلَخْ) أيْ (قَوْلُهُ ما لَمْ يُسَلِّمْ) أيْ ما لَمْ يَشْرَعْ فِي السَّلامِ
*حاشية البجيرمي على شرح المنهج (٢٩٢/١)
*المقدمة الحضرمية:٩٠/١)
*فتح الوهاب :٧٠/١
*حاشية البجيرمي على الخطيب:١٢٥/٢
منگل _18 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1039
اگر کسی کی جان کو خطرہ ہو تو اسے بچانے کے لٸے نماز توڑنا کیسا ہے؟
اگر کسی کی جان کو خطرہ ہو تو اسے بچانے کے لیے نمازی شخص کو اپنی نماز توڑ کر اسے بچانا لازم ہے
ولَوْ رَأى مُصَلٍّ نَحْوَ حَرِيقٍ خَفَّفَ وهَلْ يَلْزَمُهُ القَطْعُ وجْهانِ واَلَّذِي يُتَّجَهُ أنَّهُ يَلْزَمُهُ لِإنْقاذِ حَيَوانٍ مُحْتَرَمٍ ويَجُوزُ لَهُ لِإنْقاذِ نَحْوِ مالٍ كَذَلِكَ (تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي ٢/٢٦١)
ولو رأى مصل نحو حريق خفف وهل يلزم أم لا؟ وجهان والذي يتجه أنه يلزمه لإنقاذ حيوان محترم ويجوز له لإنقاذ نحو مال كذلك. ومن رأى حيوانا محترما يقصده ظالم أو يغرق لزمه تخليصه وتأخير صلاة أو إبطالها إن كان فيها أو مالا جاز له ذلك وكره له تركه. (إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين: ٢/١٩)
شرح المقدمة الحضرمية ١/٣٢٩
نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج ٢/١٤٩
بدھ _19 _جنوری _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1040
پڑوسی کے گھر کا ناریل، آم یا کوئی اور پھل اپنے گراؤنڈ میں گرے تو پڑوسی کی اجازت کے بغیر کسی غریب کو دے سکتے ہیں؟
اگر پڑوسی کی اجازت ہو یا پڑوسی نے گِرے ہوئے پھلوں کو استعمال کرنے اور کھانے کی اجازت دی ہو یا اس علاقہ میں درخت سے گرے ہوئے پھلوں کو کھانے سے منع نہیں کیا جاتا ہو یا پھر معلوم ہو کہ گرے ہوئے پھل کھانے سے یا کسی کو دینے سے پڑوسی کو ناگواری نہ ہوتی ہو تو ان پھلوں کو استعمال کرنے یا کسی غریب کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر پڑوسی مالِک کو ناگواری ہوتی ہو تو گرے ہوئے پھلوں کو کھانا یا دوسرے کو دینا بھی جائز نہیں
وحُكْمُ الثِّمارِ السّاقِطَةِ مِن الأشْجارِ حُكْمُ الثِّمارِ الَّتِي عَلى الشَّجَرِ إنْ كانَتْ السّاقِطَةُ داخِلَ الجِدارِ وإنْ كانَتْ خارِجَةً فَكَذَلِكَ إنْ لَمْ تَجْرِ عادَتُهُمْ بِإباحَتِها فَإنْ جَرَتْ فَوَجْهانِ أحَدُهُما) لا يَحِلُّ كالدّاخِلَةِ وكَما إذا لَمْ تَجْرِ عادَتُهُمْ لِاحْتِمالِ أنَّ هَذا المالِكَ لا يُبِيحُ (وأصَحُّهُما) يَحِلُّ لِاطِّرادِ العادَةِ المُسْتَمِرَّةِ بِذَلِكَ وحُصُولِ الظَّنِّ بِإباحَتِهِ كَما يَحْصُلُ تَحَمُّلُ الصَّبِيِّ المُمَيِّزِ الهَدِيَّةَ ويَحِلُّ أكْلُها (المجموع شرح المهذب: ٩/٥٤)
وحكم الثمار الساقطة من الأشجار حكم سائر الثمار إن كانت داخل الجدار، وكذلك إذا كانت خارجه إلا أن تجري عادتهم بإباحتها، فإن جرت بذلك .. فالأصح: الإباحة (النجم الوهاج في شرح المنهاج :٩/٥٧٨)
أمّا القَرِيبُ والصَّدِيقُ فَإنْ تَشَكَّكَ فِي رِضاهُ بِالأكْلِ من ثمره وزرعه وبيته لم يحل الا كل مِنهُ بِلا خِلافٍ وإنْ غَلَبَ عَلى ظَنِّهِ رضاه به وأنه يَكْرَهُ أكْلَهُ مِنهُ جازَ أنْ يَأْكُلَ القَدْرَ الَّذِي يَظُنُّ رِضاهُ بِهِ ويَخْتَلِفُ ذَلِكَ بِاخْتِلافِ الأشْخاصِ والأزْمانِ والأحْوالِ والأمْوالِ ولِهَذا تَظاهَرَتْ دَلائِلُ الكِتابِ والسُّنَّةِ وفِعْلُ سَلَفِ الأُمَّةِ وخَلَفِها (المجموع شرح المهذب:٩/٥٥)
الزبد في الفقه الشافعي: ١/٢٢٩.
المهمات في شرح الروضة والرافعي: ٩/٧٧
روضة الطالبين:٣/٢٩٢.