منگل _11 _اکتوبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1101
قبر پر اذان دینے کا کیا حکم ہے؟
قبر پر اذان دینا بدعت ہے
شیخ ابن حجر ہیتمی رح فرماتے ہیں: ماحکم الاذان والاقامۃ سد فتح اللحد؟فاجاب بقولہ ھوبدعۃ اذلم یصح فیہ شی ء الفتاوی الکبریٰ الفقھیہ: 1/413
واعلم انہ ۔لایسن الاذان عند دخول القبرخلافا لمن قال بسنیتہ قیاسا لخروجہ من الدنیا علی دخولہ فیھا (اعانۃ الطالبین:1/364)
جمعہ _2 _ستمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر /1102
غیروں کے پولا نامی تھوار کے موقع پر جانوروں کو سجا کر مندر کے قریب لے جایا جاتے ہیں کیا اس طرح کرنا یا ان جانوروں کو صرف دیکھنے کے لیے جانا جائز ہے؟
پولا غیروں کا ایک مذہبی تہوار ہے، جسمیں جانوروں کو سجا کر اس کی پوجا کی جاتی ہے، اس طرح کے تہوار کو دیکھنے جانا یا کسی بھی طرح سے ان کے کاموں میں معاونت کرنا اس سے غیروں کی مشابہت لازم آئے گی۔ لھذا ایسے تمام کاموں سے شریعت نے سختی سے بچنے کا حکم دیا جس سے کفار کی ادنی مشابہت ہو تو ایسے تمام کاموں سے بچنا بےحد ضروری ہے۔
علامہ ابن حجر ھیثمیؒ فرماتے ہیں: ومِن أقْبَحِ البِدَعِ مُوافَقَةُ المُسْلِمِينَ النَّصارى فِي أعْيادِهِمْ بِالتَّشَبُّهِ بِأكْلِهِمْ والهَدِيَّةِ لَهُمْ وقَبُولِ هَدِيَّتِهِمْ فِيهِ وأكْثَرُ النّاسِ اعْتِناءً بِذَلِكَ المِصْرِيُّونَ وقَدْ قالَ ﷺ مَن تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنهُمْ۔ (الفتاوى الفقهية الكبرى: ٢١٦/٤)
علامہ ابن القیم جوزیؒ فرماتے ہیں: وأمّا التَّهْنِئَةُ بِشَعائِرِ الكُفْرِ المُخْتَصَّةِ بِهِ فَحَرامٌ بِالِاتِّفاقِ مِثْلَ أنْ يُهَنِّئَهُمْ بِأعْيادِهِمْ وصَوْمِهِمْ، فَيَقُولَ: عِيدٌ مُبارَكٌ عَلَيْكَ، أوْ تَهْنَأُ بِهَذا العِيدِ، ونَحْوَهُ، فَهَذا إنْ سَلِمَ قائِلُهُ مِنَ الكُفْرِ فَهُوَ مِنَ المُحَرَّماتِ (احکام اھل الذمة: ٤٤١/١)
امام نوویؒ فرماتے ہیں: وتحرم تهنئتهم وتعزيتهم اتباع لا ابتداع: ١/٢٣٢ (٥) المجموع
جمعہ _9 _ستمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1103
اگر کوئی وضو کرکے وتر کی ایک رکعت ادا کرے اور اس کے ساتھ تحیۃ المسجد یا تحیۃ الوضوء کی نیت کرے تو کیا اس سے یہ نمازیں حاصل ہوجائے گی؟
تحیة الوضو اور تحیۃ المسجد کی نماز دو رکعت یا اس سے زائد رکعتیں پڑھنے سے حاصل ہوتی ہیں اگر کوئی شخص وتر کی ایک رکعت نماز کے ساتھ تحیة الوضو یا تحیۃ المسجد کی نیت کرے تویہ نمازیں ادا نہیں ہوگی
أَمَّا حُكْمُ الْمَسْأَلَةِ: فَأَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اسْتِحْبَابِ تَحِيَّةِ الْمَسْجِدِ وَيُكْرَهُ أَنْ يَجْلِسَ مِنْ غَيْرِ تَحِيَّةٍ بِلَا عُذْرٍ لِحَدِيثِ أَبِي قَتَادَةَ الْمُصَرِّحِ بِالنَّهْيِ وَسَوَاءٌ عِنْدَنَا دَخَلَ فِي وَقْتِ النَّهْيِ عَنْ الصَّلَاةِ أَمْ فِي غَيْرِهِ كَمَا سَنُوَضِّحُهُ بِدَلِيلِهِ فِي بَابِهِ إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى قَالَ أَصْحَابُنَا: وَتَحِيَّةُ الْمَسْجِدِ رَكْعَتَانِ لِلْحَدِيثِ، فَإِنْ صَلَّى أَكْثَرَ مِنْ رَكْعَتَيْنِ بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ جَازَ، وَكَانَتْ كُلُّهَا تَحِيَّةً لِاشْتِمَالِهَا عَلَى الرَّكْعَتَيْنِ، وَلَوْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ أَوْ سَجَدَ لِتِلَاوَةٍ أَوْ شُكْرٍ أَوْ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً لَمْ تَحْصُلْ التَّحِيَّةُ، لِصَرِيحِ الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ، هَذَا هُوَ الْمَذْهَبُ. وَحَكَى الرَّافِعِيُّ وَجْهًا أَنَّهَا تَحْصُلُ لِحُصُولِ عِبَادَةٍ وَإِكْرَامِ الْمَسْجِدِ وَالصَّوَابُ الْأَوَّلُ، وَإِذَا جَلَسَ وَالْحَالَةُ هَذِهِ كَانَ مُرْتَكِبًا لِلنَّهْيِ، قَالَ أَصْحَابُنَا: وَلَا يُشْتَرَطُ أَنْ يَنْوِيَ بِالرَّكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ، بَلْ إذَا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ بِنِيَّةِ الصَّلَاةِ مُطْلَقًا أَوْ نَوَى رَكْعَتَيْنِ نَافِلَةً رَاتِبَةً أَوْ غَيْرَ رَاتِبَةٍ أَوْ صَلَاةَ فَرِيضَةٍ مُؤَدَّاةٍ أَوْ مَقْضِيَّةٍ أَوْ مَنْذُورَةٍ أَجْزَأَهُ ذَلِكَ وَحَصَلَ لَهُ مَا نَوَى، وَحَصَلَتْ تَحِيَّةُ الْمَسْجِدِ ضِمْنًا وَلَا خِلَافَ فِي هَذَا. (المجموع شرح المهذب :1/ 33)
جمعہ _14 _اکتوبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1104
اگر کپڑوں میں بلی کے بال لگے ہوں، تو کیا نماز درست ہوگی؟
بلی غیر مأكول اللحم جانور ہے، اور غیر مأكول اللحم جانور کا بال نجس ہے. اگرچہ بال زندگی میں ہی جسم سے الگ ہوئے ہوں لھذا اگر بلی کے بال زیادہ مقدار میں بدن یا کپڑے لگے ہوں تو نماز درست نہیں ہوگی. اور اگر کم ہو تو نماز درست ہوگی
فإذا انفصل شعر الحيوان عنه في حياته، أو انفصل ريش الطائر، نظر:إن كان غير مأكول اللحم؛ فهو نجس إلا شعر الآدمي فإنه طاهر في عموم الأحوال؛ لكرامته على ظاهر المذهب.وقيل في نجاسة شعر الآدمي بعد الانفصال عنه: قولان؛ بناءً على نجاسة بدنه بالموت.فإن قلنا بنجاسته، فإذا سقطت منه شعرةٌ أو شعرتان؛ فصلى فيها، أو سقطت في ماء وضوء يعفى عنها؛ لقلتها، وتعذر الاحتراز عنه، فإن كثرت لم يُعف عنه؛ كدم البرغوث. (التهذيب في فقه الإمام الشافعي:١/١٧٧)
ويُعْفى عَنْ قَلِيلِ شَعْرِ غَيْرِ المَأْكُولِ وعَنْ قَلِيلِ شَعْرِ المَرْكُوبِ لِمَشَقَّةِ الِاحْتِرازِ عَنْهُ
(حاشية الجمل على شرح المنهج:١/١٧٨)
الغرر البهية في شرح البهجة الوردية:١/٤٧ غاية البيان شرح زبد ابن رسلان:١/٣١) السراج الوهاج:١/٢٣) محمد الغمراوي
پیر _12 _ستمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1105
اگر کوئی شخص صف میں کھڑے ہو کر باتیں کرے اور جب امام رکوع میں چلا جائے تو اس کے ساتھ رکوع چلا جائے تو کیا اس صورت میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے رکعت شمار ہوگی جیسا کہ عام طور پر تراویح میں کیا جاتا ہے؟
صف میں کھڑے ہوکر باتیں نہیں کرنا چاہیے بلکہ امام جو جس حال میں پائے اس کی اقتداء کرناچاہیے، لیکن اگر کوئی شخص صف میں حاضر ہو کر باتیں کرتا رہے اور جب امام رکوع میں چلا جائے تو اس کے ساتھ رکوع کرلے تو اس صورت میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے بھی رکعت شمار ہوگی اور نماز بھی ہوجائے گی
قال الامام الترمسي: من أدرك الإمام راكعا … قبل ارتفاعه عن أقل الركوع أدرك الركعة …. اي ما فاته من قيامها وقراءتها وان قصر بتأخير تحرمه لا لعذر حتى ركع (حاشية الترمسي :٣\٨٥٢)
تحفة المحتاج مع حواشي الشرواني وابن القاسم عبادي ٣\٢٠٣ نهاية المحتاج :٢\٢٤٢
منگل _13 _ستمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1106
پیٹ کے کینسر (cancer) کی بیماری میں مرنے والا شخص شھید کے حکم میں ہوگا اور اس کی تجہیز و تکفین کا کیا مسئلہ ہے؟
حدیث مبارک میں پیٹ کی بیماری سے مرنے والے کو شہید کہا گیا ہے،لہذاکوئی پیٹ کے کینسر کی بیماری سے انتقال کر جائے تو وہ شہید کہلائے گا، البتہ اسے عام میت کی طرح غسل، کفن، نماز و دفن کا عمل کیا جائے گا –
الشُّهَداءُ كَما قالَ فِي المَجْمُوعِ ثَلاثَةٌ. الأوَّلُ: شَهِيدٌ فِي حُكْمِ الدُّنْيا بِمَعْنى أنَّهُ لا يُغَسَّلُ ولا يُصَلّى عَلَيْهِ، وفِي حُكْمِ الآخِرَةِ بِمَعْنى أنَّ لَهُ ثَوابًا خاصًّا، وهُوَ مَن قُتِلَ فِي قِتالِ الكُفّارِ بِسَبَبِهِ، وقَدْ قاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ العُلْيا، وسُمِّيَ بِذَلِكَ لِمَعانٍ: مِنها أنَّ اللَّهَ سُبْحانَهُ ورَسُولَهُ شَهِدا لَهُ بِالجَنَّةِ، ومِنها أنَّهُ يُبْعَثُ ولَهُ شاهِدٌ بِقَتْلِهِ وهُوَ دَمُهُ؛ لِأنَّهُ يُبْعَثُ وجُرْحُهُ يَتَفَجَّرُ دَمًا، ومِنها أنَّ مَلائِكَةَ الرَّحْمَةِ يَشْهَدُونَهُ فَيَقْبِضُونَ رُوحَهُ. والثّانِي: شَهِيدٌ فِي حُكْمِ الدُّنْيا فَقَطْ، وهُوَ مَن قُتِلَ فِي قِتالِ الكُفّارِ بِسَبَبِهِ، وقَدْ غَلَّ مِن الغَنِيمَةِ، أوْ قُتِلَ مُدْبِرًا، أوْ قاتَلَ رِياءً أوْ نَحْوَهُ. والثّالِثُ: شَهِيدٌ فِي حُكْمِ الآخِرَةِ فَقَطْ كالمَقْتُول ظُلْمًا مِن غَيْرِ قِتالٍ، والمَبْطُونِ إذا ماتَ بِالبَطْنِ، والمَطْعُونِ إذا ماتَ بِالطّاعُونِ، والغَرِيقِ إذا ماتَ بِالغَرَقِ، والغَرِيبِ إذا ماتَ فِي الغُرْبَةِ، وطالِبِ العِلْمِ إذا ماتَ عَلى طَلَبِهِ، أوْ ماتَ عِشْقًا أوْ بِالطَّلْقِ أوْ بِدارِ الحَرْبِ أوْ نَحْوِ ذَلِكَ (مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج ٢/٣٥ الخطيب الشربيني (ت ٩٧٧)
النجم الوهاج :٣/٧١ حاشية البجيرمي: ٢٨٠/٢ الغرر البهية : ٢/١٠١
جمعرات _15 _ستمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1107
کسی ناجائز کام کے پورے ہونے پر اگر کوئی نذر مانے تو کیا اس کام کے پورا ہونے پر نذر کا پورا کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
شریعت میں کسی بھی ناجائز یا غیر شرعی کام کے ہونے یا نہ ہونے پر نذر ماننے کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ جس طرح وہ کام ناجائز ہے اسی طرح اس کام میں کسی بھی طرح کا تعاون کرنے کی نذر ماننا اور اس نذر کا پورا کرنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔
علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولَوْ نَذَرَ فِعْلَ مُباحٍ أوْ تَرْكَهُ) كَأكْلٍ ونَوْمِ مِن كُلِّ ما اسْتَوى فِعْلُهُ وتَرْكُهُ أيْ: فِي الأصْلِ وإنْ رَجَّحَ أحَدَهُما بِنِيَّةِ عِبادَةٍ بِهِ كالأكْلِ لِلتَّقَوِّي عَلى الطّاعَةِ (لَمْ يَلْزَمْهُ) لِخَبَرِ أبِي داوُد الخ (تحفة المحتاج : ١٠/٨١)
علامہ خطیب شربینی رح فرماتے ہیں: ولا يَصِحُّ نَذْرُ مَعْصِيَةٍ)… لِحَدِيثِ( عمران بن حصين)اھ (مغني المحتاج :٦/٢٣٥)
لِأنَّ نَذْرَ المَعْصِيَةِ لَيْسَ بِنَذْرٍ شَرْعًا اهـ شَيْخُنا (حاشية الجمل: ٣٢٣/٥)
عجالة المحتاج : ٤/١٧٩٠ نهاية المحتاج : ٨/٢٢٤
اتوار _18 _ستمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1108
اگر کوئی ظہر کی نماز نہ پڑھے اور عصر کی اذان ہوجائے تو کیا وہ عصر کی اذان کے بعد ظہر کی قضا نماز پڑھ سکتا ہے یا عصر پہلے پڑھنا ہوگا؟
قضاء نماز پڑھنے میں ترتیب کا خیال رکھنا سنت ہے، اگر عصر کی اذان اور جماعت کے درمیان ظہر کی قضا نماز پڑھ سکتا ہو تو پہلے ظہر کی قضا کرے البتہ اس بات کا خیال رکھے کہ ادا نماز(عصر)وقت ختم ہونے کی بناء پر قضا نہ ہو پائے۔ اگر ادا نماز (عصر) کا وقت بہت کم باقی رہنے کی بناء پر قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو نمازوں کی ترتیب سنت نہیں ایسی صورت میں پہلے ادا نماز پڑھ لی جائے اس کے بعد قضاء نماز پڑھی جائے گی
(ويُسَنُّ تَرْتِيبُهُ) أيْ الفائِتِ فَيَقْضِي الصُّبْحَ قَبْلَ الظُّهْرِ، وهَكَذا خُرُوجًا مِن خِلافِ مَن أوْجَبَهُ (و) يُسَنُّ (تَقْدِيمُهُ عَلى الحاضِرَةِ الَّتِي لا يَخافُ فَوْتَها) مُحاكاةً لِلْأداءِ، ولِلْخُرُوجِ مِن خِلافِ مَن أوْجَبَ ذَلِكَ أيْضًا، ولِأنَّهُ – ﷺ – فاتَتْهُ صَلاةُ العَصْرِ يَوْمَ الخَنْدَقِ فَصَلّاها بَعْدَ الغُرُوبِ ثُمَّ صَلّى المَغْرِبَ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، فَإنْ لَمْ يُرَتِّبْ ولَمْ يُقَدِّمْ الفائِتَةَ جازَ؛ لِأنَّ كُلَّ واحِدَةٍ عِبادَةٌ مُسْتَقِلَّةٌ، والتَّرْتِيبُ إنّما وجَبَ فِي الأداءِ لِضَرُورَةِ الوَقْتِ، فَإنَّهُ حِينَ وجَبَ الصُّبْحُ لَمْ يَجِبْ الظُّهْرُ، فَإذا فاتَ لَمْ يَجِبْ التَّرْتِيبُ فِي قَضائِهِ كَصَوْمِ رَمَضانَ، وفِعْلُهُ – ﷺ المُجَرَّدُ إنّما يَدُلُّ عِنْدَنا عَلى الِاسْتِحْبابِ. فَإنْ خافَ فَوْتَ الحاضِرَةِ لَزِمَهُ البُداءَةُ بِها لِئَلّا تَصِيرَ فائِتَةً أيْضًا، وتَعْبِيرُهُ بِلا يَخافُ فَوْتَها صادِقٌ بِما إذا أمْكَنَهُ أنْ يُدْرِكَ رَكْعَةً مِن الحاضِرَةِ فَيُسَنُّ تَقْدِيمُ الفائِتِ عَلَيْها فِي ذَلِكَ أيْضًا، وبِهِ صَرَّحَ فِي الكِفايَةِ وهُوَ المُعْتَمَدُ كَما جَرى عَلَيْهِ شَيْخُنا فِي شَرْحِ مَنهَجِهِ، (المغني المحتاج :٢١٧/١)
نهاية المحتاج : ٣٨١/١ عجالة المحتاج : ١٦٩/١ عمدة المحتاج : ٢٨٧/٢n الديباج : ١٨٥/١
پیر _19 _ستمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1109
سنن و رواتب یا چاشت کی نماز کے ساتھ صلاة الحاجہ کی نماز ایک ساتھ الگ الگ نیت سے پڑھ سکتے یا نہیں؟
ایک ساتھ کئی سنت نمازوں کی نیت کرنا درست ہے اسی طرح سنن و رواتب یا چاشت نماز کے ساتھ صلاة الحاجة کی نیت سے بھی نماز پڑھ سکتے ہیں
امام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: تستحبّ الاستخارة بالصلاة والدعاء المذكور، وتكون الصلاة ركعتين من النافلة، والظاهر أنها تحصل بركعتين من السنن الرواتب، وبتحية المسجد وغيرها من النوافل (الاذكار: ٨٧)
علامہ سیوطی رحمة الله عليه : فَعَلى هَذا يَتَّجِه إلْحاقها بِالتَّحِيَّةِ فِي عَدَم اشْتِراط التَّعْيِين، ومِثْلها صَلاةُ الحاجَةِ (الشباه و النظائر: ۲٦)
*اسنى المطالب: ١/ ٤١٧ *حاشية الرملي: ١/ ٤١٧ مع اسنى المطالب
بدھ _21 _ستمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1110
کیا چھ یا سات سال کی عمر کا بچہ نومولود بچہ کے کان میں اذان دے سکتا ہے یا نہیں؟
بچہ عام طور پر چھ یا سات سال کی عمر میں ممیز ہوتا ہے اگر اس عمر کا بچہ ممیز ہو تو پیدا ہونے والے بچہ کے کان میں اذان اور اقامت کہہ سکتا ہے چونکہ اذان درست ہونے کے لیے بچہ کا ممیز ہونا ضروری ہے۔
قال النووى رحمة الله عليه: ويَصِحُّ أذانُ الصَّبِيِّ المُمَيِّزِ عَلى الصَّحِيحِ المَعْرُوفِ فِي المَذْهَبِ (روضة الطالبين : ۳۱۳/۱)
*الوسيط في المذهب :٢/٥٥ *فتح العزيز : ٣/١٨٩ *المجموع :٣/١٠١ *العزيز : ١/٤١٩