اتوار _16 _اکتوبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1111
اگر کسی بچہ کا بیماری کی وجہ سے ختنہ نہ کیا گیا ہو اور اب اس کی عمر ۱۵ سال یا اس سے زائد ہوچکی ہو تو کیا اس وقت بھی اس کا ختنہ کرنا ضروری ہے ؟
اگر بچہ کوکسی طرح کی بیماری یا تکلیف کا اندیشہ نہ ہو تو بچہ کی پیدائش کے ساتویں دن ختنہ کرنا مستحب ہےاور اگر کسی وجہ سے ختنہ کرنے میں تاخیر ہوجائے تو بالغ ہونے کے بعد فورا کرنا واجب ہے. البتہ اگر بیماری یا تکلیف کی وجہ سے فورا ختنہ نہیں کیا گیا ہو تو عذر زائل ہونے تک انتظار کیا جائے گا۔
قالَ أصْحابُنا وقْتُ وُجُوبِ الخِتانِ بَعْدَ البُلُوغِ لَكِنْ يستحب للولى أن يختن الصغر، في صغره لانه أرفق به. المجموع شرح المهذب:١/٣٠٢
وقت الختان:الختان كما قلنا واجب، ولكن لا يشترط أن يكون في حال الصِّغَر، بل يجوز في الصغر، والكبر. ولكن يسنّ لوليّ الطفل أن يختنه في اليوم السابع من ولادته، إن رأى الخاتن أن الطفل يطيق ذلك، ولم يكن مريضًا. (الفقه المنهجي على مذهب الإمام الشافعي:٣/٦٣)
ولا يُؤَخِّرُ عَمّا ذَكَرْناهُ مِن وقْتِ الِاسْتِحْبابِ أوْ وقْتِ الإيجابِ إلّا لِعُذْرٍ فِي الزَّمانِ مِن شِدَّةِ حَرٍّ أوْ بَرْدٍ أوْ لِعُذْرٍ في بدنه من شدة مرض يخاف عَلى نَفْسِهِ إنْ خُتِنَ، فَيُؤَخِّرُ إلى زَوالِ العذر، فلو كان نضو الخلق وعلم مِن حالِهِ أنَّهُ إنْ خُتِنَ تَلِفَ سَقَطَ فَرْضُ الخِتانِ عَنْهُ؛ لِأنَّهُ لا تَعَبُّدَ فِيما أفْضى إلى التَّلَفِ؛ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعالى: ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إلا وُسْعَها﴾ [البقرة ٢٨٦]. (الحاوي الكبير:١٣/٤٣٤)
أسنى المطالب في شرح روض الطالب:٤/١٦ التهذيب في فقه الإمام الشافعي:٧/٤٢٨
بدھ _19 _اکتوبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1112
مونچھیں رکھنے کا کیا حکم ہے اور اس کی مقدار کیا ہے؟
شریعت مطہرہ نے ہمیں مونچھے چھوٹی رکھنے اور ڈاڑھی کو بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، لمبی مونچھے رکھنے سے غیروں کی مشابہت بھی لازم آتی ہے۔ لہذا مونچھیں اتنی چھوٹی کی جائے کہ ہونٹوں پر نہ آئے
وأمّا قَصُّ الشّارِبِ فَمُتَّفَقٌ عَلى أنَّهُ سُنَّةٌ…… ثُمَّ ضابِطُ قَصِّ الشّارِبِ أنْ يَقُصَّ حَتّى يَبْدُوَ طَرَفُ الشَّفَةِ ولا يَحُفُّهُ مِن أصْلِهِ هَذا مَذْهَبُنا (المجموع:٢٢٧/٢)
فتح الرحمن – ١٥٦/١ تحفة المحتاج – ٢/٤٧٦ لعزيز – ١٢/١٢١ حاشية الجمل – ٢/٤٧
پیر _24 _اکتوبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1113
لو برڈز طوطے وغیرہ پنجرے میں بند کر کے پالنے کا شرعاً کیا حکم ہے؟
پرندوں کو پنجرے میں پالنا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ ان کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا خیال رکھ سکتے ہوں بسا اوقات پرندوں کو دوائی لگانے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، اگر ان تمام ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہو تو پھر پالنے کی اجازت ہے اگر کسی بھی طرح کی کوتاہی کا اندیشہ ہو تو نہ پالنا بہتر ہے
عن انس رض قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احسن الناس خلقا وکان لی اخ یقال لہ۔ابو عمیر ۔قال ابا عمیر مافعل النغیر ۔قال :وکان یلعب بہ۔قال النووی:النغیر ھو طائرصغیر ۔وفی ھذالحدیث فوائدکثیرۃ جدا منھا ۔۔وجواز لعب الصبی بالعصفور وتمکین الولی ایاہ من ذلک (شرح مسلم:2/210)
لیس ذلک حرج اذالم یظلم واحسن الیھا فی طعامہ وشرابہ سواء کانت ببغاء او حماما اودجاجا او غیرذلک بشرط الاحسان الیھا وعدم ظلمھا ۔وسواء کانت فی خوض اواقفاص او احواض ماء کالسمک فتح الباری :13/746 التھذیب:4/425 الفتاوی المھمۃ:942
پیر _31 _اکتوبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1114
ایسا سامان جو صرف غیر مسلموں کے تہوار کے موقع پر پوجا پاٹ وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے ان چیزوں کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟
غیروں کے تہوار میں پوجا وغیرہ میں استعمال ہونے والی چیزوں کو خود بیچنا یا کسی غیر مسلم کے ہاتھوں بیچنے کے لیے دینا شرعا جائز نہیں ہے. اس لئے کہ وہ تمام اشیاء جن سے کفار کی پوجا وغیرہ میں کسی بھی طرح کا تعاون ہو یا ان کے کفر میں اضافہ کا سبب ہوگناہ اور معصیت پر تعاون ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے،لہذا ایسی تمام چیزوں کی خرید و فروخت سے بچنا ضروری ہے.
وحرم أيضا: بيع نحو عنب ممن علم أو ظن أنه يتخذه مسكرا للشرب والأمرد ممن عرف بالفجور به والديك للمهارشة والكبش للمناطحة والحرير لرجل يلبسه وكذا بيع نحو المسك لكافر يشتري١ لتطييب الصنم والحيوان لكافر علم أنه يأكله بلا ذبح لان الأصح أن الكفار مخاطبون بفروع الشريعة كالمسلمين عندنا خلافا لأبي حنيفة رضي الله تعالى عنه فلا يجوز الإعانة عليهما ونحو ذلك من كل تصرف يفضي إلى معصية يقينا أو ظنا ومع ذلك يصح البيع. ويكره بيع ما ذكر ممن توهم منه ذلك. (فتح المعين بشرح قرة العين بمهمات الدين:١/٣٢٦)
إعانة الطالبين:٣/٣٠ حاشية الجمل على شرح المنهج :٣/٢٧ حاشية البجيرمي على شرح المنهج:٢/١٧٩
بدھ _2 _نومبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1115
غسل کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
غسل کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنا سنت ہے
فقہاء لکھتے ہیں: وقَدْ تَرَكَ مِن السُّنَنِ أشْياءَ: مِنها…. واسْتِقْبالُ القِبْلَةِ وتَكْرارُ الغُسْلِ ثَلاثًا ثَلاثًا.
وسننه كثيرة منها «الاستقبال والتسمية مقرونة بالنية وغسل الكفين» كالوضوء فيهما (المنهج القويم:١١٧)
حاشية الترمسي:٥٠/٢ الحواشي المدنية على شرح المقدمة الحضرمية:٢٧٤/١
جمعہ _4 _نومبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1116
اسکولوں کے پروگرام میں بچوں کو جانور کی شکل کا ڈریس پہنا کر مجمع کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کیا ایسا کرنا درست ہے؟
کسی بھی موقع پر انسان کے لیے اپنی شکل و صورت کو بگاڑنا درست نہیں. خواہ اسکول کا کوئی پروگرام ہو یا کوئی اور موقع ہو بہرحال بچوں کو جانوروں کی شکل کا کپڑا پہنانا جائز نہیں اس طرح کے پروگراموں میں بچوں کو شریک کروانا گویا غیر شرعی کاموں میں تعاون کرنا ہے
قال الامام الرملي رحمة الله عليه: وسَواءٌ فِي الصُّورَةِ المُحَرَّمَةِ أكانَتْ على سقف أوْ جِدار أوْ وِسادَة أوْ ستْر عُلق لزِينَة أوْ مَنفَعَة أوْ ثَوْب ملْبوس (نهاية المحتاج: ٦\٣٧٥)
قال الامام الغزالي رحمة الله عليه : ولا يجوز لبس الثِّياب وعَلَيْها صور الحَيَوان لا للرِّجال ولا للنِّساء (الوسيط:٥\٢٧٧)
فتح المعين مع إعانة الطالبين ٣\٤١١ روضة الطالبين ٧\٣٣٥ النجم الوهاج ٧\٣٨٠
پیر _7 _نومبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1117
اگر کوئی اصلی دانت کے بدلے مصنوعی دانت لگائے تو کیا فرض غسل یا وضو کے وقت اسے نکالنا ضروری ہے یا نہیں؟
فرض غسل اور وضو کے وقت مصنوعی دانت نکالنا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ منہ کے اندرونی حصہ میں پانی پہنچانا ضروری نہیں لھذا منہ کے اندورنی حصہ میں پانی پہنچائے بغیر فرض غسل یا وضو ہوجائے گا
علامہ خطیب شربینی رحمة اللہ عليه فرماتے ہیں: وخَرَجَ «بِظاهِرِ» داخِلُ الفَمِ والأنْفِ والعَيْنِ فَإنَّهُ لا يَجِبُ غَسْلُ ذَلِكَ قَطْعًا. (مغني المحتاج : ١٦٦/١)
حاشية البجيرمي على الخطيب : ١/١٤٢ حاشية الجمل : ١/٤١٤ تحفة المحتاج في شرح المنهاج : ٢/١٢۰ غاية البيان : ١/٤٣
منگل _8 _نومبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1118
قبر پر مکمل مٹی ڈالنے کے بعد سر اور پاوں کی جانب پھتر رکھنے کا کیا مسئلہ ہے؟
میت کی تدفین کے بعد میت کے سرہانہ اور پیروں کی جانب پھتر رکھنا مستحب ہے۔
أنْ يُوضَعَ (عِنْدَ رَأْسِهِ حَجَرٌ أوْ خَشَبَةٌ) أوْ نَحْوُ ذَلِكَ «؛ لِأنَّهُ ﷺ وضَعَ عِنْدَ رَأْسِ عُثْمانَ بْنِ مَظْعُونٍ صَخْرَةً وقالَ: أتَعَلَّمُ بِها قَبْرَ أخِي لِأدْفِنَ إلَيْهِ مَن ماتَ مِن أهْلِي» رَواهُ أبُو داوُد، وعَنْ الماوَرْدِيُّ اسْتِحْبابُ ذَلِكَ عِنْدَ رِجْلَيْهِ أيْضًا. (مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج :٦٦/٢)
أنْ (يُوضَعَ عِنْدَ رَأْسِهِ حَجَرٌ أوْ خَشَبَةٌ) أوْ نَحْوُ ذَلِكَ؛ لِأنَّهُ ﷺ وضَعَ عِنْدَ رَأْسِ عُثْمانَ بْنِ مَظْعُونٍ صَخْرَةً وقالَ. أتَعَلَّمُ بِها قَبْرَ أخِي لِأدْفِنَ إلَيْهِ مَن ماتَ مِن أهْلِي. وقَضِيَّتُهُ نَدْبُ عِظَمِ الحَجَرِ ومِثْلُهُ نَحْوُهُ، ووَجْهُهُ ظاهِرٌ فَإنَّ القَصْدَ بِذَلِكَ مَعْرِفَةُ قَبْرِ المَيِّتِ عَلى الدَّوامِ ولا يَثْبُتُ كَذَلِكَ إلّا العَظِيمُ، وذَكَرَ الماوَرْدِيُّ اسْتِحْبابَهُ عِنْدَ رِجْلَيْهِ أيْضًا (نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج:٣/٣٥)
بدھ _9 _نومبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1119
فاقد الطہورین شخص اذان ہوتے ہی(اول وقت میں) نماز ادا کرے گا یا آخر وقت تک پانی ملنے یا تیمم کے لیے مٹی دستیاب ہونے کا انتظار کرے گا؟
فاقد الطہورين شخص پانی یا مٹی کو تلاش کرے گا اگر دونوں (پانی یا مٹی) ملنے کی امید ختم ہوچکی ہو تو اول وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے اگر نماز قضا ہونے سے پہلے پانی یا مٹی ملنے کا یقین ہو تو آخیر وقت تک انتظار کرے گا ہاں اگر شروع ہی میں پانی نہ ملنے کا یقین ہو تو اول وقت میں نماز پڑھ سکتا ہے
قال الشيخ سليمان الجمل رحمة الله عليه: ولا يُشْتَرَطُ لِصِحَّةِ صَلاتِهِ ضِيقُ الوَقْتِ بَلْ إنّما يَمْتَنِعُ عَلَيْهِ الصَّلاةُ ما دامَ يَرْجُو أحَدَ الطَّهُورَيْنِ (حاشية الجمل:١\٢٢٩)
لا يَخْفى أنَّهُ لا بُدَّ مِن طَلَبِهِما… فَإذا طَلَبَ ولَمْ يَجِدْ واحِدًا مِنهُما فَإنْ وصَلَ إلى حَدِّ اليَأْسِ عادَةً مِن أحَدِهِما صَلّى ولَوْ أوَّلَ الوَقْتِ وإلّا لَمْ يُصَلِّ إلّا بَعْدَ ضِيقِ الوَقْتِ (حاشية الشرواني مع تحفة المحتاج: ١\٣٧٨)
حاشية البجيرمي على شرح المنهج :١\١٢٨ نهاية المحتاج: ١\٣١٨
بدھ _16 _نومبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1120
اگر کسی حاملہ عورت کے پیٹ میں جُڑواں بچے ہوں ایک بچہ چھ ماہ بعد رحم سے ساقط ہوگیا اور ایک باقی رہا اب اس عورت کو ایک بچہ رحم کے گرنے سے خون جاری ہوجائے تو وہ خون کونسا خون کہلائے گا؟حیض کا یا نفاس کا؟
اگر حاملہ عورت کے رحم میں جڑواں بچے ہوں اور ایک بچہ چھ ماہ کے بعد گر جائے اور دوسرا بچہ ماں کے پیٹ میں جب تک رہے گا اس وقت تک جو خون نکلے گا تب دیکھا جائے گا کہ اگر وہ حیض کی اقل مدت (ایک دن ایک رات )اور اکثر مدت (پندرہ دن کے اندر) میں نکلے تو وہ حیض ہوگا ورنہ وہ فاسد خون ہوگا البتہ دو بچوں کے درمیان جاری خون نفاس کا خون نہیں ہوگا۔خون فاسد (بیماری کا خون) کے نکلنے کے ایام میں چھوڑی ہوئی نمازیں اور روزوں کی قضاء لازم ہے
قال الشيخ البجيرمي رحمة الله عليه: فَما بَيْنَ التَّوْأمَيْنِ حَيْضٌ فِي وقْتِهِ ودَمٌ فَسادٌ فِي غَيْرِهِ حاشیة البجيرمي على شرح المنهج ١٣١/١
وقال الشيخ عميرة رحمة الله عليه: ولَوْ خَرَجَ بَيْنَ تَوْأمَيْنِ فَهُوَ حَيْضٌ لا نِفاسٌ. (حاشية قليوبي وعميرة: ١\١٢٤)
*روضه الطالبين :١\١٧٦ *تحفة المحتاج مع حواشي الشرواني وابن القاسم ١\٤١١ *نهاية المحتاج ١\٣٥٦