منگل _22 _نومبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1121
بن بلائے کسی کے گھر دعوت کے لیے جانا کیسا ہے؟
بن بلائے کسی کے یہاں دعوت میں شریک ہونا جائز نہیں ہے البتہ اگر گھر کا مالک اس کی شرکت سے راضی ہونے یا خوش ہونے کا یقین ہو یا اس میں شریک ہونے سے دعوت دینے والے کی رضامندی کا علم ہو تو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز دعوت دینے والے سے اجازت لے کر کسی تیسرے شخص کو (جس کو دعوت نہیں تھی) دعوت میں شریک کرنا یہ بھی جائز ہے۔ اسی طرح کسی کے یہاں عمومی دعوت ہو یعنی یہ اعلان ہو کہ ہر کوئی شریک ہو سکتا ہو تو دعوت نہ ملنے پر بھی شریک ہوسکتا ہے کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن کسی نے مخصوص دعوت کی ہوتو اس طرح کی دعوتوں میں بغیر دعوت کے بغیر بلائے جانا جائز نہیں ہے حرام ہے.
ويَحْرُمُ التَّطَفُّلُ، وهُوَ حُضُورُ الوَلِيمَةِ مِن غَيْرِ دَعْوَةٍ إلّا إذا عَلِمَ رِضا المالِكِ بِهِ لِما بَيْنَهُما مِن الأُنْسِ والِانْبِساطِ، وقَيَّدَ ذَلِكَ الإمامُ بِالدَّعْوَةِ الخاصَّةِ، أمّا العامَّةُ كَأنْ فَتَحَ البابَ لِيَدْخُلَ مَن شاءَ فَلا تَطَفُّلَ. (مغني المحتاج: ٥٠٤/٤)
يَحْرُمُ التَّطَفُّلُ وهُوَ الدُّخُولُ إلى مَحَلِّ الغَيْرِ لِتَناوُلِ طَعامِهِ بِغَيْرِ إذْنِهِ ولا عِلْمِ رِضاهُ أوْ ظَنِّهِ بِقَرِينَةٍ مُعْتَبَرَةٍ. (حواشي الشرواني والعبادي: ٤٧٢/٩)
صحیح مسلم: ٢٠٣٦ فتح الرحمن: ٧٧٠ روضة الطالبين: ١٣٠١
بدھ _23 _نومبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1122
اگر کوئی حاملہ عورت طہارت کے بعد موزے پہن کر موزوں پر مسح کیا ہو اس دوران اگر بچہ پیدا ہوجائے تو کیا اس کا موزوں پر کیا ہوا مسح باقی رہے گا یا نہیں؟
حاملہ عورت اگر موزے پہن کر مسح کرے اور اس دوران بچہ پیدا ہوجائے تو بچہ پیدا ہوتے ہی موزے پر کیا ہوا مسح ٹوٹ جائے گا
قال الشيخ الدميري رحمة الله عليه: قال: فإن أجنب.. وجب تجديد لبس، وكذا إذا حاضت أو نفست أو ولدت (النجم الوهاج: ١\٣٧٢)
نهاية المحتاج: ١\٢٠٨ فتح الوهاب :١\٢١ مغنى المحتاج ١\٢١١ تحفة المحتاج مع حواشي الشرواني ١\٢٥٥
جمعہ _2 _دسمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1123
*عورت کے سر کے بالوں کے مسح کرنے کی حد کیا ہے؟ کیا چوٹی کے اوپری حصہ یا نیچے والے حصے پر مسح کرنے سے فرض ادا ہوجائے گا یا نہیں؟*
*عورتوں کے لیے بھی سر کے کسی بھی حصہ کا مسح کرنا فرض ہے جس طرح مردوں کو حکم ہے. اگرچہ ایک بال یا ایک بال کا کچھ حصہ ہی کیوں نہ ہو ہاں اتنا ضرور ہے کہ مسح کرتے وقت بال کا سر کی حد میں رہنا ضروری ہے۔ اور سر کی حد سے باہر نکلے ہوئے بالوں پر صرف سر کی چوٹی پر فرض مسح کرے تو کافی نہیں ہوگا.*
*وشَرْطُ الشَّعْرِ المَمْسُوحِ، أنْ لا يَخْرُجَ عَنْ حَدِّ الرَّأْسِ لَوْ مُدَّ، سَبْطًا كانَ أوْ جَعْدًا، ولا يَضُرُّ مُجاوَزَتُهُ مَنبَتَهُ عَلى الصَّحِيحِ*. (روضة الطالبين :٢٥)
*قَوْلُهُ: (فَلَوْ خَرَجَ بِهِ) أيْ بِالمَدِّ عَنْهُ أيْ عَنْ حَدِّ الرَّأْسِ مِنها أيْ مِن جِهَةِ نُزُولِهِ: قَوْلُهُ: (لَمْ يَكْفِ) إنْ مَسَحَ عَلى القَدْرِ الخارِجِ؛ لِأنَّهُ لا يُسَمّى رَأْسًا ويَكْفِي عَلى بَقِيَّتِهِ الدّاخِلَةِ اهـ. ق ل.*. (حاشية البجيرمي على الخطيب:١/١٥١)
*والمَرْأةُ كالرَّجُلِ فِي المَسْحِ.* روضة الطالبين وعمدة المفتين:٢٥)
*إحْداها المَرْأةُ كالرَّجُلِ فِي صِفَةِ مَسْحِ الرَّأْسِ عَلى ما سَبَقَ نَصَّ عَلَيْهِ الشّافِعِيُّ فِي البُوَيْطِيِّ.* المجموع شرح المهذب:٣٢٨/٢
*مَسْحِ رَأْسِها ومَسْحِ ذَوائِبِها المُسْتَرْسِلَةِ تَبَعًا وألْحَقَ غَيْرُهُ ذَوائِب الرَّجُلِ بِذَوائِبِها فِي ذَلِكَ لَكِنْ جَزَمَ فِي المَجْمُوعِ بِعَدَمِ اسْتِحْبابِ مَسْحِ الذَّوائِبِ نِهايَةٍ أيْ مِن الرَّجُلِ والمَرْأةِ قالَ سم عَلى حَجّ أنَّ هَذا أيْ ما فِي المَجْمُوعِ عُرِضَ عَلى م ر بَعْدَ كَلامِ القَفّالِ فَرَجَعَ إلَيْهِ ع ش وفِي الكُرْدِيِّ إنّ الإمْدادَ أقَرَّ إفْتاءَ القَفّالِ وما أُلْحِقَ بِهِ وزادَ الإيعابُ، وإنْ خَرَجَ عَنْ حَدِّ الرَّأْسِ بِحَيْثُ لا يُجْزِئُ مَسْحُهُ اهـ واعْتَمَدَهُ شَيْخُنا فَقالَ ويُسَنُّ مَسْحُ الذَّوائِبِ المُسْتَرْسِلَةِ، وإنْ جاوَزَتْ حَدَّ الرَّأْسِ اهـ.*
حواشي الشرواني و ابن القاسم العبادي على تحفة المحتاج :(٣٨١/١)
إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين :١/٨١ كفاية الأخيار :٣٥ حواشي الشرواني و ابن القاسم العبادي على تحفة المحتاج :٣٤٢/١ العزيز شرح الوجيز:١/١١٣
پیر _5 _دسمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1124
تجارت کے غرض سے مسافت قصر سے دور جانے پر قصر کرنا کیسا ہے، اور تجارت کی جگہ پر زیادہ دن رہنے کے بعد اس جگہ سے سفر کرنے پر قصر کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
قصر کے لیے مسافت تقریباً ٨٠ کلو میٹر سے زائد کا سفر ہونا ضروری ہے. اگر کوئی تجارت کی غرض سے کسی جگہ کا سفر کرے، اور وہاں پہنچنے کے بعد سے نکلنے کے دن کے علاوہ چار دن سے زائد مقیم ہونے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لیے قصر نہیں بلکہ اتمام کرنا ضروری ہے. لہٰذا کسی جگہ تجارت کے غرض سے مقیم ہوجائے، اور ایک مدت تک وہاں رہے تو وہ مقیم کے حکم میں ہوگا اور وہ إتمام کرے گا۔ اگر وہ وہاں سے مزید کسی جگہ مسافت قصر سے کم سفر کرتا ہے تو اس کے لئے قصر کی گنجائش نہیں ہوگی، ہاں اگر مسافت قصر کے بقدر سفر ہو تو قصر و اتمام کی گنجائش ہوگی اس لئے کہ اسے ایک مستقل سفر مانا جائے گا۔ البتہ سفر کا مباح ہونا ضروری ہے
ولَوْ نَوى) المُسافِرُ المُسْتَقِلُّ ولَوْ مُحارِبًا (إقامَةَ أرْبَعَةِ أيّامٍ) تامَّةٍ بِلَيالِيِها أوْ نَوى الإقامَةَ وأطْلَقَ (بِمَوْضِعٍ) عَيَّنَهُ صالِحٌ لِلْإقامَةِ، وكَذا غَيْرُ صالِحٍ كَمَفازَةٍ عَلى الأصَحِّ (انْقَطَعَ سَفَرُهُ بِوُصُولِهِ) أيْ بِوُصُولِ ذَلِكَ المَوْضِعِ، سَواءٌ أكانَ مَقْصُودُهُ أمْ فِي طَرِيقِهِ أوْ نَوى بِمَوْضِعٍ وصَلَ إلَيْهِ إقامَةَ أرْبَعَةِ أيّامٍ انْقَطَعَ سَفَرُهُ بِالنِّيَّةِ مَعَ مُكْثِهِ إنْ كانَ مُسْتَقِلًّا. (مغني المحتاج : ٤٥٣/١)
المهذب في فقة الإمام الشافعي :١/١٩٥ التهذيب في فقه الإمام الشافعي:٢/٣٠٤ بداية المحتاج في شرح المنهاج :١/٣٥٩ عجالة المحتاج إلى توجيه المنهاج:١/٣٤٥
منگل _6 _دسمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1125
شادی یا کسی پروگرام کے دعوت نامہ پر قرآن کی آیت یا صرف بسم اللہ لکھا ہوا ہو تو اسے غیر مسلم کو دینے کا کیا مسئلہ ہے؟
قرآن مجید ایک مقدس کتاب ہے جس کا احترام کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے جس طرح مکمل کتاب کا احترام ضروری ہے ایسے ہی اس کے ہر جزو اور حصہ کا احترام کرنا بھی ضروری ہے اگر قرآنی آیت دعوت نامہ وغیرہ پر لکھا ہو اور کسی غیر مسلم کو دینے سے بےحرمتی کا اندیشہ ہو تو نہیں دینا چاہیے، اگر بے حرمتی کا اندیشہ نہ ہو تو دے سکتے ہیں غیر مسلم کو مکمل مصحف دینے کے سلسلہ میں جو ممانعت آئی ہے وہ بےحرمتی کے خدشہ کی بناء پر ہے ورنہ عام حالات میں دعوت نامہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔
علامہ دمیری رحمة الله عليه فرماتے ہیں: وكذلك الحكم في كتب الفقه، والثوب المطرز بآيات من القرآن، والحيطان المنقوشة به؛ لأنه لا يصدق عليها اسم المصحف.(۱)
علامہ عملی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: لِأنَّهُ لا يُقْصَدُ بِإثْباتِ القُرْآنِ فِيها قِراءَةٌ فَلا تَجْرِي عَلَيْها أحْكامُ القُرْآنِ ولِهَذا يَجُوزُ هَدْمُ جِدارٍ وأكْلُ طَعامٍ نُقِشَ عَلَيْها ذَلِكَ والثّانِي يَحْرُمُ لِإخْلالِهِ بِالتَّعْظِيمِ (۲)
والرَّسائِل الَّتِي فِيها قُرْآنٌ. فَأجازَ المالِكِيَّةُ والشّافِعِيَّةُ والحَنابِلَةُ وبَعْضُ فُقَهاءِ الحَنَفِيَّةِ وهُوَ الأْصَحُّ عِنْدَ أبِي حَنِيفَةَ لِغَيْرِ المُتَطَهِّرِ أنْ يَمَسَّها ويَحْمِلَها ولَوْ كانَ فِيها آياتٌ مِنَ القُرْآنِ، بِدَلِيل: أنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَتَبَ إلى هِرَقْل كِتابًا وفِيهِ آيَةٌ ولأِنَّهُ لاَ يَقَعُ عَلى مِثْل ذَلِكَ اسْمُ مُصْحَفٍ ولاَ تَثْبُتُ لَها حُرْمَتُهُ.(۳)
علامہ خطیب شربینی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:ان النبيّ ﷺ كتب إلى هرقل كتابًا فيه قرآن، وهرقل محدث يمسه هو وأصحابه،(٤) (١) النجم الوهاج : ١/٢٨٠ (٢)نهاية المحتاج : ١/١٢٦ (٣)الموسوعة الفقهية: ٣٤/١٨٣ (٤) السراج المنير: ٤/١٩٦
منگل _6 _دسمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1126
میت کو قبر میں اتارنے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور کونسی دعا پڑھنا چاہیے؟
میت کو سر کی جانب سے اٹھاتے ہوئے پہلے پاوں قبر میں اتارنا چاہیے اور اتارتے وقت یہ دعا پڑھنا سنت ہے۔ "بسم الله وبالله وعلى ملَّة رسول الله”
(ويُسَلُّ) المَيِّتُ (مِن قِبَلِ رَأْسِهِ) سَلًّا (بِرِفْقٍ) لا بِعُنْفٍ لِما رَواهُ أبُو داوُد بِإسْنادٍ صَحِيحٍ أنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ الخِطْمِيَّ الصَّحابِيَّ – رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْهُ – «صَلّى عَلى جِنازَةِ الحَرْبِ، ثُمَّ أدْخَلَهُ القَبْرَ مِن قِبَلِ رِجْلِ القَبْرِ، وقالَ هَذا مِن السُّنَّةِ»، وقَوْلُ الصَّحابِيِّ مِن السُّنَّةِ كَذا، حُكْمُهُ حُكْمُ المَرْفُوعِ، ولِما رَواهُ الشّافِعِيُّ – ﵀ تَعالى – بِإسْنادٍ صَحِيحٍ «أنَّ النَّبِيَّ – ﷺ – سُلَّ مِن قِبَلِ رَأْسِهِ سَلًّا». (مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج :٤٤/٢)
(و)يُنْدَبُ (أنْ يَقُولَ) الَّذِي يُدْخِلُهُ القَبْرَ (بِسْمِ اللَّهِ وعَلى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ – ﷺ -) لِلِاتِّباعِ كَما رَواهُ التِّرْمِذِيُّ وصَحَّحَهُ ابْنُ حِبّانَ والحاكِمُ، وفِي رِوايَةٍ سُنَّةِ بَدَلَ مِلَّةِ، ويُسَنُّ أنْ يَزِيدَ مِن الدُّعاءِ ما يُناسِبُ الحالَ
(٥) :ثم يسلُّ من قبل رأسه إذا أمكن؛ لما روي عن ابن عباس؛ قال: سُلَّ رسول الله- ﷺ- من قبل رأسه. وأول ما يدخل القبر رأسه. وقال أبو حنيفة: توضع الجنازة على عُرض القبر مما يلي القِبلة ويقول من يدخله القبر؛ ما رُوي عن ابن عمر؛ أن النبي-ﷺ- كان إذا أدخل الميت القبر قال: «بسم الله وبالله وعلى ملَّة رسول الله»، وفي رواية: «على سُنَّة رسول الله (التهذيب في فقه الإمام الشافعي:٢/٤٤٣)
المجموع شرح المهذب:٢٩٢/٥ المهذب في فقة الإمام الشافعي للشيرازي: ١/٢٥٥
منگل _6 _دسمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1127
قرآن کی تلاوت میں مصروف شخص کے لئے اپنی تلاوت کو روک کر سلام کرنے کا کیا مسئلہ ہے؟
تلاوت میں مصروف شخص تلاوت کے دوران پاس سے گزرنے والے کو اپنی تلاوت روک کر سلام کرسکتا ہے البتہ جب دوبارہ تلاوت شروع کرے تو بہتر یہ ہے کہ تعوذ پڑھ کر شروع کرے۔
اذا مَرَّ القارِئُ عَلى قَوْمٍ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ وعادَ إلى القِراءَةِ فَإنْ أعادَ التَّعَوُّذَ كانَ حَسَنًا ويُسْتَحَبُّ لِمَن مَرَّ عَلى القارِئِ أنْ يُسَلِّمَ عَلَيْهِ (المجموع: ٢/١٦٧)
ويَلْزَمُ القارِئَ رَدُّ السَّلامِ بِاللَّفْظِ (روضة الطالبين :١٠/٢٣٢)
الغرر البهية: ٥/١٣١ تحرير الفتاوى:٣/٢٨٩ أسنى المطالب :٤/١٨٣
بدھ _7 _دسمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1128
اگر کوئی نماز پڑھتے ہوئے گر جائے تو اس نماز کا کیا مسئلہ ہے؟کیا نماز ہوجائے گی یا دوبارہ پڑھنا ہوگا؟
نماز میں قبلہ رخ ہونا شرط ہے، اگر کوئی نماز کے دوران گرجائے یا سواری پر نماز کے دوران سواری کے حرکت سے سینہ قبلہ سے ہٹ جائے پھر گرنے والا فورا اٹھ جائے اور سینہ قبلہ رخ کرے تو نماز پر کوئی فرق نہیں پڑھے گا یعنی نماز درست ہوجائے گی البتہ اخیر میں سجدہ سہو کرنا ہوگا۔ ہاں اگر گرنے سے سینہ قبلہ سے ہٹ جائے اور فورا اٹھنا ممکن نہ ہو یا سواری پر نماز ادا کرنے والا اپنا رخ قبلہ کی طرف نہ کرے تو پھر نماز فاسد ہوجائے گی.
إذا انْحَرَفَ ناسِيًا أوْ جاهِلًا، أوْ لِغَلَبَةِ الدّابَّةِ فَلا بُطْلانَ إنْ عادَ عَنْ قُرْبٍ (تحفة المحتاج: ١/٤٩١)
ولو انحرف عن صوب طريقه لا إلى القبلة.. بطلت صلاته إن علم وتعمد واختار، وإلاَّ بأن انحرف جاهلًا أو ناسيًا أو لغلبة دابته.. فلا إن عاد عن قرب، ويسجد للسهو إلا في النسيان عند (حج)، فهو مستثنا من قاعدة: (ما أبطل عمده يسجد لسهوه) (شرح المقدمة الحضرمية :١/٢٦٧)
روضة الطالبين:٢/٦٠ *حاشية الشبراملسي مع نهاية ١/٤٤٨
جمعرات _8 _دسمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1129
عقیقہ میں جانور ذبح کرنے کے بجائے اس رقم کو کسی ضرورت مند کو دینے کا کیا مسئلہ ہے؟
عقیقہ میں اصل جانور ذبح مقصود ہے اسی وجہ سے عقیقہ میں جانور کو ذبح کرنا سنت اور افضل عمل ہے. ہاں اگر کوئی شخص جانور ذبح کرنے کے بجائے کسی سخت ضرورت کی بنا پر وہ رقم کسی فقیر یا مسکین کو بطور صدقہ دینا چاہیے تو دے سکتا ہے. لیکن اس طرح قیمت صدقہ کرنے سے عقیقہ کی سنت ادا نہیں ہوگی
وقال الامام النووي رحمة الله عليه : فِعْلُ العَقِيقَةِ أفْضَلُ مِن التَّصَدُّقِ بِثَمَنِها عِنْدَنا (المجموع: ٨/٤٣٣)
النجم الوهاج:٥٢٧/٩ تحفة المحتاج :٣٦٩/٩ حاشية الجمل: ٥/٢٦٤ نهاية المحتاج :٨/١٤٥
جمعہ _9 _دسمبر _2022AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1130
کیا والدین اپنی اولاد کو استطاعت کے باوجود فرض یا نفل حج و عمرہ سے روک سکتے ہیں؟
اگر کوئی فرض حج و عمرہ کی استطاعت رکھتا ہو اور تمام شرائط پائے جاتے ہوں اور تاخیر کی صورت میں فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو فرض حج و عمرہ کے لیے والدین منع نہیں کرسکتے، ہاں اگر سنت حج یا عمرہ ہو تو والدین اپنی اولاد کو روک سکتے ہیں۔
فمنها حَجَّةُ الإسْلاَم إذا وجبت على الابْنِ؛ لاجتماع شَرائِطِ الاستطاعة فليس لَهُما المنعُ منها؛ لأنها فرضُ عَيْنٍ، وفي التأخير خطر الفوات (العزيز: ١١/٣٦٠)
ويجوز للأبوين منع الولد غير المكي من الإحرام بتطوع حج أو عمرة دون الفرض (المقدمة الحضرمية: ١/١٥٨)
المجموع – ٨/٣٤٧ المهذب – ١/٤٢٨ المنهاج القويم – ١/٣٠٣