منگل _7 _مارچ _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1151
اندھیرے میں نماز پڑھنا کا کیا حکم ہے؟
اندھیرے میں نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے شرط یہ ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھتے وقت مکمل قبلہ کی سمت ہو کر نماز پڑھ رہا ہو ہاں اگر قبلہ رخ ہونے میں شک ہوجائے تو اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہوگا
فإن أداء الصلاة في المكان المظلم لا حرج فيه وهو أمر جائز. (فتاوى الشبكة الإسلامية: ١١\١٢٢٣٣)
امام الشافعي فرماتے ہیں: وصَلّى فِي ظُلْمَةٍ واجْتَهَدَ فِي اسْتِقْبالِ القِبْلَةِ فَعَلِمَ أنَّهُ أخْطَأ اسْتِقْبالَها لَمْ يُجْزِهِ إلّا أنْ يُعِيدَ الصَّلاةَ (كتاب الأم: ١/١١٤)
قد يقال بكراهة الصلاة في مكان مظلم إذا كان المصلي يخاف من الظلام ويتشوش ذهنه، كما قد يقال باستحبابها إذا كانت الصلاة في الظلام أدعى للخشوع والبعد عن النظر إلى ما يلهي (اسلام ويب ؛ رقم الفتوى: ١٥٥٥٠٩)
إعانة الطالبين:١/٢١٤
جمعرات _9 _مارچ _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1152
اندھیرے میں نماز پڑھتے وقت کیا سجدہ کی جگہ دیکھنا ضروری ہے یا نہیں؟
اندھیرے میں نماز پڑھتے وقت بھی اپنے آنکھوں کو سجدہ کی جگہ پر رکھنا سنت ہے چونکہ نماز میں سجدہ کی جگہ پر دیکھنا خشوع کا سبب ہے
في شرح المقدمة الحضرمية: يسن أيضًا للمصلي (نظر موضع السجود) أي: سجوده في جميع صلاته ولو صلاة جنازة، والأعمى ومن في ظلمة تكون حالتهما كحالة الناظر لمحل سجوده؛ لأنه أقرب إلى الخشوع.. (شرح المقدمة الحضرمية: ١/٢١٨)
اتوار _12 _مارچ _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1153
*نفل نماز پڑھتے وقت اگر والدین پکارے تو انہیں جواب دینے کا کیا حکم ہے؟*
*اگر کوئی نفل نماز پڑھ رہا ہو اور والدین میں سے کوئی اسے پکارے تو نماز کی حالت میں جواب دینا واجب ہے، البتہ جواب دینے سے نماز باطل ہوجائے گی، فرض نماز پڑھ رہا ہو تو جواب دینا حرام ہے*
*امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: فِيهِ قِصَّةُ جُرَيْجٍ وأنَّهُ آثَرَ الصَّلاةَ عَلى إجابَتِها فَدَعَتْ عَلَيْهِ فاسْتَجابَ اللَّهُ لَها قالَ العُلَماءُ هَذا دَلِيلٌ عَلى أنَّهُ كانَ الصَّوابُ فِي حَقِّهِ إجابَتَها لِأنَّهُ كانَ فِي صَلاةِ نَفْلٍ والِاسْتِمْرارُ فِيها تَطَوُّعٌ لا واجِبٌ وإجابَةُ الأُمِّ وبِرُّها واجِبٌ وعُقُوقُها حَرامٌ.* (شرح النووي على المسلم: ١٦ / ١٠٥)
*علامہ سلیمان الجمل رحمة اللہ عليه فرماتے ہیں: إجابَةِ أحَدِ الوالِدَيْنِ وإنْ شَقَّ عَدَمُ إجابَتِهِ فَإنَّها لا تَجِبُ حِينَئِذٍ بَلْ تَحْرُمُ فِي الفَرْضِ ويَبْطُلُ بِها وتَجُوزُ فِي النَّفْلِ ويَبْطُلُ بِها والإجابَةُ فِيهِ أوْلى إنْ شَقَّ وغَيْرُهُ مِن الأنْبِياءِ كَسَيِّدِنا عِيسى تَجِبُ إجابَتُهُ وتَبْطُلُ بِها الصَّلاةُ.* (حاشية الجمل: ١/٤٢٧)
*علامہ رویانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں: لو ناداه الوالد أو الوالدة وهو في الصلاة، قيل فيه وجهان: أحدهما: يلزمه الإجابة وتبطل صلاته إذا أجاب، والثاني: تلزمه الإجابة ولا تبطل صلاته بها، وفيه وجه ثالث لا تلزمه الإجابة أصلًا، وهذا هو أصح عندي* (بحر المذهب للروياني ٢/٣٠٦)
منگل _9 _مئی _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1154
ایک مرتبہ عمرہ سے فراغت کے بعد اگر کوئی شخص حدود حرم سے باہر کسی کام یا تفریح یا تاریخی مقامات کی زیارت کے لیے جائے تو کیا انہیں واپسی میں عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کرنا ضروری ہے؟ چونکہ ان دنوں سعودی حکومت کی طرف سے ایک عمرہ کرنے کے بعد دوسرا عمرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے؟
جو لوگ حدود حرم میں عمر ہ یا حج کے نیت سے داخل ہوتے ہیں ان کے لیے میقات سے احرام باندھ کر حدود حرم میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی ایک مرتبہ مکمل عمرہ کرنے کے بعد کسی وجہ سے حدود حرم سے باہر نکلیں اور واپس حدود حرم میں داخل ہوتے وقت دوبارہ عمرہ کا ارادہ نہ ہو تو احرام باندھنا ضروری نہیں ہے البتہ مستحب یہ ہے کہ دوبارہ حدود حرم میں داخل ہوتے وقت احرام کے ساتھ داخل ہوں۔ چونکہ اس وقت سعودی حکومت کی طرف سے دوبارہ عمرہ کی اجازت نہیں ہے تو بغیر احرام کے ہی چلے جائیں اور دیگر عبادات میں مصروف رہیں۔
(ﻭﻣﻦ ﻗﺼﺪ ﻣﻜﺔ) ﺃﻭ اﻟﺤﺮﻡ ﻭﻟﻮ ﻣﻜﻴﺎ ﺃﻭ ﻋﺒﺪا ﺃﻭ ﺃﻧﺜﻰ ﻟﻢ ﻳﺄﺫﻥ ﻟﻬﻤﺎ ﺳﻴﺪ ﺃﻭ ﺯﻭﺝ ﻓﻲ ﺩﺧﻮﻝ اﻟﺤﺮﻡ، ﺇﺫ اﻟﺤﺮﻣﺔ ﻣﻦ ﺟﻬﺔ ﻻ ﺗﻨﺎﻓﻲ اﻟﻨﺪﺏ ﻣﻦ ﺟﻬﺔ ﺃﺧﺮﻯ (ﻻ ﻟﻨﺴﻚ) ﺑﻞ ﻟﻨﺤﻮ ﺯﻳﺎﺭﺓ ﺃﻭ ﺗﺠﺎﺭﺓ (اﺳﺘﺤﺐ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺤﺮﻡ ﺑﺤﺞ) ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﺃﺷﻬﺮﻩ ﻭﻳﻤﻜﻨﻪ ﺇﺩﺭاﻛﻪ (ﺃﻭ ﻋﻤﺮﺓ) ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻓﻲ ﺃﺷﻬﺮﻩ ﻛﺘﺤﻴﺔ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻟﺪاﺧﻠﻪ ﻭﻳﻜﺮﻩ ﺗﺮﻛﻪ ﻟﻠﺨﻼﻑ ﻓﻲ ﻭﺟﻮﺑﻪ (نهاية المحتاج مع حاشيته: ٣/ ٢٧٧)
(ﻭﻣﻦ ﻗﺼﺪ اﻟﺤﺮﻡ) ﻫﻮ ﺃﻋﻢ ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ ﻣﻜﺔ (ﻻ ﻟﻨﺴﻚ) ﺑﻞ ﻟﻨﺤﻮ ﺯﻳﺎﺭﺓ ﺃﻭ ﺗﺠﺎﺭﺓ (ﺳﻦ) ﻟﻪ (ﺇﺣﺮاﻡ ﺑﻪ) ﺃﻱ ﺑﻨﺴﻚ ﻛﺘﺤﻴﺔ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻟﺪاﺧﻠﻪ ﺳﻮاء ﺃﺗﻜﺮﺭ ﺩﺧﻮﻟﻪ ﻛﺤﻄﺎﺏ ﺃﻡ ﻻ ﻛﺮﺳﻮﻝ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﻤﺠﻤﻮﻉ ﻭﻳﻜﺮﻩ ﺗﺮﻛﻪ. (شرح المنهج مع حاشية الجمل: ٢/ ٤٢٦)
منگل _14 _مارچ _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر/ 1155
*عورت کی میت اور کفن میں خوشبو لگانے کا کیا حکم ہے؟*
*عورت کی میت اور اس کے کفن کو خوشبو لگانا جائز ہے، اگرچہ عورت کا انتقال عدت وفات میں ہوا ہو، چونکہ موت کی وجہ سے عدت وفات میں خوشبو کے استعمال کی ممانعت کا حکم باقی نہیں رہتا.*
*قال الامام النووي الجاوي رحمة الله عليه: وينْدب تبخير الكَفَن ثَلاثًا بِعُود إذا كانَ لغير محرم ولَو محدة لِلْأمْرِ* (نهاية الزين ١\١٥٢)
*قال الامام البغوي رحمة الله عليه: وإذا ماتت المعتدة الحادة، هل يجوز تطييبها؟ ففيه وجهان… والثاني: يجوز؛ لأن التحريم في حال الحياة كان لإظهار التفجُّع على فراق الزوج، وقد زال ذلك؛ بخلاف المحرم؛ فإن التحريم في حقه كان لحقِّ الله تعالى وذلك لا يزول.* (التهذيب:٢\٤١٣)
*قال الامام النووي رحمة الله عليه: وأمّا إذا ماتَتْ مُعْتَدَّةٌ مُحِدَّةٌ فَهَلْ يَحْرُمُ تَطْيِيبُها فِيهِ وجْهانِ … والثّانِي وهُوَ الصَّحِيحُ بِاتِّفاقِ الأصْحابِ لا يَحْرُمُ قالَ المُتَوَلِّي هُوَ قَوْلُ عامَّةِ اصحابنا.* (المجموع:ه\٢٠٩)
العزيز:٢\٤٠٧
جمعرات _30 _مارچ _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1156
غیر مسلم کا پیسہ مسجد کے کسی بھی کام کے لیے استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟
*تعمیر مساجد و مدارس اور اسی طر دینی جلسوں وغیرہ کے لیے غیر مسلم اگر بلا مطالبہ چندہ دیں تو اس کا لینا جائز ہے، البتہ اگر کسی بھی طرح سے فتنہ یا فساد خدشہ ہو تو نہ لینا بہتر ہے۔*
*علامہ بجیرمی رحمة اللہ عليه فرماتے ہیں:(وهَذا) أيْ الوَقْفُ… (فَيَصِحُّ مِن كافِرٍ) ولَوْ لِمَسْجِدٍ وإنْ لَمْ يَعْتَقِدْ أنَّهُ قُرْبَةٌ اعْتِبارًا بِاعْتِقادِنا.* (حاشية البجيرمي على الخطيب: ج ٣ / ٢٤٣)
*علامہ خطیب شربینی رحمة اللہ عليه فرماتے ہیں:(وتَصِحُّ) الوَصِيَّةُ مِن كُلِّ مُسْلِمٍ أوْ كافِرٍ (لِعِمارَةِ) أوْ مَصالِحِ (مَسْجِدٍ) إنْشاءً وتَرْمِيمًا؛ لِأنَّهُ قُرْبَةٌ، وفِي مَعْنى المَسْجِدِ المَدْرَسَةُ والرِّباطُ المُسَبَّلُ والخانْقاهْ.*. (مغني المحتاج: ج ٤ / ٧٢)
*ويجوز للْمُسلمِ والذِّمِّيّ الوَصِيَّةُ لعمارة المَسْجِد الأقْصى وغَيرِه من المَساجِد.*. (كفاية الاخيار : ٣٤٣)
اتوار _14 _مئی _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1157
امام نماز کے لیے کب کھڑا ہوگا اقامت سے پہلے یا اقامت کے دوران؟
امام کو چاہیے کہ مؤذن جب اقامت مکمل کرے اس کے بعد امام نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہوجائے
فالإمام والمأموم يقومون إذا فرغ المؤذن من الإقامة. وبه قال مالٌك وأحمد وإسحق وأبو يوسف رحمهم الله، وعلى هذا أهل الحرمين، ثم يقول: استووا. (بحر المذهب للروياني ٢/١٦)
ولا يقوم حتى يفرغ المؤذن من الإقامة)؛ لأنه ما لم يفرغ منها لم يحضر وقت الدخول في الصلاة، ويكون مشتغلًا بجوابه، ولو أسقط لفظ (المؤذن) … لكان أحسن، لكنه جرى على الغالب. (النجم الوهاج في شرح المنهاج ٢/٣٨٤)
ولاَ يَقُومُ حَتّى يَفْرُغَ المُؤَذِّنُ مِنَ الإقامَةِ، أي وإن كان شيخًا؛ لأن الإقامة بجملتها إعلام، وإنما يثبت حكمها في الإجابة إلى المدعو بعد التمام؛ لأنه قبل التمام مشغول بالإجابة. (عجالة المحتاج إلى توجيه المنهاج ١/٣٣٢)
بدھ _29 _مارچ _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1158
کیا ناف میں تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
ناف میں تیل ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، اس لیے کہ ناف منفذ مفتوح میں سے نہیں ہے. اور روزہ ٹوٹنے کے لیے منافذ مفتوحہ میں سے کسی چیز کا پیٹ تک پہنچنا ضروری ہے.
فقہاء کرام فرماتے ہیں: وشَرْطُ الواصِلِ كَوْنُهُ مِن مَنفَذٍ) بِفَتْحِ الفاءِ كَما ضَبَطَهُ المُصَنِّفُ كالمَدْخَلِ والمَخْرَجِ (مَفْتُوحٌ فَلا يَضُرُّ وُصُولُ الدُّهْنِ) إلى الجَوْفِ (بِتَشَرُّبِ المَسامِّ) وهِيَ ثُقَبُ البَدَنِ كَما قالَهُ الجَوْهَرِيُّ، وهِيَ جَمْعُ سَمٍّ بِتَثْلِيثِ السِّينِ، والفَتْحُ أفْصَحُ كَما لَوْ طَلى رَأْسَهُ أوْ بَطْنَهُ بِهِ كَما لا يَضُرُّ اغْتِسالُهُ بِالماءِ البارِدِ وإنْ وجَدَ لَهُ أثَرًا بِباطِنِهِ بِجامِعِ أنَّ الواصِلَ إلَيْهِ لَيْسَ مِن مَنفَذٍ (مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج:٢/١٥٦)
(وما) أيْ ولا بِما (تَشَرَّبَتْهُ المَسامُّ) بِتَشْدِيدِ المِيمِ ثُقُبُ البَدَنِ جَمْعُ سَمٍّ بِتَثْلِيثِ السِّينِ والفَتْحُ أفْصَحُ وذَلِكَ فِيما إذا دَهَنَ بِدُهْنٍ فَلا يُفْطِرُ بِهِ (وإنْ وصَلَ إلى الجَوْفِ) لِأنَّهُ لَمْ يَصِلْ فِي مَنفَذٍ مَفْتُوحٍ فَأشْبَهَ الِانْغِماسَ فِي الماءِ وإنْ وجَدا أثَرَهُ فِي باطِنِهِ.
أسنى المطالب في شرح روض الطالب:١/٤١٦ تحفة المحتاج في شرح المنهاج مع حواشي الشرواني والعبادي:٣/٤٠٣ بداية المحتاج في شرح المنهاج:١/٥٦٤ حاشية البجيرمي على شرح المنهج :٢/٧٣
جمعہ _31 _مارچ _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1159
زکات فرض ہونے کے بعد جلدی نکالنا ضروری ہے یا تاخیر کرنے کی گنجائش ہے؟
اگر کسی شخص پر زکات فرض ہو چکی ہو اور وہ زکات نکالنے پر قادر ہو تو اسے فورا زکات نکالنا واجب ہے۔ ایسا شخص تاخیر کرنے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔
أنَّ مَذْهَبَنا أنَّها إذا وجَبَتْ الزَّكاةُ وتَمَكَّنَ مِن إخْراجِها وجَبَ الإخْراجُ عَلى الفَوْرِ فَإنْ أخَّرَها أثِمَ…. دَلِيلُنا قوله تعالي (وآتو الزكاة) والأمْر عِنْدَهُمْ عَلى الفَوْرِ وكَذا عِنْدَ بَعْض أصْحابنا (المجموع:٣٣٥/٥)
*النجم الوهاج ٣/٢٥٢ *نهاية المطلب في دراية المذهب ١٠٤/٣ *بحر المذهب للروياني ٦/٤٧٩
بدھ _17 _مئی _2023AH / Fazalurahman Shabandari / 0 Comments
فقہ شافعی سوال نمبر / 1160
امام کے لیے محراب کے اندر کھڑے ہوکر نماز پڑھانے کا کیا حکم ہے؟
محراب چونکہ مسجد کا ہی ایک حصہ ہے اکثر فقہائے کرام نے امام کے لیے محراب میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے. البتہ بہتر یہ ہے کہ امام پوری طرح محراب میں کھڑا نہ ہو، بلکہ محراب سے ایک دو قدم پیچھے کھڑا رہے۔
المِحْرابُ المُجَوَّفُ عَلى الهَيْئَةِ المَعْرُوفَةِ حَدَثَ بَعْدَهُ ومِن ثَمَّ قالَ الأذْرَعِيُّ يُكْرَهُ الدُّخُولُ فِي طاقَةِ المِحْرابِ ورَأيْت بِهامِشِ نُسْخَةٍ قَدِيمَةٍ ولا يُكْرَهُ الدُّخُولُ فِي الطّاقَةِ خِلافًا لِلسُّيُوطِيِّ اھ عِبارَةُ البِرْماوِيِّ ولا تُكْرَهُ الصَّلاةُ فِي المِحْرابِ المَعْهُودِ ولا بِمَن فِيهِ خِلافًا لِلْجَلالِ السُّيُوطِيّ ولَمْ يَكُنْ فِي زَمَنِهِ ، والخُلَفاءُ بَعْدَهُ إلى آخِرِ المِائَةِ الأُولى وإنَّما حَدَثَتْ المَحارِيبُ فِي أوَّلِ المِائَةِ الثّانِيَةِ اهـ. (حواشي الشرواني والعبادي على تحفة المحتاج في شرح المنهاج:٤٩٩/١)
نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج:١/٤٤٠ حاشية الجمل على شرح المنهج:١/٣٢٢